خوشامد ایک ایسی چابی ہے جس سے کامیابی کا تقریباًہر دروازہ باآسانی کھولا جا سکتا ہے، سرکاری ملازمت ہو یا کارپوریٹ کلچر، سیاست کا پُرخار میدان ہو یا سماجی زندگی کے نشیب و فراز ، خوشامد آپ کی کامیابیوں کو ایک مختصر سے وقت میں کئی گنا بڑھا سکتی ہے۔ ہمارے وطن عزیز میں اس چابی کا استعمال تو تقریباً ٹھیک ہی ہو رہا ہے مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ باہر کے ملکوں میں آج تک اس چابی سے کماحقّہ نفع نہیں اُٹھایا جا سکا ۔ اور تو اور مغربی دُنیا کے کامیابی کے گُر بتانے والے لکھاریوں نے بھی اس پر کوئی خاص توجہ نہیں دی، نتیجتاً وہ اِس کے فوائد سے محروم ہی رہے۔ یہاں بھی لوگوں کی ایک بہت قلیل تعداد موجود ہے جو خوشامد کے بیش بہا فوائد سے آج تک روشناس نہیں ہو سکی۔ دراصل ایسے لوگ سطحی قسم کی جذباتیت کا شکار ہوتے ہیںاور اُنہیں آج تک اندازہ ہی نہیں ہو سکا کہ حضرت انسان کے لئے اس میں کتنے فوائد پوشیدہ ہیں۔ ایسے لوگوں کی ’’کم عقلی‘‘ کا ذمہ دار کافی حد تک اُردو ادب کو بھی ٹھہرایا جا سکتا ہے کہ جس نے بچپن سے ہی طالب علموں کو ’’لومڑی اور کوا‘‘ اور ’’مکڑا اور مکھی‘‘ جیسی کہانیاں سُنا کر اُن کے ذہنوں کو ’’پراگندہ‘‘ کرنے کی کوشش کی اور یہ اخلاقی سبق دینے کی کوشش کی کہ خوشامد بُری بلا ہے ۔ اگر خدا لگتی کہی جائے تو اس ضمن میں ایک ’’ضرب کاری‘‘ علّامہ اقبال نے فلسفہ خودی پیش کرکے بھی لگائی۔ اللہ بھلا کرے ہمارے موجودہ دور میں بالٓاخر اقبال کا سارا ’’پول‘‘ کھول کر نوجوانانِ قوم کو مزید ’’ تباہی‘‘ سے بچالیاگیا۔
اردو ادب کا اگر تاریخی اعتبار سے تنقیدی جائزہ لیا جائے تو یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ خوشامد کے معاملہ میں اُردو ادب دو واضح دبستانوں میں تقسیم نظر آتا ہے۔ پہلا دبستان وہ جو خوشامدکے فوائد سے پوری طرح آشنا نہیں اور نتیجتاً اس کی مخالفت میں کمر بستہ نظر آتا ہے ، اور جس کا ذکر اوپر آچکا ہے، اُسے ادب میں ’’دبستانِ منکرین خوشامد‘‘ کے طور پر بھی پہچانا جاتا ہے، دوسرا دبستان وہ ہے جس نے خوشامد کے فوائد پر قلم اُٹھایا، اُسے ’’دبستانِ مقلدین خوشامد‘‘ کے طور پر جانا جاتا ہے۔ جہاں ’’دبستانِ منکرین خوشامد‘‘ نے خوشامد کا گلا گھوٹنے کی کوشش کی ہے وہاں آفرین ہے ’’دبستانِ مقلدین خوشامد‘‘ پر کہ انہوں نے اپنے تئیں اِس فن کی خوب آبیاری کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ یہاں ہم اِس دبستان کی تفصیل میں نہیں جائیں گے البتہ ہم اس دبستان کے ایک نمائندہ شعر کا صرف حوالہ دینے پر ہی اکتفا کریں گے۔
سو کام نکلتے ہیں خوشامد سے جہاں میں
دیکھو جسے دنیا میں خوشامد کا ہے بندہ
دونوں دبستانوں کے ماننے والے ہمیشہ سے ایک دوسرے کے خلاف برسرِ پیکار رہے اور اپنے اپنے دلائل کی روشنی میں ایک دوسرے کو چاروں شانے چِت کرنے کی کوشش میں لگے رہے۔ اگر اِن دونوں دبستانوں کے ماننے والوں کا تاریخی اعتبار سے فکری موازنہ کیا جائے تو یہ بات ضرور تسلیم کرنی پڑتی ہے کہ ’’مقلدین خوشامد‘‘ کا پلڑا ہمیشہ سے بہت بھاری رہا۔ یہ لوگ بدصورتی میں خوبصورتی، بدکلامی میں شیریں گفتاری، بے ادبی میں ادب اور نالائقی میں قابلیت اور لیاقت کے موتی ڈھونڈنے میں یدِطولیٰ رکھتے ہیں۔ ’’مقلدین‘ کے اس موقف میں بڑا وزن ہے کہ خوشامد پر خرچہ ہی کتنا آتا ہے؟ نہ کوئی investment ، نہ کوئی خرچ، نہ ہنگ لگے نہ پھٹکری اور رنگ بھی چوکھا آئے، صرف دو چھٹانک کی زبان ہی تو ہلانی ہے۔ دوسری طرف ’’منکرین خوشامد‘‘ کا موقف ہے کہ اگرچہ اپنے ملک میں ہمارا پلڑا کمزور ہے مگر باہر کے ملکوں میں ہمارا فکری گروہ بہت طاقتور ہے۔ جواب میں ’’مقلدین‘‘ کا دعویٰ کہ وہاں بھی ہمارے نمائندہ تارکین وطن اس فن کی نشو و نما کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے ہیں۔
چونکہ فی زمانہ خوشامد کرنا اتنا آسان نہیں رہا بلکہ باقاعدہ ایک فن کی شکل اختیار کر گیا ہے اس لئے ہم اپنے تجربے کی روشنی میں خوشامد کے کُچھ مجرّب طریقے بیان کریں گے تاکہ مخلوق خدا (بطورِ خاص سرکاری ملازمین) اپنی اپنی استطاعت اور ضرور ت کے مطابق فائدہ اُٹھا سکیں۔
1۔جس طرح بھوکے اور پیاسے آدمی کو دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اُسے کھانے اور پانی کی ضرورت ہے اسی طرح ایک اچھے ماتحت کو اپنے صاحب کے بارے میں ضرور علم ہونا چاہئے کہ اُسے کب ، کس وقت اور خوشامد کی کتنی dose کی ضرورت ہے تاکہ اُسے حسبِ ضرورت دی جاسکے۔2۔اگرآپ میٹنگ میں بیٹھے ہیں اور آپ کا باس آپ سے کسی موضوع پر آپ کی رائے معلوم کرے تو اپنا موقف بیان کرنے میں جلدی مت کریں۔ اپنے ذہن پر زور دے کر سوچیں کہ اس موضوع پر آپ کے باس کی کیا رائے ہو سکتی ہے یا وہ کیا سننا چاہتے ہیں۔ رائے پر مطابقت کی صورت میں آپ کو کافی افاقہ ہو گا۔ خواہ مخواہ سقراط اور بقراط مت بنیں۔3۔کچھ لوگ بلا واسطہ خوشامد سننے کے عادی ہوتے ہیں مگر کُچھ ’’باکردار‘‘ لوگ اس طرح کی بلاواسطہ خوشامد کو حرام سمجھتے ہیں۔ لہٰذا کوشش کریں کہ ایسے شخص کے سامنے بلواسطہ تعریف کریں۔ مثلاً بات ایسے شروع کریں کہ ’’سر ویسے منہ پر تعریف کرنا اچھی بات تو نہیں ہوتی مگر سچ تو پھر سچ ہے کہ جناب کے آنے کے بعد دودھ اور شہد کی نہریں … وغیرہ وغیرہ اور مخلوقِ خُدا جناب کو پلو اُٹھا اُٹھا کر دعائیں (بد دعائیں نہیں) دے رہی ہے‘‘، وغیرہ۔4۔کوئی بھی اچھا کام کریں تو اُس کا Credit اپنے کھاتے میں مت ڈالیں۔ بلکہ ایسے کہیں کہ ’’جناب کی ہدایات اور سپرویژن کی بدولت یہ کام ہوا ہے‘‘
5۔بالواسطہ خوشامد کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ پچھلے باس کے کام میں کیڑے نکالے جائیں، جیسے ’’جناب رضوی صاحب ویسے تو بڑے اچھے افسر تھے مگر سر تھوڑا سا …‘‘ آگے فقرہ ادھورا بھی چھوڑ سکتے ہیں۔6۔بعض اوقات کوئی ایسا شخص بھی آپ کا باس ہو سکتا ہے جو خوشامد کو پسند نہ کرتا ہو اس کے لئے ضروری ہے کہ ایسے غیر محسوس طریقے سے خوشامد کریں کہ ابتدائی طور پر اُسے محسوس ہی نہ ہو۔ جیسے انسولین لگانے کے لئے بہت باریک سرنج کا استعمال کیا جاتا ہے ایسے آپ بھی بہت ہی باریک سرنج کے ذریعے اُسے dose دیں۔ جب ’’لائن‘‘ پر آجائے تو پھر بے شک اُسے ’’جہاز‘‘ بنائیں۔7۔بعض اوقات اپنی بیگم کی طرف سے بھی کوئی جملہ منسوب کر کے بات کر سکتے ہیں جیسے ’’کل آپ کی بھابھی کہہ رہ تھیں کہ جب سے آپ کے نئے باس آئے ہیں ماشا ء اللہ آپ تو بہت محنتی ہو گئے ہیں…‘‘ وغیرہ وغیرہ۔8۔اگر ٹرانسفر ہونے پر آپ کو شک ہے کہ آپ کا باس دوبارہ کسی اچھی پوسٹنگ پر جا سکتا ہے تو اُسے بھی نظر انداز مت کریں۔ مناسب وقت پر باقاعدگی سے اُسے فون کریں اور آپ کچھ اِس طرح کے جملے بول سکتے ہیں، ’’بس سر نئے صاحب اچھے ہی ہیں پر جناب کے ہوتے ہوئے تو آپ کو پتہ ہے…‘‘ کیا پتہ ہے یہ فقرہ ادھورا چھوڑدیں۔9۔اپنے باس کا شجرہ نسب اور ذات پات کی پوری جنتری آپ کے پاس ہونی چاہئے۔ صاحب کے خاندان (بیشک خاندان جدی پشتی گوشت کے کاروبار سے منسلک ہی کیوں نہ رہا ہو) کو باتوں باتوں میں آپ مارشل ریس بھی ثابت کر سکتے ہیں۔ بعض اوقات یہ طریقہ بہت کارگر ثابت ہو سکتا ہے۔10۔اگر بات بات پر صاحب کی زبان سے ٹرپل ایکس گالیوں کا فوارہ پھوٹتا ہو تو تب بھی کوشش کریں کہ کسی طریقے سے صاحب کے کلام میں خوش گفتاری کا پہلو نکالیں۔ اگر ممکن نہ ہو کم از کم اتنا کہہ دیں کہ ماشاء اللہ صاحب بہت ذہین اور تیز آدمی ہیں، فائدہ رہے گا۔ اسی طرح اگر صاحب پرلے درجے کا ’’بے ادب‘‘ ہو تو اُسے بھی چالاکی، ہوشیاری یا تیزی کے کھاتے میں ڈال کر کچھ نہ کچھ ’’ادب پرور‘‘ کہا جاسکتا ہے۔