بیرسٹر چودھری اعتزاز احسن نے پارلیمینٹ کے مشترکہ اجلاس میں نپی تلی تقریر کا آغاز حکومت کے خلاف چارج شیٹ سے کیا تو وزیراعظم سمیت حکومتی ارکان کی حالت دیدنی تھی۔ ’’دھاندلی اور کرپشن کے حوالے سے عمران خان کے الزامات درست اور وزنی ہیں۔ ماڈل ٹائون میں بہت ظلم ہوا، قیامت برپا ہوئی، ایف آئی آر تک درج نہ کی گئی، آپ کے وزراء نااہل اور متکبر ہیں۔ میڈیا پر پولیس نے ظلم کیا جس سے سارے پاکستانیوں کے سر شرم سے جھک گئے‘‘ وغیرہ وغیرہ۔
ٹی وی پر تقریر سن کر مجھے 1977یاد آرہا تھا جب 9اپریل کو بھٹو صاحب کی فیڈرل سکیورٹی فورس، پنجاب پولیس اور نتھ فورس نے دھاندلی کے خلاف احتجاج کرنے والے مظاہرین پر حملہ کیا اورچشم زدن میں پنجاب اسمبلی میدان کارزار بن گئی۔ لاشیں گریں، زخمیوں سے ہسپتال بھر گئے اور اردگرد واقع اخبارات کے دفاتر میں پولیس گھس گئی۔ ظلم کا یہ سلسلہ درازہوا تو پنجاب اسمبلی کے رکن اور صادق حسین قریشی کی صوبائی حکومت کے وزیر اعتزاز احسن نے استعفیٰ دے دیا۔ چودھری محمد احسن علیگ کا صاحبزادہ پرامن مظاہرین پر پولیس تشدد برداشت نہ کرسکا۔ مجھے شک گزرا کہ آج اعتزاز احسن نواز حکومت کو چارج شیٹ کرنے کے بعد ماضی کی جرأت مندانہ روایت دہرائے گا کیونکہ ریڈزون میں پولیس تشدد دیکھ چکا ہے۔ سانحہ ماڈل ٹائون پر رنجیدہ ہے اور حکومت کی کرپشن کے علاوہ دھاندلی کے بارے میں الزامات سے متفق۔ ایک ایک الزام استعفے کا متقاضی۔ حکمرانوں کا نہ سہی اپنا ہی سہی۔ یا اپنا گریبان چاک کیا یا دامن یزداں چاک
مخدوم جاوید ہاشمی آئے توایوان میں گواہی دیتے تھے کہ عمران خان کا لانگ مارچ اور دھرنا مارشل لا لگوانے کی سازش ہے۔ مگر کٹہرے میں پارلیمینٹ کو کھڑ اکردیا کہ وہ ’’14ماہ میں عوام کے مسائل حل کرسکی نہ حکمرانوں کو راہ ِ راست پر رکھنے میں کامیاب ہوئی۔ 30سال اقتدار میں رہنے کے باوجود میاں نواز شریف عوام کے مسائل حل نہیں کرسکے۔‘‘ اعتزا ز احسن کے برعکس باغی نے دھاندلی زدہ پارلیمینٹ سے استعفے کا اعلان کیا اور داد سمیٹ کررخصت ہو گیا۔
مولانا فضل الرحمٰن اور محمود خان اچکزئی حکومت کے حلیف ہیں اور انہوں نے حلیف ہونے کا حق ادا کیا مگر دونوں کی تقاریر کا اصل ہدف عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری سے زیادہ پاک فوج اور ایک خفیہ ایجنسی تھی جو اتفاق سے امریکہ، بھارت اور اسرائیل کا بھی ہدف ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن نے منطق اور علم الکلام کے سارے کلیئے جزیئے ملا کر یہ ثابت کیا کہ پارلیمینٹ کے باہر بیٹھے پرامن مظاہرین ریاست کے باغی، دہشت گرد اور گردن زدنی ہیں مگر ایک ہی سانس میں وہ عمران خان کے موقف کی تائید بھی کرگئے۔ عمران خان ملک کے واحد سیاستدان ہیں جو آج تک ہر طرح کے معاملات اور تنازعات کو فوجی آپریشن کے بجائے مذاکرات اور افہام و تفہیم سے حل کرنے کے علمبردار ہیں۔ مولانا کا استدلال تھا کہ فوج شمالی وزیرستان میں تو آپریشن ضرب عضب کرتی ہے مگر اسلام آباد میں حکومت کو طاقت کے استعمال سے روکتی ہے گویا فوج کو ریڈزون میں بیٹھے مظاہرین پر بھی توپوں، ٹینکوں اور ایف سولہ طیاروں سے حملہ کردینا چاہئے۔ یا پھر ضرب عضب آپریشن روک دے تاکہ حضرت مولانا کا کلیجہ ٹھنڈا ہو اور آپریشن لال مسجد کی یادتازہ، جو ہوا تو مولانا لندن میں بیٹھے اس خون کی ہولی کا غم غلط کر رہے تھے؎
ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا ہے زمانے میں
تڑپے ہے مرغ قبلہ نما آشیانے میں
حکومت اور میاں نوازشریف کا یہ کمال تو ہے کہ انہوں نے جمہوریت بمقابلہ شاہی خاندان (Democracy-V-Dynesty)کی بحث کو جمہوریت بمقابلہ آمریت کی بحث میں بدل دیاہے اور چند شاہی خاندانوں کے پیروکاروں، پجاریوں اور قصیدہ خوانوں کو عظیم جمہوریت پسند جبکہ اس مکروہ نظام کے مخالفین کو آمریت کا علمبردار ثابت کیا جارہا ہے۔ جو لوگ اس ملک میں تبدیلی کے خواہشمند اورخاندانی، موروثی انداز ِ سیاست کے ناقد ہیں وہ جمہوریت کے اس جعلی ایڈیشن کو جس نے قوم کو دھن، دھونس، دھاندلی کا تحفہ دیا، مہنگائی، بیروزگاری، کرپشن، نااہلی، بدامنی اور بدانتظامی کے ذریعے بدحال کردیا ،جوہر قابل کو ملک سے فرار پر مجبور کردیا، کو مسترد کرکے ملک میں حقیقی جمہوریت کے احیا و استحکام چاہتے ہیں اور اس منافقت پر تیار نہیں کہ دھاندلی کو تسلیم، حکومت کو سانحہ ماڈل ٹائون کا ذمہ دار اور کابینہ کو نااہلوں کاٹولہ سمجھنے کےباوجود حکومت کے واری صدقے جائیں۔
اعتزاز احسن نے ایوان میں کہا کہ موجودہ بحران سے نکلنے کے بعد حکمرانوں کے تکبر میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے مگر پھر بھی ہم آپ کے ساتھ ہیں تو یہ بحث چل پڑی کہ اگر میاں نوازشریف یہ جھٹکا سہ گئے، بحران سے نکلنے میں کامیاب رہے تو ان کے طرز ِ عمل اور طر زِ حکمرانی میں تبدیلی آئے گی یانہیں؟ مایوسی گناہ ہے اوربدگمانی ناپسندیدہ عمل مگر کسی شخص یا گروہ کی جبلت اور فطرت آسانی سے تبدیل نہیں ہوتی اور اپنے مزاج،گفتار، کردار اور انداز ِ فکر میں تبدیلی وہ لوگ لاتے ہیں جنہیں احساس ہو یا مسلسل احساس دلایا جائے کہ وہ غلطی پر ہیں اور بحران میں ان کی غلطیوں کا ہاتھ ہے۔ جنہیں صبح و شام چاپلوس مصاحب، موقع پرست حلیف اور مفادپرست مشیر یہ باور کرائیں کہ سرکار! آپ تو معصوم عن الخطا، دودھ کے نہائے ہیں۔ ہر بحران سازش کا نتیجہ ہوتا ہے اور سازشی عناصر آپ کے کارہائے نمایاں سے خوفزدہ ہیں۔ وہ بھلا اپنے آپ کو کیوں بدلیں، اندازِ کار اور انداز ِ فکر پر نظرثانی کیوں کریں؟ اعتراضات، الزامات اورفردِ جرم عائد کرکے اعتزاز احسن سے لے کرسراج الحق اور مولانا فضل الرحمٰن سے لے کر محمود خان اچکزئی تک سب کندھےسے کندھا ملا کر کھڑے ہیں تو Dynesty کے کانوں پر جوں کیوں رینگے؟ مشق ستم کیوں آئے؟
اعتزاز احسن کی تقریر کے دوران میاں صاحب کی باڈی لینگوئج پر غور کرنےوالے ایک ستم ظریف نے کہا ’’اقتدار واقعی شیروں کو بھیگی بلی بنا دیتا ہے۔ وزیراعظم کا چہرہ سرخ ہے اوراندرونی اضطراب ان کی آنکھوں، حرکات و سکنات سے ہویدا مگر وہ اس پر ری ایکٹ کرنے سےقاصر ہیں یہ تک کہنے سے معذور کہ ’’یہ چارج شیٹ سن کر آپ کی حمایت حاصل کرنے کے بجائے میں ایک عزت دار اور باوقار شخص کے طور پر مستعفی ہونا پسند کروںگا۔ میں تاریخ میں اپنا نام ایک ایسے وزیراعظم کے طور پر لکھوانا نہیں چاہتا جس کے حلیف اور حمایتی بھی عمران خان اور طاہر القادری کے الزامات کو درست اور موقف کو صائب سمجھتے ہیں اور میری حمایت مینگنیاں ڈال کر کرتے ہیں۔ میں باز آیا ’’حکومت‘‘ سے اٹھالو پاندان اپنا ‘‘
یہ معلوم نہیں کہ اعتزاز احسن کی تقریر کا پہلا حصہ ان کے ضمیر کی آواز تھا یا آخری حصہ؟ جرأت میں مصلحت کی آمیزش ہو تو سچ کی تلاش مشکل ہو جاتی ہے۔ ہاشمی صاحب نے بہرحال دھاندلی زدہ اسمبلی میں بیٹھنا گوارا نہ کیا۔ میاں نواز شریف نے گلے لگا لیا۔ چودھری نثار علی خان کے پہلو میں بٹھا پاتے ہیں یا نہیں؟ فی الحال کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔