• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آرمی پبلک اسکول پشاور کے باہر دیوار پر ایک بینر پر ایک معصوم شہید کے آخری الفاظ درج ہیں جس میں شہید نے کہا کہ ’’میں یہ سب جاکر اللہ کو بتائوں گا۔‘‘ شہید اللہ تعالیٰ کے دربار میں پہنچ چکا ہے اور اس نے جو جو کچھ دیکھا، اللہ کے سامنے بیان کردیا ہوگا۔ اللہ تو علیم و خبیر ہے اُسے ہر بات کا علم ہے کہ ہر ہر واقعے کی خبر لیکن اُس نے شہید کی اس گواہی کو بھی سکون سے سنا ہوگا۔ شہید بچے نے بتایا ہوگا کہ وہ اور اس کے سینکڑوں ساتھی علم حاصل کرنے میں مگن تھے کہ وہاں چھ لوگ اسلحہ ہاتھوں میں لئے گولیاں چلاتے ہوئے آگئے۔ یہ لوگ کون تھے؟ مسلمان؟ نہیں،… انسان؟ نہیں… حیوان؟ نہیں۔ کہ درندے کے دل میں بھی رحم آجاتا ہے۔ پھر یہ لوگ کون تھے؟ یقیناً ان کے ذہنوں میں شیطان کا بسیرا تھا۔ ان کی ساری منصوبہ بندی شیطان کررہا تھا کہ وہ انسان کا کھلا دشمن ہے۔ اس کو ننھے بچوں پر ظلم کرتے ہوئے ذرا رحم نہیں آتا۔ وہی ایک ایک بچے کو تڑپتے ہوئے دیکھ کر خوش ہوتا ہے۔ وہ اس پرخوش ہوتا ہے کہ ان بچوں کی موت سے اُس کے لواحقین کو کتنا صدمہ اور درد ہوگا۔ لیکن… لیکن شیطان کو یہ بات معلوم نہیں کہ اس کی ایسی کارروائیوں سے مرنے والوں کو شہادت کا رتبہ عطا ہوتا ہے۔ وہ ہمیشہ کے لئے زندہ ہوجاتے ہیں اور شہید کی موت قوم کی حیات بن جاتی ہے۔ اور ہم دیکھتے ہیں کہ ان شہید بچوں کی شہادت نے قوم میں زندگی کی رمق پیدا کردی ہے!قوم اب سوچ رہی ہے کہ ملک کو دہشت گردی سے پاک کیا جائے۔ دہشت گردی کرنے والوں سے قصاص لیا جائے۔ قصاص اللہ کے حکم کے مطابق ہے اُس کا ؟؟ کہ قصاص میں زندگی ہے۔ شہید بچے نے اللہ تعالیٰ کو جو جو کچھ بتایا ہوگا اُس میں شائد یہ بھی بتایا ہو کہ وہ لوگ تعداد میں 6تھے۔ اُن پر قابو پانے کے لئے دستے 15 منٹ میں پہنچ گئے تھے لیکن اُن کو ہلاک کرنے میں 6 گھنٹے سے زائد وقت لگا۔ اس عرصے میں بچے شہید ہوتے رہے۔ یہ بات بیان کرتے ہوئے معصوم بچے کی آنکھوں میں ضرور آنسو تیر رہے ہوں گے۔9/11کے بعد جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا اور پاکستان نے اس حملے میں اُس کی مدد کا بیڑہ اٹھایا تو اس کے بعد سے پاکستان میں اسکولوں اور مدرسوں پر حملے کرکے طالبعلموں کو ہلاک کرنے کا چلن عام ہوا۔ اسکولوں پر حملے کرکے ننھے طالبعلموں کو ہلاک کرنے کی وارداتیں اس سے پہلے امریکہ میں عام تھیں۔ دسمبر 2012ء میں امریکہ کی ریاست کنکٹی کٹ میں ایک شخص ایک اسکول میں داخل ہوا اور اس نے 5 سے 10 سال کی عمر کے 18 ننھے بچوں کو گولیوں سے اڑا دیا۔ اس پر میں نے ’’امریکہ کے 18 ننھے پھول‘‘ کے عنوان سے کالم لکھا تھا جو 19دسمبر 2012ء کو شائع ہوا تھا۔ اس کالم کو میں نے دوبارہ پڑھا تو اس میں اٹھائے ہوئے نکات آج دوبارہ اٹھانے کو جی چاہا۔ میں اس کالم کا ایک حصہ یہاں نقل کرتا ہوں۔ آپ کو یہ بالکل تازہ لگے گا۔
کیسی سفاکیت ہے کہ پانچ سال سے 10 سال کی عمر کے ننھے منے بچے جو اسکول میں علم کی شمع روشن کررہے تھے، جو اپنی زندگی کو علم کے پھولوں سے سجارہے تھے ان پر گولیاں برساکر انہیں موت کے اندھیروں میں دھکیل دیا گیا۔ 5سال کے بچے کے چہرے کا تصور کیجئے جیسے کوئی کلی ہو، جیسے کوئی فرشتہ ہو۔ اس کی آنکھوں کا تصور کیجئے، ساری کائنات کی معصومیت ان میں سمٹ آتی ہے۔ اللہ کے نور کی کرنیں اس میں بسی ہوتی ہیں۔ زندگی کا سارا حسن ان ننھی منی آنکھوں میں ہوتا ہے اور یہ ننھی منی معصوم، پرنور آنکھیں بند کردی گئیں۔ منٹوں، سیکنڈوں میں ایک شخص آیا اور اس نے اسکول کے ان بچوں پر گولیاں برسادیں۔ پانچ سے دس سال کے 18 بچے آناً فاناً موت کی آغوش میں چلے گئے۔
یہ دنیا حیرت کدہ بن گئی ہے۔ اسکول کے ننھے بے قصور بچوں کو ہلاک کرنے کا یہ واقعہ دنیا کے سب سے ترقی یافتہ ملک امریکہ میں پیش آیا ہے جس کے معاشرے کو مہذب ترین معاشرہ کہا جاتا ہے۔ جہاں تعلیم کا تناسب 100 فیصد ہے، جہاں انسانیت کی دہائی سب سے زیادہ دی جاتی ہے اور جو دنیا بھر کے لوگوں کو رواداری کا درس دیتے تھکتا نہیں ہے، حیرت ہوتی ہے کہ امریکہ میں یہ واقعہ پیش آگیا اور وہ جو سفاک، دہشت گرد، ظالم قاتل تھا اس کو پولیس نے فوراً منظر سے غائب کردیا۔ اس کو ہلاک کرنے کی بجائے زخمی کرکے پکڑا جاتا تو بہت سے حقائق سامنے آسکتے تھے۔ امریکہ کے اسکولوں میں قتل و غارت گردی کے واقعات تواتر سے ہورہے ہیں۔ ان واقعات کے بعد ہر بار ایک ہی سا بیان پورے میڈیا کے بینڈ پر سنائی دیتا ہے کہ یہ قاتل کا ذاتی فعل تھا اور قاتل جنونی اور پاگل تھا۔ اگر یہی بات سچ ہے تو پھر اس سوال کا جواب کوئی نہیں دیتا کہ یہ سارے پاگل اسکولوں کے ننھے منے بچوں کو کیوں گولیوں کا نشانہ بناتے ہیں اور کیا یہ ایک شخص کا ذاتی فعل ہے یا یہ پورے امریکہ کا مجموعی کردار ہے جو ایسے کسی قاتل کے روپ میں سامنا آجاتا ہے۔ کنکٹی کٹ کے اسکول میں 18بچوں سمیت 28 انسانوں کے قاتل کو اگر زندہ پکڑ لیا جاتا تو پھر یہ پتہ لگایا جاسکتا تھا کہ اسے اس راہ پر کون لایا، اس کے پیچھے کون سا گروہ تھا، اس کو بے رحمی سے گولیاں چلانے کی تربیت کس نے فراہم کی، اس کے دل سے رحم کے جذبے کے ایک ایک ذرے کو کس نے نکال کر پھینک دیا، اس کی آنکھوں میں کس نے ظلم اور اندھا پن بھردیا کہ ننھے منے معصوم چہروں کو دیکھ کر اس کی انگلیاں نہیں کانپیں۔ امریکہ کے اس قاتل کے بارے میں میڈیا پر بہت کم معلومات آئیں۔ اس کا نام، اس کی عمر اور یہ کہ وہ اپنے بھائی کا شناختی کارڈ جیب میں رکھ کر لایا تھا اور پھر یہ کہ اس نے نہ صرف اسکول کے استادوں بلکہ اپنے ماں باپ کو بھی ہلاک کردیا، امریکی میڈیا دنیا بھر کے میڈیا کو یہ خبر دے رہا تھا کہ وہ قاتل صرف ایک قاتل ہے جبکہ دوسرے ملکوں کے معاملات میں اس سے کم شدت پسندوں کے واقعات میں قاتل کی پوری شناخت اور پس منظر دو منٹ بعد ہی جاری کردیا جاتا ہے۔ اسکولوں کے ننھے منے بچوں کو قتل کرنا، پوری انسانیت کا قتل ہے اور یہ امریکہ کا مجموعی کردار جو اس طرح سے امریکی معاشرے ہی میں اچانک سامنے آجاتا ہے۔کنکٹی کٹ کے اس سانحے کے بعد بھی وہاں اسکولوں میں جاکر بچوں کو قتل کرنے کے واقعات تواتر سے آتے رہے۔ پشاور کا سانحہ امریکہ کے اسکول سے کہیں بڑا اور شدید سانحہ ہے۔ اور یہ ہم سے اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ہم دہشت گردی کو ختم کرنے کے لئے نہ صرف دہشت گردی کے درختوں کو کاٹ ڈالیں بلکہ ان کی جڑوں کو بھی کھود ڈالیں۔ اور ان جڑوں کو دیکھیں کہ ان کا نکتہ آغاز کون سی جگہ ہے کون سی زمین ہے؟
ہمیں مسلمان اور انسان کی بحث میں نہیں پڑنا چاہئے کہ اللہ نے انسان کو احسن تقویم پر پیدا کیا، اسے اشرف المخلوقات بنایا لیکن وہ اسفل السافلین بن کر ذلت کی گہرائیوں میں جاگرتا ہے۔ اسی لئے قرآن پاک میں انسان کو بڑا جھگڑالو کہا گیا، بہت جلد باز کہا گیا۔ کم علم کہا گیا۔ اور کہا گیا کہ انسان خسارے میں ہے۔ ہاں اس خسارے سے بچنے والے وہ ہیں جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کئے اور ایک دوسرے کو حق اور صبر کی تلقین کی۔ پھر ایسے لوگ نیک عمل کرتے ہیں اور نیک عمل میں نہ کسی پر ظلم ہوتا ہے نہ ناانصافی اور نہ ہی وہ لقمہ حرام کھاتے ہیں۔ ننھے بچوں کو مارنا ظلم، عورتوں کو مارنا ظلم اور علم سکھانے والوں کو مارنا ظلم، پھر کوئی ایمان والا یہ کام کیسے کرسکتا ہے۔ سچ کہا تھا 16دسمبر کو ان صاحب نے کہ ایسے لوگ مسلمان تو کیا انسان بھی نہیں حیوان بھی نہیں…!!
تازہ ترین