• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کرکٹ ٹیم پر تنقید کے تیر اتنے زہر آلود ہیں کہ مجھ سے بھی برادشت نہیں ہو رہا تو ہماری ٹیم کے کھلاڑی یہ سب کیسے جھیل رہے ہوں گے ۔میں بھی پاکستان اور بھارت کے ساتھ ہونے والا میچ بمشکل ہی دیکھ سکا تھا میرے دل کی دھڑکنوں کا ردھم متاثر ہو رہا تھا ۔ویسٹ انڈیز کا میچ دیکھنے سے پہلے میں نے تین دفعہ سونے کی کوشش کی لیکن نہیں سو سکا اس میچ کو دیکھ بھی دل بہت دکھا ۔لیکن جیسے میڈیا پر ہماری ٹیم کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اس پر مجھے اعتراض ہے اگر نجم سیٹھی یہ کہہ رہےہیں کہ کھلاڑیوں پر دبائو زیادہ ڈال دیا گیا ہے ۔تو وہ ٹھیک ہی کہہ رہا ہے ۔ کھلاڑی کوئی منجھے ہوئے سیاست دان نہیں کہ اتنی تنقید سن اور دیکھ سکیں ،انکے اہل خانہ بھی یہ سب میڈیا پر دیکھتے ہوں گے۔اور سب سےبڑھ کر ہم خود جو انہیں ہیرو سمجھتے ہیں اپنے ہیروز کے خلاف یہ سب کچھ کیسے برداشت کرتے ہوں گے َ؟ کسی دور دراز علاقے میں کوئی رپورٹر خبر بنانے کے لئے کسی کے پرانے ٹی وی سیٹ کو تڑوا کر اس کی خبر بھیج دے اور ہمارا میڈیا اسکو ہیڈ لائنز میں چلائے تو یہ زیادتی ہے ۔چلیں اگر ایک فی صد عوام نے بھی ٹی وی توڑے ہوں تو یہ خبر بنا لیں۔ ہمارے ملک میں کتنے ٹی وی ہوں گے ؟بہت کم بھی لگائیں تو ایک کروڑ تو ہوں گے انکا ایک فی صد ایک لاکھ بنتا ہے۔ اور جو چند لوگ پرانا سا ٹی وی سیٹ لے کر کیمرہ مین کا انتظار کرتے رہیں کہ کوئی چینل آئے تو ہم یہ خراب ٹی وی اس کے سامنے توڑیں تاکہ ہماری خبر ٹی وی پر آئے ۔حد تو تب ہوگئی جب میں نے دیکھا کہ علامتی جنازہ نکالا جا رہا ہے ۔یہ چند لوگ میڈیا پر آنے کے لئے تو کر سکتے ہیں لیکن ہماری عوام کی عمومی سو چ بالکل ایسی نہیں ۔ میری ٹیم بڑے مارجن سے بھارت سے ہارے تو مجھے بھی دکھ ہوتا ہے،میرا دل بھی کڑھتا ہے ،میں بھی چاہتا ہوں کے بے شک یہ ہار جائیں لیکن لڑ کر تو ہاریں میں اپنے دوستوں سے باتیں کرتے ہوئے شدید تنقید کرتا ہوں کہ اس نے غلط شارٹ کھیلا ،سلیکشن ٹھیک نہیں ،ٹیم میں سیاست آگئی ہے ،مصباح کو اب تو ون ڈاوٗن آنا چاہئے ،سرفراز کو کیوں نہیں کھیلا رہے؟ لیکن نہ تو میں کسی چوک میں آکر کیمرے کے سامنے اپنا ٹی وی توڑوں گا نہ علامتی جنازہ نکالنے کا اعلان کروں گا ۔اور مجھے بہت حد تک یقین ہے کہ کہ جیسے بڑھ چڑھ کر میڈیا ان کھلاڑیوں کو حرف تنقید بنا رہا ہے عوام کا ایک بڑا حصہ اس کے حق میں نہیں ۔یا جتنی سنگین تنقید اور عوام کا غصہ میڈیا پر دکھایا جارہا ہے عوام کو ان پر اتنا غصہ نہیں ۔نجم سیٹھی ٹیم پر جس دبائو کی بات کررہے ہیں وہ عوام کا دبائو نہیں میڈیا کا دبائو ہے ۔ انگلش ٹیم کی شکستوں کو دیکھیں ،جنوبی افریقہ جیسی مضبوط ترین ٹیم بھارت سے اتنے بڑے مارجن سے ہار گئی ،ویسٹ انڈیز ٹیم کی کالی آندھی کا جو حال آئر لینڈ نے کیا اور تو اور سر لنکا جتنی مشکل سے افغانستان سے جیتا ہے یہ سب تو ہم نےدیکھ لیا ہے ۔ان میچز کا ذکر اپنی ٹیم کی پے در پے شکستوں کے لئے دلیل پیدا کرنا نہیں صرف یہ بتانا ہے کہ ان ممالک میں بھی اپنی ٹیموں پر تنقید ہو رہی ہو گی لیکن انکی کارکردگی بڑھانے کے لئے اپنا غصہ اتارنے کے لئے نہیں ۔میری گزارش ہے کہ تنقید ضرور کی جائے لیکن فی الحال اپنی ٹیم کے مورال کا خیال رکھنا بھی ہمارے میڈیا کی ذمہ داری ہے۔ مصباح الحق الیون عوام تم سے اتنا لگائو رکھتے ہیں، اسی لئے تھوڑا سا غصہ آجاتا ہے ۔یہ ہی کرکٹ لورز یکم مارچ کو ایک بار پھر اپنی ٹیم کا میچ دیکھنے کے لئے اپنے اپنے ٹی وی سیٹ کے سامنے بیٹھیں گے ۔ہم سب پھر اپنی ٹیم کے لئے دعا گو ہوں گے ۔بس پوری ٹیم محنت سے کھیلے ، بغیر کسی دبائو کے ۔اسکے لئے ضروری ہے کہ کوچ اور کپتان ٹیم کا مورال بلند رکھیں ،اچھے فیصلے لیں ۔مصباح اگر ون ڈائون آجائے تو بہتر ہو سکتا ہے ۔مشکل فیصلے کریں لیکن کو ئی فیصلہ اس دبائو کی وجہ سے نہ ہو کہ ہار گئے تو پتہ نہیں کیا ہو جائے گا ؟کچھ نہیں ہوگا کہ تم جیتو یا ہارو ہمیں تمہارا میچ ضرور دیکھنا ہے اور تمہاری جیت کے لئے دعا بھی کرنی ہے ۔
تازہ ترین