وہ اور زمانے تھے جب بجلی گرا کرتی تھی اب تو خبریں بجلی کے چڑھنے کی آتی ہے۔ پہلے شاعر کہتا تھا۔گرے گی جس پہ کل بجلی وہ میرا آشیاں کیوں ہو لیکن اب صحافی آئے دن اس طرح کی خبریں دیتے ہیں کہ ۔ بجلی آسمان پر چڑھ گئی۔ بجلی کے نرخ بادلوں کو چھونے لگے۔ عوام کو بجلی کا ایک جھٹکا اور دیا گیا۔ تازہ کرنٹ نے عوام کے ہوش اڑادیئے۔
سستے زمانوں میں ایک گیت مشہور ہوا تھا۔ جس میں ہیروئن گاتی تھی۔ بجلی بھری ہے میرے انگ انگ میں… آج کے زمانے میں کوئی ہیروئن یہ گیت گائے تو بجلی والے اسکے گھر پہنچ جائیں کہ میڈم اگر آپکے انگ انگ میں بجلی بھری ہے تو یہ تو بتائیں کہ آپ نے کتنے میٹر لگوا رکھے ہیں اور کہیں یہ انگ انگ میں بجلی کنڈے کے ذریعے تونہیں آرہی۔ہمارے ایک دوست 70کی دہائی کو یاد کرتے ہیں جب ان کے 3کمرے کے مکان کا جس میں ایک ٹیلی وژن اور ایک فریج بھی تھا بجلی کا بل صرف 2روپے آیا کرتا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ آج کسی لیڈر کویہ ادراک ہی نہیں ہے کہ قوم کو بجلی کے کرنٹ پہ کرنٹ لگا کر ادھ موا کیا جارہا ہے۔ یہ لیڈر جو چپ چاپ 60، 70ہزار روپے ماہانہ کے بل ادا کررہے ہیں قائداعظم کا پاکستان بنانے کی باتیں کرتے ہیں۔ قائداعظم کے پاکستان میں بجلی کا بل ایک روپے ماہانہ سے زیادہ کسی گھر کا بھی نہ ہوتا تھا۔بجلی والوں نے ایک اشتہار بنایا تھا جس میں گاڑی کے لوگ ناچ ناچ کر گاتے تھے کہ … ’’میرے گائوں میں بجلی آئی ہے‘‘۔
پاکستان کے عوام کو بجلی کا اسیر بنانے کے بعد جانے کس سطح پر ان کو کرنٹ پہ کرنٹ لگانے کا فیصلہ ہوا۔آئی ایم ایف والے ہوں یا عالمی بینک والے، یہ جب پاکستان کے دورے پر آتے ہیں تو ان کا پہلا حکم بجلی کے نرخ بڑھانے کا ہوتا ہے۔ پچھلے 15سال سے اس حکم پر بڑی مستعدی سے عمل ہورہا ہے کہ عوام کو کرنٹ پہ کرنٹ لگائے جارہے ہیں۔پاکستان میں بجلی کی قیمت بڑھانے کے لئے کئی حربے استعمال کئے جاتے ہیں۔ ایک تو بجلی کی پیداوارمیں کمی کردی گئی۔ ملک میں کئی پلانٹ بند رکھے گئے ہیں۔کوئلے سے بجلی نہیں بنائی جارہی۔ جہاں کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کا منصوبہ بنایا جارہا ہے وہاں پاکستانی کوئلے کی جگہ باہر سے مہنگا کوئلہ درآمد کیا جائے گا تاکہ کمیشن کھایا جاسکے۔ ملک میں کئی ایسے پلانٹ موجود ہیں جو سستی بجلی دینے کو تیار ہیں لیکن ان سے بجلی نہیں خریدی جارہی۔ ان سے کہا جاتا ہے کہ ہم تمہاری بجلی اس لئے نہیں لیں گے کہ تم مارکیٹ خراب کردوگے۔بجلی کی دنیا کا ایک بڑا مسئلہ ’’کنڈا‘‘ ہے۔ بہت سے لوگ کنڈا لگا کر بجلی چوری کرتے ہیں۔ یہ لوگ تاویل دیتے ہیں کہ بجلی اتنی مہنگی ہوگئی ہے۔ ہزاروں کے بل کون دے گا۔ کنڈے کے ذریعے بجلی چوری میں بجلی کمپنی کے لوگ بھی ملوث ہوتے ہیں جو کارخانوں اور صنعتی اور کاروباری اداروں میں کنڈوں کو نظرانداز کرنے کا بھاری معاوضہ لیتے ہیں۔ عوامی سطح پر کنڈوں کے فروغ میںانتظامیہ کی نااہلی کا بھی بڑا دخل ہے۔ بجائے اس کہ وہ ان کنڈوں کو ختم کرنے کے لئے کوئی مہم چلائیں اور ان لوگوں کو کم قیمت کی بجلی کا پیکج دیں وہ ان کنڈوں کی طرف سے آنکھیں بند رکھتے ہیں اور جو بجلی وہاں چوری ہوتی ہے اس کی رقم ان لوگوں سے وصول کرنے کے لئے بجلی کی قیمت بڑھاتے ہیں، جو باقاعدگی سے بل ادا کرتے ہیں اور جو کسی طرح کی چوری میں ملوث نہیں۔
بجلی کا کرنٹ سہنے والے مظلومین میں ایک وہ طبقہ بھی ہے جن کے گھر میں بجلی کے نئے میٹر لگائے گئے۔ ہمارے ایک دوست نے بتایا کہ جب ان کے گھر کے باہر نیا میٹر لگایا گیا تو میٹر لگانے والی ٹیم کے انچارج نے بتایا کہ ہمیں حکم ہے کہ ہم میٹر کی رفتار 30فیصد تیز رکھیں۔ یہ ہماری مجبوری ہے ہمیں معاف کردیجئے گا۔ ہمارے دوست کہتے ہیں۔اس کے بعد اگلے ماہ جب بجلی کے بل آیا تو اس میں یونٹس کی تعداد 30فیصد زیادہ تھی اور اسکے بعد سے اب تک ہر ماہ 30فیصد زیادہ رقم کا بل آتا ہے۔ اور ہر ماہ کے نئے نئے نرخوں کا کرنٹ الگ لگتا ہے۔ایک زمانے میں کراچی میں رکشوں کے میٹر اپنی تیزی کیلئے مشہور تھے۔ اب یہ بات خواب ہوئی اب رکشے والا اپنی مرضی کی رقم پر سفر کیلئے بتاتا ہے۔ ڈر ہے کہیں بجلی والے میٹر ختم کرکے رکشے والوں کا انداز نہ اختیار کرلیں۔پاکستان میں عوام کو قیمتوں کے جھٹکے لگانے کے لئے کئی ادارے سرگرم عمل ہیں۔ بجلی کا جھٹکا ’’نیپرا‘‘ دیتا ہے۔ پٹرول قیمت اوگرا بڑھاتا ہے۔ اور ادارہ پیمرا بھی ہے کہ اس کے جھٹکے بہت لطیف ہوتے ہیں۔ ہمارے ایک دوست کہتے ہیں پاکستان میں بہت سی کارروائیاں ’’را‘‘ کی جانب سے ہوتی ہیں۔ غور کیا جائے تو بہت سے اداروں کے آخر میں ’’را‘‘ آتا ہے ، جو حیران کردیتا ہے۔
اسلام آباد میں دھرنے والوں نے انقلاب لانے کیلئے انٹ شنٹ چیزوں کا سہارا لیا۔ کوئی گانے لایا۔ کوئی ناچ لایا۔ کسی نے اعداد وشمار پیش کرنے شروع کئے۔ ان حرکتوں کی بجائے اگر یہ لوگ صرف بجلی کے مسئلے کو موضوع بنالیتے اور کہتے کہ ہم عوام کو بجلی کے کرنٹ سے بچائیں گے۔ جو نااہلی ، کرپشن اور لوٹ مار کی وجہ سے عوام کو لگا رہا ہے۔ تو یہ عوام کی خدمت بھی ہوتی اور لوگ اس بات کی تائید میں آگے بھی آتے۔اگر دھرنے والے لوگ یہ نعرہ لگاتے کہ ’’بجلی کی قیمت کم کرو۔ لوڈ شیڈنگ ختم کرو۔ مہنگی بجلی مت خریدو، بجلی کے بند پلانٹ شروع کرو‘‘۔ تواچھا ہوتا۔
ہمارے ایک دوست کہہ رہے تھے کہ دھرنے والوں کے اسکرپٹ میں بجلی کے کرنٹ کی بات وہی لوگ کیسے لکھتے جن کی ایما ء پر یہ کرنٹ عوام کو لگائے جارہے ہیں۔