جیسے جیسے عالمی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے جو اگلے 25 سال میں9ارب سے بھی تجاوز کر جائے گی اسی تناسب سے کا لجوں اور جامعات میں داخلہ لینے والے طلبہ کی تعدادمیں بھی دن بدن اضافہ ہو رہا ہے ۔ جامعات میں محدود سیٹوں کی وجہ سے بیشتر طلباء انتشار کا شکار ہو رہے ہیں خصوصاً ان ممالک میں جہاں اعلیٰ تعلیم کو قومی ترجیح نہیں دی جاتی ۔ پاکستان میں اعلی ثانوی درجے سے فارغ التحصیل ہر دس طلباء میں سے صرف ایک ہی کو جامعات میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع مل پاتا ہے باقی طلباء منتشر ہو جاتے ہیں۔ یہ بہت بڑا قومی نقصان ہے ۔ان حالات میں جب نئی جامعات قائم کرنے کیلئے دبائو پڑتا ہے تو اس بات کا قوی خطرہ ہوتا ہے کہ معیار قائم نہ رہ سکے۔ کسی بھی جامعہ کے معیار کی جانچ کاپیمانہ اسکے اساتذہ کا معیار اور پی ایچ ڈی اساتذہ او ر طلباء کے تناسب سے ہوتا ہے جو کہ ہر ایک Ph. D. استاد پر20طلبہ ہونا چاہئے۔دنیا کی اعلیٰ درجے کی جامعات (مثلاً جامعہ کیمبرج جس سے اب تک 70اساتذہ نوبل انعام جیت چکے ہیں ) وہاں ہر 6 طلباء پر ایک پی ایچ ڈی سطح کا استاد موجود ہے۔ پی ایچ ڈی سطح کے اچّھے اساتذہ فراہم کرنے کی ایچ ای سی کی حددرجہ کوششوں کے باوجود بیشتر پاکستانی جامعات میں اس وقت بھی یہ تناسب نہایت ہولناک حد تک خراب ہے۔ اکثر جامعات میں یہ تناسب 1.80 ہے اور بہت سی جامعات میں اس سے بھی برا حال ہے ۔
تاہم ترقی کی منازل طے کرتی ہوئی ٹیکنالوجی نے فاصلاتی علمیت کے ذریعے علمی ترویج کیلئے حیرت انگیز مواقع فراہم کئے ہیں جو اب سے پہلی دہائی تک موجود نہیں تھے۔2000 ءسے 2002 ءکے دوران انٹر نیٹ کی رسائی 29 شہروں سے بڑ ھ کر ایک ہزار سے زائد شہروں ، قصبوں اور دیہاتوں تک پہنچ گئی تھی۔فائیبر کو پھیلا کرکچھ درجن شہروں سے اور کئی قصبوں تک محیط کر دیا گیاتھا۔ 2MB لائن کی بینڈوڈتھ کی قیمتوں میں بھی انتہائی کمی لائی گئی جو کہ87,000امریکی ڈالر ماہانہ سے گھٹ کر 2,000 امریکی ڈالر ماہانہ کر دیں اور پھر 98 امریکی ڈالر ماہانہ تک کم ہو گئی۔ اس طرح پاکستا ن کو انٹرنیٹ کی مد میں خطّے کا سستا ترین علاقہ بنادیا۔ فاصلاتی تعلیم کو فروغ دینے کیلئے مصنوعی سیّارہ (Pak Sat 1 ) خلاء میںلایا گیا ۔ لاہور میں ورچویل جامعہ (Virtual University) قائم کی گئی جو کہ اس وقت پاکستان اور دیگر ممالک کے تقریباً 150,000 طلبہ کو اعلیٰ و معیاری تعلیم فراہم کر رہی ہے ۔IT کے میدان میںتیزترین ترقی نے مختلف شعبہ جات مثلاً بینکاری ،تجارتی لین دین ا و ر تعلیم پر زبردست مثبت اثرات ڈالے ہیں، موبائل ٹیلیفون نہایت تیزی سے پھیلنے کی اہم وجہ یہ فیصلہ تھا کہ کال ملانے کی قیمتوں میں انتہائی درجہ کمی کی جائے اور کال موصول کرنے پر کوئی معاوضہ نہ لیا جائے۔ ان اقدامات کی وجہ سے پاکستان میں موبائل ٹیلی فون کی تعداد میں دھماکہ خیز انداز میں اضافہ ہوا۔ 2001 میں ملک بھرمیںموجو د صرف 3 لاکھ موبائل فون تھے ۔ ان کی تعداد بڑھ کر اس وقت 13 کروڑ سے بھی زائد تک پہنچ گئی ہے۔اس سے لاکھوں پلمبروں، الیکٹریشنوں اور تکنیکی تربیت یافتگان کو گھر بیٹھے روزگارکے موقع فراہم ہوئے ہیںاور اب iPads اور دیگر موبائل آلات کے ذریعے آن لائن لیکچروں تک رسائی بھی ممکن ہو گئی ہے۔
اس پیشرفت کی بدولت اعلیٰ تعلیمی شعبہ کافی مستفید ہوا ہے۔ 2004،میں ،میں جس وقت اعلیٰ تعلیمی کمیشن (HEC)کا چیئرمین تھا ہم نے جامعات کے طلبہ کیلئے اعلیٰ معیاری تعلیم کی فراہمی کے مختلف پروگرام شروع کئے ۔ایک ڈیجیٹل لائیبریری قائم کی گئی تھی جس سے220بین ا لا قوامی کمپنیوں کے شائع شدہ 25,000بین الاقوامی جریدے اور 65,000 درسی کتب جامعات کے طلبہ کومفت رسائی ہو گئی تھی۔ یہ سہولت امر یکہ، یورپ اور جاپان میں بھی ہر جامعہ کو ملکی سطح پر مفت دستیاب نہیں ہے۔ ملکی سطح پر بہترین ویڈیو کانفرنسنگ کی سہولت قائم کی گئی تھی جس کے تحت آج پاکستان بھر کی تمام سرکاری اورکچھ نجی جامعات میں یہ سہولت موجود ہے جہاں امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا، جاپان اور یورپ کے بہترین پروفیسر روزانہ ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے لیکچر دیتے ہیں اور یہاں بیٹھے طلبہ ان سے براہ راست سوالات پوچھ سکتے ہیں۔ گزشتہ تین سالوں میں تقریباً 3,000 لیکچرز دئیے جا چکے ہیں جس نے ہماری جامعات کے طلبہ تک معیاری تعلیم کی رسائی میں بہترین کردار ادا کیا ہے۔قومی سطح پر اس پروگرام کا اہم مرکزجامعہ کراچی میں لطیف ابراہیم جمال قومی مرکز برائے سا ئنس معلومات ہے۔ پاکستان نے وسیع پیمانے پر موجود عمدہ آن لائن کورسز سے بھی استفادہ کرنا شروع کر دیا ہے جو کہ اسکول ، کالج اور جامعات کی سطح پر بین الاقوامی فاصلاتی تعلیم کے طور پرآج موجود ہیں ۔ MIT سب سے پہلا ادارہ تھا جس نے اپنے کورسز عالمی سطح پر MIT Open Courseware کے ذریعے متعارف کرائے تھے۔اس کا فوری استعمال اعلیٰ تعلیمی کمیشن نے2005 میں MIT Open Courseware کی ہم وضع ویب سائٹ پاکستان نے بھی بنائی تھی تاکہ ڈائون لوڈنگ کو تیز اور آسان بنایا جا سکے۔ یہ 2100 کورسز ہیں اور215 ممالک سے 20 لاکھ سے زائد افرا دسالانہ استعمال کرتے ہیں۔ اب تک حیرت انگیزطور پردنیا بھر سے تقریباً دس کروڑ افراد نے اس مواد تک رسائی کی ہے اور مستفید ہوئے ہیں۔ اس قسم کے وسیع آن لائن کورسز دوسری مغربی جامعات کی طرف سے بھی متعارف کئے جا رہے ہیں۔ اس سلسلے کا دوسرا دلچسپ فاصلاتی تعلیمی پروگرام یوڈیسٹی کہلاتا ہے جس میں مصنوعی ذہانت اور اس سے وابستہ دیگر شعبہ جات کامواد شامل کیا گیا ہے یہ جامعہ اسٹینفورنے شروع کیا ہے۔ تقریباً 20 لاکھ طلبہ اس کی کلاسوں کیلئے رجسٹرڈ ہیں ۔ ایک اور فاصلاتی تعلیمی پروگرام ’کورسیرا ‘ ہے جو کہ اسٹینفورڈ کے دو پروفیسروںنے مل کر قائم کیا ہے جس میں طلبہ کی تعداد 30 لاکھ تک پہنچ گئی ہے اور کئی لاکھ نئے طلبہ کورسیرا کے متعارف کر دہ 200سے زائد کورسز میں اپنا اندراج کر رہے ہیں۔انہیں آن لائن علمی اقدامات کے ساتھ ساتھ ایک اور پروگرام جامعہ ہارورڈ نے MIT کے اشتراک سے "edX" کے نام سے شروع کیا ۔ ان دونوں جامعات نے30 لاکھ امریکی ڈالر فی جامعہ اس آن لائن کورس کیلئےدیئے ہیں۔
EdX میں دس لاکھ سے زائد طلبہ رجسٹرڈ ہیں۔ اسی طرح کیلیفورنیا میں خان اکیڈمی نے اسکول کی سطح کے کورسز متعارف کئے ہیں جن میں سے بیشتر کو عربی، اردو اور فرانسیسی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا ہے ۔ حال میں تقریباً 40 برطانوی و دیگر جامعات کے مجموعے سے ایک اور کورس ــ’ فیوچر لرن گزشتہ سال متعارف کا گیا ہے ۔جہاں اب کئی لاکھ طلبہ کا اندراج ہے ۔ لیکن ان سب پیش قدمیوں سے ہمیں کیا فائدہ؟پاکستان کوترقی کی طرف لے کے جانے کا یہ سنہری موقع ہے ۔ یہ سمجھتے ہوئے ہم نے مندرجہ بالا اداروں سے منظوری لے کر ان وسیع آن لائن کورسز کی مشترکہ ویب سائٹ یّار کی ہے
(Integrated Massive Open Online Courses, i MOOCs) جس نے پاکستان کو مشترکہ کورسز کے پلیٹ فارم پر عالمی لیڈر بنادیا ہے۔ اس کا پتہ یہ ہے: (www.lej4learning.com.pk) اس کا افتتاح کچھ ماہ پہلے صدرِ پاکستان نے کیا تھا ۔ یہ کورسز بنا رجسٹریشن، اور بلامعاوضہ کے ویب سائٹ پر موجود ہیں۔ اب کوئی بھی طالبِ علم دنیا کے کسی بھی کونے سے مفت میں آسان انداز میں ترتیب شدہ ان کورسز سے مستفید ہو سکتا ہے ۔ ان کورسز کو تعلیمی سطح اور مضامین کے حساب سے تر تیب دیا گیا ہے(اسکول، کالج اورجامعہ) ۔ اسکے علاوہ اس میں ایکMeta Search Engine شامل کیا گیاہے جو کہ کسی بھی موضوع کو ڈھونڈھنے کے عمل کو سہل اور تیز کردیتا ہے ۔
دنیا کے بہترین کورسز الحمدللّٰہ آج ہماری انگلیوں پر ہیں، اب یہ پاکستان کے اسکول کالج اور جامعات کا کام ہے کہ انہیں کیسے اپنے نصاب میںسموئیں اور کیسے ان سے پوری طرح استفادہ کریں،امتحان لیںاور ان کی بنیاد پر طلبہ کو کریڈٹ دیا جائے ۔معیاری تعلیم کے حصول میں پاکستان میںاورپوری دنیا میں اس کے بہت زود اثر نتائج برآمدہوسکتے ہیں،
تصحیح
مورخہ 13 جولائی 2014 بروز اتوار کےکالم ــ’’جدّت طرازی ترقی کاواحد راستہ‘‘ کی ابتدائی سطروں میں پاکستان میں آبادی کی صحیح تعداد8 1 کروڑ اور 50 لاکھ ہے جو کہ غلطی سے 1 کروڑ 85 لاکھ لکھ دی گئی تھی۔ان میں 20 سال سے کم عمر نوجوانوں اور بچّوںکی تعداد تقریباً 10کروڑ ہے۔