• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وقت رواں کے ساتھ جیسے سائنسی علوم میں وسعت ہورہی ہے ویسے کائنات کی تخلیق میں ان اہم عناصر کا کردار عیاں ہوتا جارہا ہے جن کے بغیرکائنات کا وجودممکن نہیں ہو تا۔ مثال کے طور پر ایک جاندار خلیے کا پیچیدہ نظام انسانی عقل ودانش کو دنگ کرنے کیلئے کافی ہے۔ بلا شبہ انسانی دماغ ازخود کائنات کا پیچیدہ ترین جز ہے ۔ ہمارے دماغ میںتقریباً سو ارب ایسے خلیے ہیں جو عصبونات (neurons) کہلاتے ہیں اور ہر عصبون (neuron) دس ہزاردوسرے عصبونات سے منسلک ہوتاہے۔ یعنی سو ارب ضرب دس ہزار ایسے راستے ہیں جن پر عصبون میں ربط کے ذریعے خیالات سفر کرتے ہیں۔یہ نہایت پیچیدہ نظام معلومات کو پہنچانے اور آپس میں رابطے کا سبب بنتاہے ۔لیکن ایک بڑا سوال یہ ہے کہ خیالات کی سالمیاتی بنیادکیا ہے؟ اکثر لوگ یہ نہیں جانتے کہ خیالات کی دراصل ایک مادی حیثیت ہوتی ہے اور یہ بھی جوہروں اور سالموں سے وجود میں آتے ہیں۔ بہت کم لوگ اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ خیالات اور فکر کے پیچھے کونسے کیمیائی عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔ انہیں عوامل کے بارے میں ابھی حال ہی میں، ا مریکی جریدے نیورو سائنس(Neuro Science) میں میرے دو مقالے شائع ہوئے ہیں۔
جدید سائنس کے مطابق کائنات کی تخلیق کی ابتداء حالت اکایت (state of singularity) سے آج سے 13.8 ارب سال پہلے ایک انفجار عظیم (big bang) کے نتیجے میں شروع ہوئی۔ انٰفجار عظیم کا تصور بیلجیم (Belgium) کے ایک سائنسدانGeorges Lemaitre نے تقریباً سو سال پہلے پیش کیا تھا جو کہ کیتھولک جامعہ (Catholic University) کے ایک پادری تھے۔ اور وہ ماہرین فلکیات اور طبعیات کے پروفیسر بھی تھے۔ ان کے مطابق پوری کائنات ایک اکائی کی شکل میں ایک نقطے پر مرکوز تھی اور پھر ایک بہت عظیم دھماکے کے نتیجے میں وجود میں آئی۔ در حقیقت اس نظرئیے کا ذکر قرآن مجید میں پہلے ہی سے مو جود ہے کہ ایک اکائی سے کائنات بہت بڑے دھماکے کے ذریعے وجود میں آئی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ’ ’ کیا وہ کفار نہیں جانتے کہ جملہ آسمانی کائنات اور زمین (سب) ایک اکائی کی شکل میں جڑے ہوئے تھے پس ہم نے انہیں پھاڑ کر جدا کر دیا‘‘ (سورۃ الانبیاء کی آیت نمبر 30)۔کیاGeorges Lemaitre نے یہ اندازہ قرآن کی اس آیت سے لگایا جو کہ آج سے37 14 سال پہلے نازل ہوئی ؟
(University Johannes utenberg) جو کہ شہرمینز (Mainz) جرمنی میں واقع ہے وہاںکے ڈاکٹر الفریڈکارنر جو کہ ایک معروف ماہر ارضیات تھے وہ اس حقیقت پر مندرجہ ذیل الفاظ میں تبصرہ کرتے ہیں ’’ذرا سوچئے محمدﷺکو اس زمانے میں یہ علم کیسے ہوا ،یہ ناقابل یقین ہے کیونکہ سائنسدانوں نے تو یہ معلوما ت ابھی چند سال پہلے ہی حاصل کی ہیں وہ بھی نہایت پیچیدہ اور جدید تکنیکی طریقوں کے ذریعےـ‘‘۔ ان الفاظ سے وہ اللہ تعالیٰ کے وجود اور قرآن مجید کی حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں۔
ابتدائی دھماکے کے نتیجے میں توسیع کے بعد کائنات آہستہ آہستہ ٹھنڈی ہوئی اور نیم جوہری ذرات پر مشتمل ایک دھوئیں دار مواد کو جنم دیا جو بالآخر سادے جوہروں (atoms) میں تبدیل ہوئے۔یہ دھوئیں کے دیوقامت بادل کشش ثقل کی وجہ سے آخر کارستاروں اور کہکشاؤں میں تبدیل ہو گئے۔کہکشاؤں کے ’’ دھوئیں ‘‘ جیسے مادے سے تشکیل کا ذکر بھی قرآن پا ک کی سورہٗ دخان میں ہے’’ پھر اس نے کائنات میں تبدیل کردیا جب وہ دھواں تھا‘‘ (القر آن 41:11 )
رابن کولنز کائنات کی تخلیق کے سلسلے میں اپنے ایک مقالے بعنوان ’’The Fine Tuning Design Argument‘‘ میں بیان کرتے ہیں ’’فرض کریں کہ ہم مریخ پر کسی خلائی مہم پر جاتے ہیں جہاں ہمیں ایک گنبد نما کو ئی جگہ ملتی ہے جس کے اندر ہر چیز بالکل صحیح ترتیب میں موجودہو جو کہ زندگی کیلئے بالکل مناسب ہو یعنی حرارت 70درجہ فارن ہائٹ ہو، نمی 50% ہو ، اسکے علاوہ آکسیجن کا گردشی نظام ہو، توانائی کا اجتماع نظام ہو ، اور مکمل خوراک کا پیداواری نظام ہو، بلکہ اسے اور سادہ لفظوں میں لے لیں کہ یہ گنبد نما جگہ ایک جیتا جاگتا مکمل کام کرتا ہو ا حیاتیاتی نظام ہو ۔ آپ کے خیال میں اس سیارے پر اس قسم کی جگہ کو دیکھ کر کوئی کیا نتیجہ اخذ کرے گا؟ کیا ہم یہ سمجھیں گے کہ یہ سب محض اتفاقیہ وجود میں آگیا ہوگا؟ یقینانہیں، بلکہ ہم بلامبالغہ یہ نتیجہ اخذ کریں گے کہ یہ ضرور کسی ذہین عقل کا کارنامہ ہے۔ ہم ایسا کیوں سوچیں گے؟ کیونکہ ایک ذہین تخلیق کار ہی اس قسم کے وجود کی مو جودگی کی وجہ ہو سکتا ہے ـ‘‘ ۔وہ مزید بیان کرتے ہیں ’’ طبعیات میں حالیہ دریافتوں کے مطابق یہ بات طے ہوگئی ہے کہ کائنات کی تخلیق محض کوئی حادثہ نہیں ہو سکتی بلکہ ایک نہایت سمجھدار’’حیاتیاتی نظامـ‘‘ کے مطابق وجود میںآئی ہے ‘‘۔ اور یہ سب محض اتفاق نہیں ہوسکتا کیونکہ کائنات کے تقریباً تمام بنیادی اصول و قوانین نہایت باریک بینی سے بنائے گئے ہیں تاکہ زندگی وجود میں آسکے۔
کائنات کی موجودہ صورت میں تشکیل کیلئے بہت سے عالمگیر طبعیاتی دائم کا خاص مقدار میں ہونا نہایت ضروری ہے کیونکہ کہکشاؤں کی تشکیل، سیاروں کے ابھرنے اور کائنات میں حیات کا وجود ان کے بغیر ناممکن تھا۔ کائنات پر زندگی صرف اسی وقت قائم رہ سکتی ہے جب کچھ مخصوص بنیادی عالمگیر طبعیاتی دائم صرف ایک خاص رقم و میزان میںواقع ہوں ۔ اگر ان میں ذرہ برابر بھی فرق ہوتا تویہ توازن نہیں قائم ہوتااورکائنات کا وجود اور پھر اس میںزندگی کا وجود ممکن نہیں ہوتا۔
مثال کے طور پر اگر انفجار عظیم (big bang) کے دھماکے کی قوت میں نہایت ہی کم فرق ہوتا یعنی ایک بٹا ارب ، ارب ، ارب، ارب، ارب، ارب کروڑ حصّہ کمی آتی تو کائنات کی تخلیق ہی نہ ہو پاتی یا تو یہ خود اپنے آپ میں ہی سمٹ جاتی ، یا اس قدر تیزی سے وجود میں آتی کہ ستارے تخلیق ہی نہ ہو پاتے ، اس کے وجود کیلئے ایک خاص اور بالکل درست توانائی کی مقدار کی ضرورت تھی۔اس کا موازنہ پستول سے نکلی ایسی گولی سے بھی کیا جاسکتا ہے جسکاآپ ایسا صحیح نشانہ لگائیں کہ جس شے پر آپ نشانہ لگا رہے ہیںوہ صرف ایک انچ کے برابر ہو اور وہ ہماری کائنا ت کے دوسرے سرے پر ہویعنی فاصلہ ہدف پچاس ارب نوری سال کے برا بر ہو۔ یہ تقریباً ناممکن ہے بالکل اسی طرح اگر کشش ثقل کی قوت مطلوبہ توازن سے ذرا سی بھی کم یا زیادہ ہو جاتی تو زندگی کو برقرار رکھنے کے ستارے مثلاًسورج کا وجود ہی نہیں ہو سکتا تھا۔ اور جس زندگی کو ہم جانتے ہیں اس کا وجود ناممکن ہو جا تا ۔ اسی طرح وہ قوت جو کہ پروٹون اور نیوٹرون مضبوط جوہری قوت جوہرمیں یکجا رکھتی ہے ۔اپنی موجودہ مقدار سے ذرہ برابر بھی مختلف ہوتی تو زندگی ناممکن ہو جاتی۔ یہی دلائل دیگر طبعیاتی توازن کیلئے ہیں (جیسا کہ برقی و مقناطیسی قوت، پروٹون کے مقابلے میں نیوٹرون کا وزن وغیرہ)۔ ان سب کو نہا یت باریکی اور تفصیل کے ساتھ تخلیق دیا گیا ہے تاکہ کہکشائیں وجود میں آسکیں اورپھرکرہ ارض پر زندگی نمودار ہو سکے ۔
ان تمام عوامل کا انتہائی باریکی کے ساتھ جو توازن موجود ہے وہ محض اتفاق نہیں ہو سکتاجیسا کہ کشش ثقل کی بدولت ستاروں اور سیارو ں کا آپس میں قریب آنا اور سیاہ توانائی کا اسکے برعکس انہیں پرے کرنا، ان کے بارے میں سورۃٗ رحمان میںذکر ہے ’’ میزان (توازن) تمام زمین اور آسمانوں میں رکھاگیا ہے‘‘
لامذہب لوگوں کا دعویٰ ہے کہ ہماری کائنات صرف اربوں کھربوں حادثات کے تسلسل کے نتیجے میں وجود میںآ ّئی ہے۔ حتیٰ کہ اس بنیا دی عالمگیر طبعیاتی دائم کو جھٹلانے کیلئے وہ اس حد تک بھی چلے جاتے ہیں کہ ان کے مطابق یہ ممکن ہے کہ ایسی ان گنت کائناتیں ہونگی اور ایسے بنیا دی عالمگیر طبعیاتی دائم صرف ہماری کائنات میں اتفاقیہ طور پر موجود ہیں اور دیگر کائناتوں میں ان کا ہونا ضروری نہیں ہوگا۔ ان کے مطابق ہم محض درست کائنات میں ہیں جہاںپرتمام عوامل اور اصول نہایت درستگی کے ساتھ اتفاقیہ طورپر موجو ہیں۔ اسی طرح اتفاقیہ طور پر ہم درست سیاّرے پر موجود ہیں جہاں پانی اور دیگر عناصر موجود ہیں۔یہ جواہر صرف حادثاتی طور پرآپس میںجڑ ے گئے اورحیات کے سالمے (امینو ایسڈ اور نیوکلک ایسڈ وغیرہ) اتفاقیہ طور پر تخلیق ہوئے۔یہ مردہ سالمے اپنی مماثلت کے سالموں کو پہچان کر پھر حادثاتی تسلسل سے جڑتے گئے اور بالآخر ہم انسان وجود میں آئے۔ ایسے مسلسل اتفاقات کو کوئی عقل مندشخص قبول نہیں کرسکتا۔


.
تازہ ترین