• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تقسیمِ ملک کے بعد لاکھوں کی تعداد میں لٹے پٹے لوگ ہندوستان کے مختلف علاقوں سے ہجرت کرکے پاکستان میں پناہ گزین ہوئے اسی طرح پاکستان سے ہندوستان ہجرت کرنے والے بھی لاکھوں کی تعداد میں تھے۔ جو ہندوستان کے مختلف علاقوں میں جا کر آباد ہوگئے ۔ تقسیمِ ہند دراصل تقسیمِ پنجاب و بنگال تھی۔ کیونکہ تقسیم کی لکیر انہی دو صوبوں میں کھینچی گئی تھی ۔ اس لئے سب سے زیادہ فسادات اور ہجرت ان ہی علاقوں میں ہوئی تھی۔ پنجاب کا شاید ہی کوئی علاقہ ایسا ہو جہاں مہاجر نہیں آئے۔ اسی طرح پنجاب کے بعد دوسرے نمبر پر سندھ میں مہاجرین آباد ہوئے۔ کیونکہ پنجاب کی طرح سندھ کی سرحد بھی ہندوستانی علاقے سے ملتی ہے۔ سرحد سے دور ہونے کی وجہ سے کے پی کے اور بلوچستان میں ہندوستان سے ہجرت کر کے آنے والے کم لوگ ہی آباد ہوئے۔ جبکہ افغان جنگ کے دوران افغانی مہاجروں کا زیادہ زور کے پی کے اور بلوچستان میں رہا۔ جہاں اب بھی لاکھوں افغانی مہاجر آباد ہیں۔ تقسیمِ ہند کو تقریباََ 70سال ہونے والے ہیں اور اس وقت کے مہاجرین یہ سوچ کر آئے تھے کہ وہ مستقل طور پر اپنے نئے وطن پاکستان میں آباد ہو جائیں گے۔ اب تک انکی تین نسلیں نئے وطن میں پیدا ہو چکی ہیں۔ جبکہ افغانستان سے ہجرت کی وجہ وہاں ہونے والی خانہ جنگی تھی۔ اور وہاں سے آنے والے مہاجر عارضی طور پر اپنی جان بچانے کیلئے پاکستان آئے تھے۔ اور ان میںکئی مہاجر واپس بھی چلے گئے ۔ افغان مہاجروں کی اکثریت آج بھی مہاجر کیمپوں میں مقیم ہے۔ وہ پاکستان کے شہری نہیں اس لئے ان کا ا سٹیٹس(Status) آج بھی مہاجروں کا ہے لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ جن لوگوں نے پاکستان میں مستقل پناہ حاصل کی ، یہاں انہیں پاکستانی شہریت دی گئی۔ وہ تمام حقوق سے نوازے گئے جو ریاست اپنے شہریوں کو عطا کرتی ہے وہ بھی ابھی تک خود کو ’’مہاجر‘‘ کہلاتے ہیں۔یہ کیفیت صرف صوبہ سندھ کے شہری علاقوں میں پائی جاتی ہے۔ جہاں ہجرت کے تقریباََ پچاس سالوں کے بعد جبکہ مہاجروں کی دو نسلیں جوان ہو چکی تھیں۔ مہاجروں کے نام پر ’’متحدہ مہاجر موومنٹ ‘‘ ایم کیو ایم کے نام سے ایک سیاسی تنظیم وجود میں آئی ۔ جبکہ پنجاب جہاں سب سے زیادہ ہجرت ہوئی وہاں پر آنے والے مہاجروں نے خود کو مہاجر کہلوانا بند کردیا تھا اور وہ پاکستانی معاشرے میں ضم ہوگئے تھے۔ حالانکہ ان میں بھی ارود بولنے والے بڑی تعداد میں تھے۔ تو پھر سندھ میں کیا کوئی نئی قسم کی ہجرت ہوئی تھی۔ جہاں ستر سال گزرنے اور تین نسلوں کے جوان ہونے کے بعد بھی کچھ لوگ اپنے آپ کو ’’مہاجر‘‘ کہلوانے میں حق بجانب سمجھتے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ’’ مہاجر ‘‘ کی تعریف کیا ہے۔ کیونکہ انسان ہمیشہ سے اپنی جان و مال کی حفاظت او ر اپنے بہتر مستقبل کی خاطر دوسرے علاقوں میں ہجرت کرتا رہا ہے اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے اور ہمیشہ جاری رہے گا۔گویا ہجرت چاہے عارضی ہو یا مستقل ، یہ انسانی تاریخ کا لازمی جزو رہی ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو دنیا کا کم و بیش ہر انسان مہاجر کہلا سکتا ہے لیکن کیا ’’ مہاجر ‘‘ کی یہ تعریف درست ہے؟ ۔ اس کا سیدھا جواب یہ ہے کہ ’’ نہیں‘‘ اگر کوئی شخص ستر سال گزرنے کے باوجود بھی اپنے آپ کو اس ملک کا شہری سمجھنے کی بجائے’’ مہاجر‘‘ سمجھتا ہے تو گویا وہ جہاں رہ رہا ہے اسے ابھی تک اپنا ’’وطن‘‘ سمجھنے کیلئے تیارنہیںیہ صورتِ حال خاصی تشویشناک ہے۔ جہاں تک مسائل کا تعلق ہے تو کیا مہاجروں کو اپنی سرزمین پر پناہ دینے والے مقامی افراد غربت، بے روزگاری اور نظام کے ظلم و ستم کا شکار نہیں؟ ۔ پھر اپنےا سٹیٹس ، ذات برادری یا لسانی تعلق کو اپنے مسائل کی بنیاد گرداننا معاشرے میں ایک نئی وجہ پیدا کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں۔
ہماری قومی تاریخ کا یہ المیہ ہے کہ ہم نے مسائل کو آفاقی سچائیوں کے حوالے سے جاننے اور حل کرنے کے بجائے اپنے خود ساختہ مفروضوں کی بنیاد پر ان کا تجزیہ کیا ہے۔ جب انسان تقسیم در تقسیم کے راستوں پر چل پڑتا ہے تواتحاد کی منزل دور سے دور ہوتی جاتی ہے۔ اب یہ ایک آفاقی سچائی ہے کہ دنیا میں حقیقی تقسیم صرف ایک ہے اور وہ ہے ظالم اور مظلوم کی تقسیم ۔ اور آسان الفاظ میں ہم دنیا کو اچھے اور بُرے لوگوں میں تقسیم کر سکتے ہیں ۔ زبان ، رنگ و نسل ، مذہب اور خطّے انسانی شناخت کے علاوہ کچھ نہیں۔ مسائل کا ان سے کوئی تعلق نہیں۔ اگر کوئی طبقہ ان کا تعلق مسائل سے جوڑتا ہے یا ان کے حوالے سے مسائل پیدا کر تا ہے تو وہ یقیناََ ان طبقوں کا خیر خواہ نہیں۔ تقسیم ِ ہند کے بعد جو خطّہ پاکستان میں شامل ہواتھا اس میں ہندوستان میںموجود خطّوں کی نسبت مذہبی ، معاشرتی اور لسانی حوالوں سے انتہائی کم تضادات تھے۔ جس کی وجہ سے ہمارے ہاں ایک قوم بننے اور تیز رفتارترقی کرنے کے مواقع ہندوستان کی نسبت کہیں زیادہ تھے لیکن افسوس ہمارے ہاں کی غیر سیاسی قیادت جس نے قیامِ پاکستان کے فوراََ بعد ہماری انتظامیہ اور حکومت پر غیر آئینی طریقوں سے قبضہ کرلیاتھا۔ اس صلاحیت سے عاری تھی ۔ لہٰذا ہم ایک قوم بننے کی بجائے مذہبی ، مسلکی ، لسانی اور دیگر فرقہ وارانہ تضادات کا شکار ہوگئے۔ کیونکہ یہ تضادات غیر آئینی حکمرانوں کے اقتدار کو طوالت بخشنے کیلئے مددگار ثابت ہوتے تھے۔ انہی تضادات کی وجہ سے ہمارا مشرقی حصہ ہم سے الگ ہوگیا۔ لسانی بنیادوں پر مہاجر قومیّت کی باضابطہ تشکیل، جنرل ضیا کے دورِ ستم میں سامنے آئی۔ کیونکہ اس وقت کے ڈکٹیٹر کے سامنے ایک قومی لیڈر ذوالفقار علی بھٹو اور اس کی قومی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی بیخ کنی سب سے بڑا مسئلہ تھی۔ حالانکہ قومی لیڈر اور قومی سیاسی پارٹیاں جنکی موجودگی تمام صوبوں میں ہوتی ہے قومی اتحاد کیلئے کسی نعمت سے کم نہیں ہوتے۔ انہیں غیر آئینی طریقوں سے کمزور یا ختم کرنا، قومی سالمیّت کو کمزور کرنے کے مترادف ہوتاہے لیکن اقتدار کے نشے میں ڈکٹیٹر نے اپنے اقتدار کی طوالت کےلئے ہر قومی ادارے کو تباہ و برباد کردیا۔ مہاجر قومی موومنٹ جسے بعد میں متحدہ قومی موومنٹ کا نا م دے دیا گیا ۔ ایک ایسا تشدد گروہ بن کر سامنے آئی جس نے گزشتہ 35برسوں سے کراچی اور حیدرآباد جیسے بڑے شہروں کا سکون چھین لیا ۔ کیا اس نے مہاجروں کے نام پر ان کا کوئی بھلا بھی کیا ہے؟ یا قومی سطح پر جمہوری اور دستوری تحریک میں کوئی مثبت کردار ادا کیا ہے؟ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ ایک ڈکٹیٹر کی بنائی ہوئی تنظیم نے دوسرے ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے دور میں نہ صرف اس کے اقتدار کو طول بخشا۔ یہ بھی عجیب بات ہے کہ اس کے لیڈروں پر 12 مئی کے قتل ِ عام کے حوالے سے مقدمات چل رہے ہیں لیکن جو ڈکٹیٹر اس قتل ِ عام کا اصل محّرک تھا۔ا سے ملک سے بحفاظت جانے دیا گیا ہے اور کچھ خبروں کے مطابق وہ نئی ایم کیو ایم اور پاک سرزمین پارٹی کی قیادت کیلئے مناسب وقت پر دوبارہ پاکستان آنے کا پروگرام بنا رہا ہے پاکستان کیخلاف ہر زہ سرائی کے بعد الطاف حسین سے پارٹی قیادت تو چھین لی گئی ہے لیکن اگر ہم نے جمہوری عمل کیساتھ چھیڑ چھاڑ ختم نہ کی تو لسانی اور گروہی سیاست کا خاتمہ نہیں ہو سکے گا کیونکہ قومی سیاسی جمہوری دھارا ہی لسانی ، گروہی اور فرقہ وارانہ تعصّبا ت کا خاتمہ کر سکتا ہے۔


.
تازہ ترین