• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہر معاشرے کے ہر شعبے میں تبدیلی آرہی ہے، اس کو خاموش انقلاب کا نام دیا جا سکتا ہے، خواہ یہ شعبہ قیام و طعام کا ہو، ملبوسات کا ہو، طرز رہائش کا ہو، تعلیم و تربیت کا ہو، ٹرانسپورٹ، ذرائع ابلاغ کا ہو یہ تبدیلی آہستہ آہستہ رونما ہو رہی ہے جسے ہم محسوس نہیں کر سکتے لیکن چند برسوں میں وہ بالکل واضح ہو جاتی ہے۔ اس وقت میں جس شعبے کا ذکر کر رہا ہوں وہ ہوٹلنگ یا ہوٹل طعامی ہے۔ یہ دونوں الفاظ مجھے لغات میں نہیں ملے، انہیں خودساختہ کہا جا سکتا ہے۔ اس سے میری مراد افراد اور ان کے اہل خانہ کی گھریلو کھانوں کی بجائے ہوٹلوں کے چٹخارے دار نئے نئے روپ کے ملکی اور غیر ملکی کھانے ہیں۔ لفظ ’’ہوٹل‘‘ کو جس طرح استعمال کیا جا رہا ہے وہ بھی خاصا دلچسپ ہے۔ آکسفورڈ انگلش، اردو لغت میں اس کے معنیٰ ہوٹل، خندق، آسترون اور شراب خانہ ہیں۔ خندق عربی لفظ ہے اور عرب ممالک میں استعمال ہوتا ہے۔ مقتدرہ قومی زبان کی لغت میں اس کے معنیٰ مسافر خانہ، دارالاقامہ، سرائے، ہوٹل، عمارت یا ادارہ جو مسافروں اور بعض اوقات طویل عرصے تک قیام کرنے والوں کیلئے رہائش کا انتظام کرتا ہے، جو اکثر دیگر سہولتیں مثلاً کمرا ملاقات، ریستوران، تواضع، دکانیں وغیرہ اپنے مہمانوں اور عام عوام کیلئے مہیا کرتا ہے۔ انجمن ترقی اردو کی لغت میں اس کے معنیٰ ہیں آرام گاہ، مسافر خانہ، ہوٹل، (عموماً) بڑی سرائے یا مسافر خانہ درج ہیں۔ مسافرخانہ صرف ریلوے اسٹیشنوں پر نظر آتے ہیں۔ سرائے ختم ہو چکی ہیں۔ ہوٹل کے اس وسیع معنیٰ میں ایک طرف کراچی کا پنج ستارہ ہوٹل ہے، جہاں مقیم مسافروں کے علاوہ عام افراد جا سکتے ہیں، جہاں ایک فرد کے کھانے کا بل پندرہ سو روپے کے قریب آتا ہے۔ اگر مینو میں باڑہ گل نام شامل ہو جائے تو بل دو ہزار روپے تک بھی پہنچ سکتا ہے۔ اس گرانی کے باوجود وہاں روزانہ ایک ہزار سے بارہ سو افراد کھانا کھاتے ہیں۔ دوسری طرف پیر الٰہی بخش کا ہر دل عزیز ہوٹل ہے جہاں میز، کرسیاں ہیں، سروس مہیا کرنے والے ہیں اور صرف گولہ کباب، بوٹی، سیخ کباب، چکن تکّہ اور حلوہ، پراٹھا فراہم کیا جاتا ہے اور فی کس بل ڈیڑھ سو کے قریب ہوتا ہے۔ وہ دکان بھی ہوٹل کہلاتی ہے جہاں صرف نہاری فراہم کی جاتی ہے۔
قیام پاکستان سے پہلے صرف بڑے شہروں میں اعلیٰ درجے کے ہوٹل تھے جیسے بمبئی کا تاج محل، جہاں راجے، مہاراج، نوابین اور روسا اور بڑے صنعت کار اپنی رانیوں اور بیگمات کے ساتھ آیا کرتے تھے۔ معمولی ہوٹلوں میں متوسط خاندانوں کی خواتین کا جانا معیوب سمجھا جاتا تھا۔ مرد بھی ان ہوٹلوں سے کتراتے تھے البتہ وہ افراد جو تنہا رہتے تھے متوسط ہوٹلوں میں کھانا کھاتے تھے بلکہ بعض مستقل خریدار بن جاتے تھے۔ قیام پاکستان کی ابتداء میں یہاں بھی یہی صورت رہی۔ بعض شہر مخصوص ڈشوں کیلئے مشہور ہو گئے جیسے پشاور کے چپلی کباب، لاہور کی نہاری اور مرغ چھولے، کوئٹہ کی سجی، کراچی کی سندھی بریانی وغیرہ۔ پھر بعض متوسط ہوٹلوں نے فیملی روم بنائے۔ یہاں سیاہ برقعوں میں خواتین نے آنا شروع کیا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ 1957ء میں ہمارے تعلیمی ادارے کی ایک ٹیم پشاور گئی جس میں ایک بے پردہ سارٹھی والی خاتون تھیں، قصّہ خوانی بازار میں چپلی کباب اور کڑاہی گوشت کے حصول کیلئے ایک مشہور ہوٹل میں جو ایک گلی میں واقع تھا، گئے، ہوٹل کے مالک سے اجازت لی۔ اس نے بڑے پس و پیش سے موٹر کو ہوٹل کے سامنے لانے کی ہم کو اجازت دی۔
اب ملک میں ہوٹلوں کی تعداد بہت بڑھ چکی ہے اور ان کو تھری، فور اور فائیو اسٹار کی کیٹیگری میں تقسیم کر دیا گیا ہے جہاں خواتین کھلے بندوں آتی ہیں۔ کسی نے اندازہ لگایا ہے کہ ملک میں 20؍ہزار ریستوران ہیں۔ (مجھے اس سے اتفاق نہیں) تین اقسام کے ہوٹلوں کی تعداد ایک لاکھ کے قریب ہو گی۔ یہ بھی اندازہ لگایا گیا ہے کہ 20؍ہزار ریستورانوں میں سالانہ 850-900 ملین ڈالر کے کھانے پاکستانی چٹ کر جاتے ہیں۔ ایک اور نئی صورت یہ ہوئی ہے کہ بیرونی کمپنیوں نے ملک میں چین سسٹم کے تحت اپنے ادارے قائم کرنے شروع کر دیئے ہیں جہاں بن کباب، برگر، سوپس، پیزوں اور چینی، اطالوی، فرانسیسی، عربی پکوان عام ہیں۔ بیرونی اداروں کو اپنا زر اصل اور منافع ڈالروں میں اپنے اپنے وطن بھیجنے کی اجازت ہے۔ جولائی، ستمبر تین مہینوں میں 235.5 ملین ڈالر منتقل کئے گئے۔ ہم بیرونی سرمایہ کاری ضرور چاہتے ہیں مگر وہ ایسی ہونی چاہئے کہ جس سے ملک کو فائدہ پہنچے۔ ان غیر ملکی ہوٹلوں سے ہمارے کچھ مکان کرائے پر چڑھ جاتے ہیں، کچھ مقامی افراد کو روزگار مل جاتا ہے، باقی سارا منافع باہر جاتا ہے۔ کیا اب مزید غذائی اداروں کو روکا جا سکتا ہے؟ یہ ملین ڈالر کا سوال ہے۔
تازہ ترین