آج، تعلیم ٹیکنالوجی اور ہنر ملک کی سماجی و اقتصادی ترقی کے سب سے اہم عناصر ہیں۔جن ممالک نے اس حقیقت کو سمجھ لیا ہے ا نہوں نے اپنی افرادی قوّت کو اعلیٰ ترین سطح پر لانے کیلئے شعبہ تعلیم پروسیع پیمانے پر سرمایہ کاری کی ہے اورآج ترقی کی راہ پر گامزن ہیں اس کے باوجود کہ انہیں ناکافی وسائل اور کم افرادی قوت کا سا منا تھا ۔ ایسے ہی کچھ ممالک کی مثالیں پیش ہیں ۔ مثال کے طورپر فن لینڈ کی آبادی کراچی کی آبادی کی صرف ایک چوتھائی ہے لیکن اس کی صرف ایک کمپنی کی برآمدات 2010ء میں تقریباً 50ارب ڈالر تھیں جو کہ پورے پاکستان کی برآمدات سے بھی دگنی تھیں۔اسی طرح ملائیشیا نے بھی آج سے 30سال پہلے یہ تہیہ کر لیا تھا کہ وہ تعلیم و ٹیکنالوجی کو ترجیح دیتے ہوئے اپنے بجٹ کا 25% حصّہ تعلیم پر خرچ کریگا جس پروہ آج تک کاربندہے۔نتیجہ یہ ہے کہ آج ملائیشیا اسلامی ممالک کی کل اعلیٰ تکنیکی (hi-tech) مصنوعات کا 86.5% حصّہ برآمد کرتا ہے۔ اسی طرح کوریا کی ترقی کا اندازہ اس شمار سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ1960ء میں کوریا کے تقریباً 5% نوجوان (17-23 سال کی عمرکے) اعلیٰ تعلیم سے مستفید ہو رہے تھے (تقریباً اتنے ہی جتنے پاکستان میں 2000ء میں تھے) اور کوریا کی برآمدات کل 30ارب ڈالر تھیں۔ 2011ء تک کوریا میں ڈگری یافتہ طلبہ کی تعداد بڑھ کر 64% تک پہنچ گئی جو کہ دنیا میں کسی بھی ملک کی سب سے زیادہ ڈگری یافتگان کی تعداد ہے۔ نتیجتاً اعلیٰ درجے کی مصنوعات کی برآمدات (برقیات، انجینئرنگ کا سامان، گاڑیاں، گھریلو استعمال کا سامان، بحری جہاز سازی کا سامان) میں اضافہ ہوا اور اس کی سالانہ برآمدات 728ارب ڈالر سالانہ تک پہنچ گئیں۔ اسی طرح ایک چھوٹے سے ملک سنگاپور جس کی آبادی بھی کرا چی کی آبادی کی ایک چوتھائی ( تقریباً 50 لاکھ)ہے ، اس کی برآمدات پاکستان کی (31 ارب ڈالر کی) سالانہ برآمدات کے نسبت 17گنا زیادہ ( 557ارب ڈالر سالانہ ) ہیں جبکہ پاکستان کی آبادی سنگاپور کی آبادی سے 4گنا زیادہ ہے ۔ اصل وجہ صرف یہ ہے کہ ہماری حکومت نے علم پر مبنی معیشت کے قیام کیلئے پچھلے 68سال میںکبھی سنجیدگی سے سوچا ہی نہیں۔گزشتہ تین دہائیوں میں عالمی صنعتی پیداوار اور برآمدات کی مالیت کا جائزہ لیا جائے تو اعلیٰ و درمیانی درجے کی تکنیکی مصنوعات کی برآمدات میں تیز ی سے اضافہ ہوا ہے جبکہ کم درجے کی تکنیکی مصنوعات و قدر تی وسائل سے منسلک برآمدات میں تیزی سے کمی آئی ہے ۔ ان سب میں اعلیٰ تکنیکی مصنوعات کی برآمدات میں سب سے زیادہ فوائد دیکھنے میں آئے ہیں اور جوممالک اس راز کو سمجھ گئے ہیں وہ اپنی زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری علم پر مبنی معیشت او ر اعلیٰ تکنیکی مصنوعات کی تیاری و برآمدات پر کر رہے ہیں جن میں برقیات ، ادویات سازی، انجینئرنگ کا سامان، بائیو ٹیک مصنوعات ،کمپیوٹر، سافٹ وئیر ، گاڑی سازی، طیاروں کی تیاری، دفاعی آلات، متبادل توانائی کی مصنوعات اور دیگر مصنوعات شامل ہیں جن کیلئے عمدہ مہارت کی حامل عالمی معیار ی جامعات اور تحقیقی مراکز قائم کئے گئے ہیں ۔جدّت طرازی اور تحقیق ، ترقی کیلئے لازم و ملزوم ہیں۔ گزشتہ کئی دہائیوں میں انفارمیشن ٹیکنالوجی، حیاتیاتی ٹیکنالوجی ،(material science)،health science)) ، قابل تجدید توانائی اور دیگر شعبوں میں تیزی سے ترقی نے دنیا کا روپ ہی بدل دیا ہے اور جن ممالک میں یہ ترقی ہوئی ہے انہوں نے سماجی و اقتصادی ترقی کی دوڑمیں دوسرے ممالک کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔انفارمیشن ٹیکنالوجی نے دنیا کو سکیڑ دیا ہے اور آئے دن نت نئی دریافتوں سے ہمیں متعارف کرارہی ہے۔ ای کامرس ،موبائل فون اورانٹرنیٹ ٹیکنالوجی نے مواصلاتی نظام کو نہایت موئثر کرتے ہوئے دوردراز کے گاؤں وغیرہ کو جوڑ دیا ہے ۔چند ممالک مثلاً آئر لینڈ ، چین،اور بھارت نے ICT ٹیکنالوجیوں کی مدد سے اپنی ملکی معیشت کو تیزی سے پروان چڑھایاہے۔ ICT ٹیکنالوجیاں علمی معلومات کی ترسیل کے ذریعے ترقی اور جدّت طرازی کے عمل کو بھی تیز کرتی ہیں اس سے صنعت و زراعت کی پیداواری صلاحیتوں میں بھی اضافہ ہوتا ہے اورجدید کاروبار کیلئے زیادہ مواقع حاصل ہوتے ہیں۔
ان چند سالوں میں حیاتیاتی ٹیکنالوجی سماجی و اقتصادی ترقی کا ایک اہم ذریعہ ابھر کرسامنے آیا ہے۔ کثیر تعداد میں حیاتیاتی ٹیکنالوجیوں سے وابستہ مصنوعات ترقی کے مراحل میں ہیں جن میں دوا کی رسائی کیلئے ویکسین، سالمیاتی تشخیص ، جینیاتی ترتیب ، جینیاتی معلوماتی ترقی جینیاتی طور پر ترمیم شدہ فصلیں وغیرہ شامل ہیں ۔ کیوبا نے ان شعبوں میں صنعتوں کی تیاری کیلئے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ہے اور اب اس سرمایہ کاری سے مستفید ہورہا ہے۔ جدید مادّوں کی دریافت وسیع پیمانے پر عالمی صنعتی شعبوں پرمثبت طور پر اثر انداز ہورہی ہے ان میںبرقیات، گاڑی سازی، انجینئر نگ، پالیمر اورپلاسٹک، کپڑا سازی تعمیراتی کام اور دیگر شعبے شامل ہیں۔ حال ہی میں نینو ٹیکنالوجی میں ہونے والی پیش رفت نے انجینئرنگ ، کیمیات ، ادویات سازی اور دوسرے شعبوں میں ترقی کی نئی راہیں کھول دی ہیں۔ نینو ٹیکنالوجی میں شعبہ صحت سے منسلک کافی دریافتیں ہوئی ہیں اور یہ شعبہ بڑی تیزی سے ترقی کی منازل طے کر رہا ہے مثلاً تشخیصی آلات، ادویات، ویکسین کی ترسیل، نئی اقسام کے جراحی آلات، مختلف بیماریوں کے علاج، مختلف جراثیم کی تشخیص میں بہت کام یابی سے اس شعبے کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ نینوٹیکنالوجی شفاف پانی کی فراہمی کا ذریعہ بھی بن سکتی ہے مثلاً فضلے کے پانی کو نینو جھلّیوں اور نینو مٹّی کے ذریعے صاف کیا جا سکتا ہے اسکے علاوہ نینو پورس پالیمرکی مدد سے باز گردانی پانی سے زہریلی دھاتیں نکالی جا سکتی ہیں۔اسی طرح قابل تجدید توانائی میں بھی نینو ٹیکنالو جی استعمال ہو رہی ہے مثلاً شمسی خلیے ہائیڈروجن ایندھن خلئے، نینو فوٹو وولٹائیک آلات حتیٰ کہ کاربن نینو نلکیات بھی تیزی سے ترقی کے مراحل میںہیں۔ نئے علوم، بالخصوص ٹیکنالوجی سے متعلق علوم کسی بھی ملک کے اقتصادی نظام کو چلانے کے ضامن ہیں اور اقتصادی اراکین مثلاً ادارے اور حکومت آج کے اس مسابقتی ماحول میں زندہ رہنے کیلئے تکنیکی تبدیلیوں کو اپنانے کیلئے مجبور ہیں ۔ خود حکومت کو ان سہولتوں کی فراہمی کو یقینی بنانا چاہئے کیونکہ تکنیکی صلاحیتوں کا صنعتوں میں استعمال ہونا سخت ضروری ہے۔ یہ صرف اسی وقت ممکن ہو سکتاہے جب ہم اپنی جامعات اور تحقیق و ترقی کے اداروں کو مضبوط و مستحکم کریں اور ان کے صنعتوں کے ساتھ موثر روابط تشکیل دیں۔ میں نے 2006ء میں ایک بہت اہم پروگرام شروع کیا تھا جس کے تحت انجینئرنگ کی جامعات جرمنی، فرانس ،آسٹریا، سوئیڈن، اٹلی کوریا اور چین کی مدد سے قائم کی جا نی تھیں۔ان بین الاقوامی معیار کی جامعات سے پاکستان میں ایک صنعتی انقلاب آسکتا تھا لیکن افسوس پچھلی حکومت نے اس کو ابتدائی مراحل میں ہی ختم کر دیا اور پاکستان کو ایک ناقابل تلافی نقصان ہوا کیونکہ اس پروگرام کے ذریعے پاکستانی طلبہ مغربی ممالک جائے بغیر وہاں کی چوٹی کی جامعات کی ڈگریاں حاصل کرتے اور پاکستان کی اعلیٰ ٹیکنالوجی کی برآمدات بہت تیزی سے عالمی منڈیوں میں چھا جاتیں۔نئے عالمی حالات کا تقاضہ یہ ہے کہ ہمیں اپنے بچّوں کو عالمی معیشت کے چیلنج کیلئے تیار کرنا ہوگا۔ اس کیلئے ہمیں تعلیم کو ایک مختلف زاویے سے نا فذ کرنا ہوگا جونہ صرف مضامین میں مہارت پر توجہ دے بلکہ طلبہ کی دیگر صلاحیتوں کو بھی اجاگر کرے جیسا کہ مثبت تنقیدی نظرئیے سے سوچنا ، جدّت طرازی کی طرف مائل ہونا ، موثر طریقہ گفتار ہونا۔
ٹیم کے ساتھ مل کر کام کرنے کی صلاحیت ہونا، کاروباری سمجھ بوجھ ہونا اور اس سے متعلق کسی بھی خطرے سے نمٹنے کی صلاحیت ہونا، تبدیلیوں کو قبول کرنے او ر ان کے مطابق خود کو ڈھالنے کی صلاحیت وغیرہ شامل ہیں۔ ہمارے قومی ترقیاتی منصوبوں اور علم پر مبنی ،دماغی معیشت میں کسی قسم کا ربط نہیں ہے۔ معزز وزیر منصوبہ بندی و ترقی ، جناب احسن اقبال اس موجودہ کابینہ کے شایدوہ واحد فرد ہیں جو اس ضرورت کو سمجھتے ہیں ۔ المیہ یہ ہے کہ انہیں وزارت خزانہ سے کسی بھی قسم کی مالی معاونت حاصل نہیں ہے اور پاکستان صرف علم پر مبنی معیشت کے منصوبے بنا رہا ہے لیکن ان پر عمل درآمد کیلئے جو رقم درکار ہے وہ مہیّا نہیں ہے صورتحال کتنی خراب ہے اس کا اندازہ قارئین اس بات سے کر سکتے ہیںکہ 2002ء میں جب میںسائنس وٹیکنالوجی کا وزیر تھااس وقت سائنس و ٹیکنالوجی کا ترقیاتی بجٹ 6 ارب روپے تھا جو گھٹ کر اب صرف ایک ارب روپے رہ گیا ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ پاکستان موجودہ غفلتوں سے جاگ جائے ۔بھارت تیزی سے ترقی کی راہوں پر قدم بڑھارہاہے IT اور برآمدات کے شعبے میں 100ارب ڈالرز کی حدوں کو پار کرنے کے بعد اب اس کا رخ حیاتیاتی تکنیکی صلاحیتوں اور ادویات سازی کی صنعت کی جانب ہے جو کہ اسکی ترقی میں مزید چار چاند لگا دیں گے۔ وقت آگیا ہے کہ پاکستان بھی علم پر مبنی معیشت کے قیام کیلئے کوششیں تیز کرے۔ کامیابی انشاء اللہ بالآخر ہمارے قدم چومے گی۔
تصحیح
پچھلے مقالے میں سنگاپور نیشنل جامعہ کا بجٹ 160 ارب ڈالر چھپ گیا تھا دراصل اسکا بجٹ 160ارب روپے ہے