• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سپریم کورٹ نے وزیر اعظم کو رولز آف بزنس پر عمل در آمد کرنے کا حکم جاری کردیا ہے ۔سپریم کورٹ میں خواجہ سعد رفیق کی اپیل کا فیصلہ ہونے والا ہے۔نا درا نے بھی خواجہ آصف کے حلقے میں دھاندلی کی تصدیق شدہ سمری سپریم کورٹ میں بھجوا دی ہے۔یعنی اس کا فیصلہ ہونے کو ہے۔ توقع تھی کہ عدالت کا فیصلہ آتے آتے پانچ سال پورے ہوجائیں گے مگرکام ختم ہوتا ہوا نظر آرہا ہے ۔ڈاکٹر طاہر القادری نے بھی قصاص تحریک کا آغاز کردیاہے۔ شیخ رشید نے بھی احتجاجی جلسے شروع کردئیے ہیں۔پائی پائی کاحساب لینے کے نعرے گونجنے لگے ہیں۔ عمران خان احتجاجی تحریک شروع کرچکا ہے ۔پیپلز پارٹی کہاں کھڑی ہے اس بات کا اندازہ لگانے کیلئے گزشتہ شام میں نے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کےساتھ لندن میں گزاری۔یعنی لندن میں پاکستان آباد کیا۔ہم دونوں اکیلے تھے۔ریستوران کی کھڑکیوں کے شیشوں پر بکھرتی ہوئی بارش کی بوندیں کسی اداس آرٹسٹ کی غمگین پینٹنگ کی طرح لگ رہی تھیں ۔آرٹ ،کلچر ،شاعری اورفلسفے سے لے کر سیاست کے کینوس پر اپنی آنکھیں جمی رہیں۔میڈیا میں پیپلز پارٹی کی کارکردگی زیر بحث رہی۔اس بات پر غور کیا گیا کہ اُن کے دور میں کیا کسی کو نوازا گیا تھایانہیں ۔کرکٹ کے حوالے سےنجم سیٹھی کا ذکر ِخیر آیا-عرفان صدیقی کی کالم نگاری میں کوثر و تسنیم سے دھلی ہوئی نثر یاد آئی-عطاالحق قاسمی کی مزاح نگاری موضوع گفتگوبنی-ابصار عالم نے جو ریگزارِصحافت پر نقشِ پاچھوڑے ہیں انہیں غور سے دیکھاگیا۔یہ بات بھی موضوع ِگفتگو رہی کہ پنجاب میں پیپلز پارٹی کی شکست کا اصل سبب کیا ہے۔ لوگ پیپلز پارٹی سے کیوںمنحرف ہوئے ۔کیا بھٹو کا کرزماپنجاب میں دم توڑ چکا ہے-ہم دونوں اس بات پر متفق تھے کہ پنجاب کے جو روشن خیال لوگ ہیں وہ پیپلز پارٹی کے ساتھ ہوا کرتے تھے ۔ میرا خیال تھا کہ پیپلز پارٹی نے صرف اپنے نظریاتی کارکنوں سے بے توجہی نہیں برتی بلکہ اُس نظریہ کو بھی محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ دفن کردیاجس کی وجہ سے پنجاب میں ایک دما دم مست قلندرکی فضا برقرارتھی۔یوسف رضا گیلانی سمجھتے تھے کہ وہ آر اوز کا الیکشن تھا۔
یوسف رضا گیلانی اس بات پر پورا یقین رکھتے ہیں کہ بلاول پیپلز پارٹی کو اس گرداب سے نکالنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں جب میں نے انہیں کہاکہ بیشک بلاول کی مثال ایک تیز رفتار ریل انجن کی ہے مگر اس کے پیچھے جو بہت بھاری سامان سے لدی ہوئی مال گاڑی لگی ہوئی ہے اس کا کیا کیا جائے گا اس کی موجودگی میں انجن اپنی تیز رفتاری نہیں دکھا سکتا تو گیلانی صاحب کہنے لگے پہلی بات تو یہ ہے کہ اس کے پیچھے کوئی بھاری بھرکم مال گاڑی موجود نہیں اور اگرہے بھی تو میرے خیال میں بلاول بھٹو میں اتنی اہلیت ہے کہ اس کے ساتھ بھی اڑ سکتا ہے -اور مجھے ارنسٹ جی وکٹر یاد آگیا جس نے کہا تھا ’’کچھ لوگوں کی مثال اُس پرندے کی ہوتی ہے جو قفس سے نجات حاصل کرنا چاہتا ہے۔وہ پوری قوت سے پنجرے کی دیواروں اور دروازوں سے ٹکراتا ہے مگر پنجرہ نہیں ٹوٹتا لیکن اس میں اڑنے کی اتنی شدید خواہش ہوتی ہے کہ وہ آخر کار پنجرے کو بھی اپنے ساتھ اڑا لے جاتا ہے ‘‘ اب دیکھتے ہیں کہ بلاول اپنے پنجرے کو توڑ کرباہر نکل آتا ہے یا پنجرے سمیت پرواز کرنے لگتا ہے ۔اس کی بلند پروازی سے کوئی انکار نہیں۔امید کی جاسکتی ہے کہ وہ کسی وقت عمران خان کے ساتھ کسی کنٹینر پر موجود ہوسکتا ہے۔
یوسف رضا گیلانی کو اس بات کا بہت دکھ تھا کہ موجودہ حکومت نے ان کا نام ای سی ایل میں ڈالا ہوا ہے۔ انہیں اجازت لیکر ملک سے باہر جانا پڑتا ہے -ویسے ملک کے ایک سابق وزیر اعظم کے ساتھ موجودہ حکومت کا یہ رویہ مناسب نہیں -پتہ نہیں یوسف رضا گیلانی کے خلاف کونسا مقدمہ ہے۔ ہاں پرویز مشرف کے خلاف ملک سے غداری کا مقدمہ درج ہے مگر ای سی ایل سے ان کا نام نکال دیا گیا ہے-جمہوریت کے نام لیوائوں نے غیر جمہوری صدر کا نام نکال دیا ہے مگراُس جمہوری وزیر اعظم کا نام ڈال دیاہے جسے پوری اسمبلی نے متفقہ طور پر وزیر اعظم بنایا تھا۔اس دکھ کے اظہار پر میں نے گیلانی سے پوچھا کہ’’ سنا ہے رحمان ملک کی وساطت سے آصف علی زرداری اور نواز شریف کے درمیان گفت و شنید کا سلسلہ جاری ہے تو انہوں نے سختی سے تردید کی -مجھے ایسا لگا جیسے وہ اس حقیقت سے باخبر نہیں ہیںیقینا بلاول بھٹو بھی اس بات سے بے خبر ہونگے۔
بلاول بھٹو سمیت پوری پیپلز پارٹی کی لیڈر شپ ناروے میں چودہ اگست منا کر ابھی ابھی پاکستان واپس گئی ہے جہاں بلاول بھٹو اور یوسف رضا گیلانی کی ملاقات ناروے کے وزیر خارجہ سےبھی ہوئی اور بھی کئی اہم ملاقاتیں ہوئیںکسی زمانے میں نواز شریف بھی ناروے جایا کرتے تھے انہوں نےیہاں سے پہلے ایک اردو چینل کا افتتاح کیا تھا جسے یورپ میں رہنے والے اس زمانے میں پی ٹی وی سمجھ کر دیکھا کرتے تھے کیونکہ اس پر نہ صرف تمام پی ٹی وی کے پروگرام نشر ہوتے تھے بلکہ نو بجے خبر نامہ چلتا تھا۔ناروے میں چودہ اگست کی تقریب میں ڈاکٹر صغرا صدف کو بھی بلایا گیا تھا مجھے یقین ہے کہ یہ تقریب کوئی اور ہوگی۔
پھر ہماری گفتگو میںعلی حیدر گیلانی بھی شریک ہو گئے۔وہ مجھے بہت اچھے لگے ۔کچھ لوگوں کا خیال ہے یوسف رضا گیلانی کے بیٹے نے جوتکلیف دہ عرصہ طالبان کی قید میں گزارا ہے اس نے اس کی شخصیت پر بڑے اچھے اور انسان دوست اثرات مرتب کئے ہیں۔پھر آصف سلیم مٹھا بھی آگئے ۔علی حید ر گیلانی نے بتایا کہ وہ پاکستان میں مذہبی تنگ نظری کےخلاف ایک تحریک شروع کرنا چاہتے ہیں ۔ایسی تحریک اس وقت پاکستان کی بھی ضرورت ہے اور یہ تحریک پیپلز پارٹی کو بھی ایک نئی زندگی دے سکتی ہے ۔بہر حال یہ طے ہے کہ پیپلز پارٹی کے پاس احتجاجی تحریک شروع کرنے کے سوا اور کوئی راستہ نہیں۔


.
تازہ ترین