آج کی دنیا علم کی دنیا ہے اور جو ممالک سائنس وٹیکنالوجی اور جدّت طرازی پر زور دے رہے ہیں وہی ممالک تیزی سے ترقّی کی راہ پر گامزن ہیں۔سب سے پہلے ہم زراعت کی طرف نظر ڈالتے ہیں: کیا غذائی دھماکہ ہونے والا ہے؟گزشتہ دہائی میں پانی اور زمین کے ناقابل برداشت استعمال نے غذائی فصلوں کے حجم میں کئی گنا اضافہ کردیا ہے اور اب یہ غذائی غبارہ اس قدر پھول چکا ہے کہ کسی بھی وقت دھماکے سے پھٹ سکتا ہے جس کے نتیجے میں دنیا میں خوراک کا بحران اس قدر شدید ہونے کی توقع ہے کہ اس پر شاید قابو پانا بھی ممکن نہ رہے۔ عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں 175 ملین افراد صرف اس وجہ سے اناج حاصل کررہے ہیں کہ زمین سے مطلوبہ حد سے زائد پانی باہر کھینچ رہے ہیں۔ یہاں پانی نکالنے کی مقدار اس میں پانی جانے کی مقدار سے کہیں زیادہ ہے چنانچہ پانی کا جدول خطر ناک حد تک نیچے جارہا ہے۔ سعودی عرب میں زیر زمین پانی سے گندم اگانے کے تجربے سے گندم کی پیداوار میں تو بے پناہ اضافہ ہوگیا مگر یہاں بھی پانی کے سوتے خشک ہورہے ہیں چنانچہ آئندہ چند سالوں میں یہاں گندم کی پیداوار ختم ہو جائے گی۔
ہمیں بہت دیر ہونے سے پہلے ہی کچھ نہ کچھ کرلینا چاہئے اس مسئلے کا حل تعلیم، آبادی میں کمی، جدید اور قابل اعتماد کھیتی باڑی کے طریقوں کو اختیار کرنا، قدرت کے توازن کو بحال کرنا ، کاربن کے اخراج میں کمی، جنگلات کی تعداد میں اضافہ ، زمین کی بحالی،اور ہر سطح پر پانی کے تحفظ کو یقینی بنانا ہے۔بائیو ٹیکنالوجی…کیا یہ غذائی بحران کے مسئلے کو حل کرسکتی ہے؟
2008ء میں غذا کے ذخائر کی مقدار صرف 62دن کی رہ گئی تھی غذا کی طلب میں اضافہ اس کی پیدا وار سے کہیں زیادہ ہے جس کی وجہ سے غذائی اجناس کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ یہ صورت حال پاکستان جیسے ممالک کے لئے انتہائی تشویش ناک ہے جو کہ فی کس آمدنی کے لحاظ سے انتہائی کم درجہ پر ہیں۔ 1960ء اور 1970ء کی دہائی میں آنے والا’ سبز انقلاب ‘ زراعت کے میدان میں ہونے والی سائنسی ترقی کی وجہ سے ممکن ہوااور فی ایکڑ غلہ کی پیداوارمیں 2 فیصد سالانہ اضافہ ہوا تاہم 1990ء کے بعد کم ہو کر ایک فی صد رہ گیا۔ جینیاتی طور پر ترمیم شدہ فصلیں کسی حد تک غذائی پیداوار میں اضافہ کرسکتی ہیں مگر اس طریقے سے پیداوارمیں2۔3گنا اضافہ ہوتا مشکل نظر آرہاہے۔ جیسا کہ سبز انقلاب کے دور میں ہوا تھا۔ اس مسئلے کا پائیدار حل یہی ہے کہ بڑھتی ہوئی آبادی پر قابو پالیا جائے۔ کسانوں کی تعلیم، غذا کی ترسیل اور ذخیرہ اندوزی کی بہتر سہولتیں مہیا کی جائیں اور فصلوں میں لگنے والے کیڑے اور حشرات الارض سے ہونے والے نقصان میں کمی کی جائے۔
ساحلی صحراؤں میںکھیتی باڑی کے لئے سمندری پانی کا استعمال:سمندری پانی کو اس کی شوریت کی وجہ سے فصلوں میں براہ راست استعمال نہیں کیا جاسکتا لیکن اس کی نمی والی ہوا کو اس کے قریبی صحراؤں تک پہنچایا جاسکتا ہے۔ Tenerife، ابوظہبی اور عمان میںتین بڑے گرین ہاؤس قائم کئے گئے ہیں جہاں بخارات بنانے والے پمپ نصب کئے گئے تاکہ نمی والی فضا پیدا کردی جائے جو کہ فصلوں اور مختلف فصلوں کی افزائش کے لئے ساز گار ماحول مہیا کرے گی۔ اس نم ہوا کی تکثیف کرلی جاتی ہے بعد ازاں وہ خالص پانی کی شکل اختیار کرلیتی ہے اور پھر اس کو پودوں کو پانی دینے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ ایک برطانوی کمپنی Sea Water Green House، 5امریکی ڈالر فی مربع فٹ کی لاگت پر تیار کررہی ہے اس میں شمسی توا نائی کو ذخیرہ کرنے کے پلانٹ کا اضافہ کیا گیا ہے تاکہ جنریٹر ، پمپ کو چلایا جاسکے اور اضافی تازہ پانی حاصل کیا جاسکے۔سائنس ٹیکنالوجی اور زراعت کی وزارتوں کو ہماری ساحلی پٹیوں پر اس طرح کے پروجیکٹ کاآغاز کرنا چاہئے۔سمندری پانی سے غذائی فصلوں کی افزائش :ہمارے کرۂ ارض پر پایا جانے والا نوے فیصد پانی سمندری پانی ہے، جب کہ مزید ایک فی صد زیر زمین پانی ہے (جو کہ تازہ پانی کی نسبت زیادہ نمکین اور سمندری پانی سے کم نمکین ہوتا ہے) نیز کرۂ ارض پر پایا جانے والا محض ایک فی صد پانی تازہ یا صاف پانی ہے۔ جیسا کہ ہمیں معلوم ہےکہ اگلے پچاس سالوں میں دنیا کی آبادی 6ارب سے 9ارب تک ہوجائے گی اور عالمی درجہ حرارت میں اضافہ کی وجہ سے کرۂ ارض کا پانی مزید کم ہو جائے گا۔ اس تناظر میں انسان کو اپنی فصلوں کے لئے پانی کا کوئی دوسرا ذریعہ تلاش کرنا ہوگا ۔ معدنی تیل کے ذخائر میں تیز رفتار کمی تیل کی کمی کو مزید بڑھادے گی۔ ان مسائل کا حل ایسی فصلوں کی افزائش ہے جو کہ سخت نمکین اور کھارے پانی میں بھی اگائی جاسکے۔ اگرچہ کہ سمندر کے قریب پایا جانے والا پانی نمکین ہوتا ہے لیکن آپ نے دیکھا ہوگا کہ بعض پودے ان میں بھی نمو پاتے ہیں اس کی وجہ ان کے اندر قدرت کی طرف سے عطا کردہ جینیاتی میکنزم ہے جس کی وجہ سے ان کے اندر نمکین پانی کو برداشت کرنے کی صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے۔ بعض پودے جن کو ’’ہیلوفائٹ‘‘ یا نمکین پانی میں اگنے والے پودے کہا جاتا ہے ساحلی علاقوں ، صحرائوں ، دلدل، شورزدہ علاقوں یہاں تک کہ سمندروں میںپیدا ہوتے ہیں ۔
یہ غذا اور تیل کی فراہمی کا اچھا ذریعہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ ان مقامات پر فصلوں کی افزائش غذائی فصلوں کے لئے استعمال ہونے والی زمین کے مقابلہ کی نہیں ہے۔ نمک کو برداشت کرنے والے جین کی شناخت اور اس کو گندم ، مکئی یا چاول کی فصل میں داخل کرکے ہم نمک برداشت کرنے والی فصلیں تیار کرسکتے ہیں اور سمندر کے پانی یا شورہ زدہ علاقوں میں غذائی فصلیں اگائی جاسکتی ہیں۔ نمکین زمین پر قدرتی طور پر اگنے والے پودے یا ہیلوفائٹس کو شور زدہ زمین سے نمک نکالنے کے لئے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔بعض ہیلو فائٹ الجی حیاتیاتی ایندھن کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ ایک اسرائیلی کمپنی سے تیل نکالنے میں کامیاب ہوگئی ہے ۔ پانی سے نمک علیحدہ کرنے کے دو معروف طریقے حرارتی عمل تقطیر Thermal distillationاور معکوس اوسموسز ہیں۔ پہلے طریقے میں پانی کو نقطۂ ابال تک ابالا جاتا ہے اور اس سے پیدا ہونے والی بھاپ کو عمل تکثیف کے ذریعے جمع کرلیا جاتا ہے اور نمک نیچے ہی رہ جاتا ہے۔ دوسرا طریقے جس کو معکوس اوسموسز کہا جاتا ہے اس میں نمک کو ایک خاص نیم جاذب جھلی سے گزارا جاتا ہے صرف خالص پانی کو گزرنے دیتی ہے اور نمک نیچے رہ جاتا ہے۔ ان دونوں طریقوں میں توانائی کی ایک بڑی مقدار درکار ہوتی ہے چنانچہ ان دونوں طریقوں کو ماحولیات دوست نہیں کہا جاسکتا۔
نیوجرسی انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں کام کرنے والے سائنس دانوں نے مذکورہ دونوں طریقوں میں سے درمیان کا طریقہ دریافت کیا ہے۔ اس طریقے میں گرم پانی کو نیم جاذب جھلی میں سے گذارا جاتا ہے جس میں اندرونی طور پر کاربن نینو ٹیوب نصب ہوتی ہے جس کی وجہ سے بہاؤ کی رفتار خود بخود تیز ہو جاتی ہے۔ اس طریقے میں پانی کے بہاؤ کی شرح روایتی جھلی کے مقابلے میں6گنا زیادہ ہے۔
خود پر پانی کا چھڑکائو کرنے والا پودا:اسرائیل میں Negevصحرا میں پائے جانے والے پودے صحرائی ریوندچینی کی پتیاں ایک میٹر سے زیادہ لمبی ہوتی ہیں جبکہ دوسرے صحرائی پودوں کی پتیاں چھوٹی اور نوک دار ہوتی ہیں ۔ اسرائیلی سائنس دانوں پر یہ انکشاف ہوا ہے کہ اس پودے میں خودپر پانی کے چھڑ کاؤ کا ایک خود کار نظام موجود ہے جس کی وجہ سے اسے خود کار آب پاشی والا پودا کہا جاتا ہے اسرائیلی سائنس دانو ں کا دعویٰ ہے کہ یہ دنیا میں اس قسم کا پہلا دریافت ہونے والا پودا ہے۔ پودے کی مومی پتیوں کے اندر گہرے اور چوڑے راستے ہوتے ہیں جو کہ پہاڑی راستوں کی طرح ہوتے ہیں یہ پانی کے قطروں کو تھام لیتے ہیں اور پھر ایسے راستوں سے نیچے گراتے ہیں کہ پانی پودے کی جڑ کے قریب جا کر گرتا ہے ہلکی بارش میں بھی اس پودے کی جڑ کو ملنے والا پانی دوسرے مقامات کے مقابلے میں دس گنا زیادہ ہوتا ہے۔
بونے پودے:دنیا بھر میں پانی کی کمی اوربڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے زرعی زمین میں کمی ( جوکہ اب 7 ملین سے بھی بڑھ چکی ہے)کی وجہ سے اب سائنس دان غذاؤں میں استعمال ہونے والے پودوں کی افزائش کے لئے نئے اور جدید طریقہ کار تیار کرنے کی جستجو میں مصروف ہیں۔ اب ان پودوں کو کم پانی ، کم فرٹیلائزر ز،کم غذائیت اورکم کرم کش ادویات کا استعمال کرتے ہوئے کاشت کیا جا سکے گا۔
پرڈیو یونیورسٹی کے محققین Burkhard Schulzنے اس حوالے سے ایک دلچسپ حل تلاش کیا ہے۔ ان کی دریافت کے مطابق بعض کیمیائی مادوں کی مدد سے ہم پودوں سے حاصل ہونے والے فوائد میں کسی کمی کے بغیر پودے کا سائز کم کرسکتے ہیں۔ propiconazoleجو کہ عام فنجائی کش دوا ہے ، کو سائز میں چھوٹے اورطاقت ور مکئی کے پودے کی افزائش کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ یہ پودا کم پانی ، فرٹلائزر اور غذائیت حاصل کرکے زیادہ گودا دے گا۔ پاکستان کو زراعت کے میدان میں ترقی کرنے کیلئے ایسی دریافتوں سے پوری طرح استفادہ حاصل کرنا چاہئے اور اپنے تحقیقی مراکزکو مضبوط کرنا چاہئے تاکہ وہ شعبہ زراعت کے فروغ میں اہم کردار ادا کر سکیں۔