17 جون کے سانحہ ماڈل ٹائون نے حکومت کی فہم و دانش مفلوج کردی ہے اور پولیس و انتظامیہ پر اس کی گرفت کمزور۔ اتنی کمزور کہ ماڈل ٹائون اور زمان پارک لاہور سے لے کر ریڈ زون اسلام آباد تک کہیں بھی سکیورٹی ادارے مظاہرین کے راستے کی رکاوٹ نہ بنے۔
14 اگست کو ڈاکٹر طاہرالقادری نے چار روزہ محاصرے سے نکلنے کا فیصلہ کیا تو حکومتی اعلانات کے مطابق رکاوٹیں ڈالنے اور کوئی ناخوشگوار اقدام کرنے کے بجائے پولیس نے کنٹینر ہٹانے میں کارکنوں کی مدد کی، الطاف بھائی اور گورنر سرور صرف حکومت کی فیس سیونگ کے لیے آئے۔ 19 اگست کو انقلاب مارچ و آزادی مارچ نے ریڈ زون کا رخ کیا تو پولیس وزیر داخلہ کی ہدایات اور دعوئوں کے مطابق آنسو گیس، لاٹھی مارچ اور ربڑ کی گولیاں بھول کر بھنگڑا ڈالنے لگی۔ ٹی وی پر پولیس اہلکاروں کے بھنگڑے دیکھ کر لگا کہ ریڈ زون کی مٹی پلید کرنے پر سب سے زیادہ وہ خوش ہیں۔
دراصل عدالت نے 17 جون کو احمقانہ پہل کی اور پھر اس سانحہ نے اس قوت فیصلہ کو اس قدر کمزور کردیا کہ وہ ایک قدم آگے اور دو قدم پیچھے کی ناکام حکمت عملی کو کامیابی اور اخلاقی برتری کا نسخہ کیمیا سمجھنے لگی۔ یا باکی شورا شوری یا بایں بے نمکی۔ اگر وزیراعظم نے مریم نواز کے دعویٰ کے مطابق پولیس اور دیگر اداروں کو مظاہرین سےسختی نہ کرنے کا حکم دیا تھا تو پھر شام چھ ساڑھے چھ بجے وزیر داخلہ نثار علی خان یہ بھاشن دینے میڈیا کے سامنے کیوں آئے کہ کسی کو ریڈ زون کا تقدس پامال کرنے کی اجازت نہیں اور اس کی سکیورٹی پاک فوج کے سپرد کی جارہی ہے وغیرہ وغیرہ۔
ہمارے دوستوں کو عرصہ دراز سے آئی ایس پی آر کے پریس ریلیز کا انتظار تھا وہ گزشتہ روز آگیا جس میں بامعنی اور بامقصد مذاکرات پر زور دیا گیا ہے امریکہ اور برطانیہ بھی ’’منتخب‘‘ ’’جمہوری‘‘ اور ’’قانونی‘‘ حکومت کی پرزور حمایت کرنے کے بجائے آئین کے تحت مذاکرات کے ذریعے جملہ مسائل حل کرنے پر زور دے رہے ہیں تو اس کا مطلب کیا ہے؟ عمران خان اورطاہرالقادری کی ناکامی یا انہیں طاقتور سٹیک ہولڈر تسلیم کرنے کا اشارہ؟
اب خواجہ سعد رفیق کہتے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان سے ملاقات پر آمادہ ہیں۔ اپوزیشن کی تین اہم جماعتوں پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی کو مذاکرات کا مینڈیٹ دے دیا گیا ہے مگر یہ سارے اقدامات 12 اگست کے بعدکرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟‘‘ جبکہ عمران خان اور طاہرالقادری کے عزائم کسی سے مخفی تھے نہ ان کی شکایات اور مطالبات مبہم 1977 میں بھٹو صاحب کی لاپروائی، بے نیازی اور مخالفین کو اہمیت نہ دینے کا نتیجہ 5 جولائی کے ایکشن فیئر پلے کی صورت میں برآمد ہوا۔ تب بھی بھٹو صاحب، فوجی قیادت سے طویل ملاقاتیں کرتے تھے، اپنی حمایت میں ایک بیان بھی جاری کرا لیا تھا اورجنرل ضیاء الحق کی وفاداری پر وہ پردہ نازاں تھے مگر جب حکومت کی رٹ ختم ہوئی، اخلاقی جواز کمزور اور قوت مقابلہ و مکالمہ مضمحل تو ؎
الٹی ہوگئی سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
عوامی تحریک اور تحریک انصاف ایوان اقتدار راہداریوں میں برپا کشمکش سے آگاہ ہے، مسلم لیگ کا داخلی انتشار، فوج کے ساتھ حکومت کی چپقلش اور فوج کی طرف سے سیاسی معاملات میں مداخلت نہ کرنے اور غیر جانبدار رہنے کی طے شدہ پالیسی دونوں پر عیاں ہے اور راستے کی آخری رکاوٹیں دور ہو چکی ہیں۔ کارکنوں کے حوصلے بڑھ چکے ہیں، خوف ان میں باقی نہیں رہا اور اہداف پورے ہونے کا سو فیصد یقین ہے کیونکہ طاہرالقادری اور عمران خان نے جو کہا کر کے دکھایا، جیسا کہا ویسا ہوا، باقی مراحل بھی انہیں اپنی مرضی کے مطابق طے ہوتے نظر آرہے ہیں اس بنا پر کسی خوش فہمی کی گنجائش ہے نہ سازشی تھیوری پروان چڑھنے کی امید۔
مسئلہ بالآخر بامعنی اور بامقصد مذاکرات سے حل ہوگا۔ اس حوالے سے حکومت اور اپوزیشن دونوں کو اپنی انائوں کے حصار سے باہرنکلنا پڑے گا یہ بحث فضول ہے کہ ہجوم اکٹھا کر کے حکومتیں نہیں بدلی جاسکتیں یا پورے ملک میں کوئی بحران، کوئی بے چینی نہیں اور اپوزیشن کے مطالبات نہ مانے گئے تو وفاق خطرے میں پڑ جائیگا وغیرہ وغیرہ۔ اس طرح کے دلائل ہر حکمران نے تراشے مگر کسی نے ان پر کان دھرے نہ یہ سڑکوں پر بیٹھے لوگوں کو مطمئن یا کنفیوز کرتے ہیں۔ حکومت 17 جون سے پسپائی کا شکار ہے۔ بے حوصلہ اور اندیشہ ہائے دور دراز کا شکار جبکہ مقابل قوتوں کا عزم بلند ہے اور ایجنڈا دو ٹوک۔
1977 میں حکومت اور پی این اے ایک دوسرے کے مدمقابل تھیں اور بھٹو صاحب ’’وزیراعظم کے استعفے پر بات نہیں ہوسکتی‘‘ کا راگ الاپ رہے تھے کیونکہ ان کے بقول ’’میں اپنا نام تاریخ میں دھاندلی کرانے والے وزیراعظم کے طور پر لکھوانا نہیں چاہتا ’’جنرل ضیاء الحق نے کور کمانڈروں کی وزیراعظم سے ملاقات کا اہتمام کیا۔ سابق وائس چیف آف آرمی سٹاف جنرل کے ایم عارف نے اپنی کتاب ’’ورکنگ ود ضیا‘‘ میں لکھا ہے ’’کور کمانڈروں نے وزیراعظم کو صاف صاف بتایا کہ تحریک کا ہدف وزیراعظم کی ذات ہے، حکومت اور پی این اے کے درمیان باہمی اعتماد کا فقدان ہے اور حکومت کو اس مسئلہ کا سیاسی حل تلاش کرنا چاہئے‘‘۔ کیا کئیگھنٹے کی ملاقات میں صرف ریڈ زون کی سکیورٹی کے انتظامات کا جائزہ لیا جاتا رہا یا فوج کی طرف سے کوئی دو ٹوک پیغام بھی ملا؟ قوم جاننے کی خواہش مند ہے۔
اس وقت بھی نظر یہ آتا ہے کہ وزیراعظم کو ہر طرف سے یہی مشورہ مل رہا ہے مگر ریاض الخطیب مرحوم جیسا کوئی رابطہ کار ہے نہ وزیراعظم کا ایسا کوئی مشیر جو ان سے کہہ سکے۔ حضور! جمہوریت کو بچانا صرف اپوزیشن کی ذمہ داری نہیں، قربانی صرف عمران خان اور طاہرالقادری کا فرض نہیں اور مسئلہ اب سروں کی گنتی یا موٹر سائیکلوں کی تعداد کا نہیں۔ پارلیمنٹ ہائوس، وزیراعظم سیکرٹریٹ، ایف بی آر، پاک سیکرٹریٹ، سپریم کورٹ آف پاکستان، پی ٹی وی الیکشن کمیشن آف پاکستان اور دیگر عمارتوں میں کام ٹھپ ہے، دارالحکومت عملاً محاصرے میں ہے اور احتجاجی مظاہرین کا پیمانہ جو کسی وقت لبریز ہوسکتا ہے اس لیے پہل کیجئے، سب کچھ گنوانے کے بجائے اپنی بند مٹھی کھولیئے، بحران پر قابو پایئے اور تاریخ میں اپنا نام ایک ایسے شخص کے طور پر لکھوایئے جس نے ذات اور منصب کی قربانی دیکر آئین اور جمہوریت کو کسی حادثےسے بچا لیا۔
عوام اور فوج کو آمنے سامنے خود حکومت نے لاکھڑا کیا ہے۔ دہشت گردی کا خطرہ موجود ہے اور ہجوم کے بے قابو ہونے کا بھی۔ دونوں صورتوں میں سکیورٹی اداروں کا ردعمل کیا ہوگا فوج اور عوام ایک دوسرے سے ٹکرائیں گے یا موردالزام حکومت کو ٹھہرایا جائیگا جس نے تاخیری حربوں سے کیچوے کوسانپ بنایا اورپھر اس کے خوف سے بے عملی کا شکار ہوگئی۔ سازشی تھیوریوں میں پناہ ڈھونڈنے لگی۔ فراست، بصیرت اوردوراندیش کیا اسی کا نام ہے؟