• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ٹی وی چل تو رہا تھا لیکن’’چپ‘‘ تھا۔ اچانک ایک پٹی چلتی دکھائی دی ۔’’فیصل آباد:دھند کے باعث حد نگاہ 10میٹر رہ گئی‘‘اچانک یہ روح فرسا خیال بجلی کے کوندے کی طرح لپکا کہ اگر وقت اور موسمی قسم کی دھند انسانی نگاہ کو اس بری طرح تہس نہس کرسکتی ہے کہ سکس بائی سکس کی آئی سائٹ والا انسان بھی10میٹر سے آگے نہ دیکھ سکے تو ان قوموں کا کیا ہوتا ہوگا جنہیں بے شمار صدیوں سے مسلسل کثیر الجہت قسم کی دھند میں رکھا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے ہم بھی اک ایسی ہی قوم ہیں۔ ہمیں صدیوں سے بے شمار قسم کی’’دھندوں‘‘ کا سامنا ہے ا ور ہماری’’اجتماعی حد نگاہ‘‘ دس میٹر بھی نہیں رہ گئی۔ ہم نسل در نسل نہ ٹھیک سے ایک دوسرے کو دیکھ پارہے ہیں، نہ ہمیں ایک دوسرے کے دکھ دکھائی دے رہے ہیں، نہ حقائق نظر آرہے ہیں،نہ سمت نہ سفر نہ منزل......ہم دھند کی لپیٹ میں آئی گاڑیوں کی طرح آپسمیں ٹکراتے، ایک دوسرے کو گھائل کرتے، اندازوں کی بنیاد پر ٹامک ٹوئیاں مارتے، دھکے دیتے، دھکے کھاتے رینگ رہے ہیں جس کے نتیجہ میں اشرافیہ کی مسلسل لاٹری لگی ہوئی ہے۔برادرم اظہار الحق ٹھیک کہتے ہیں کہ جب مغلوں کا سورج نصف انہار پر تھا تو برصغیر کی تمام تر آمدنی کا چوتھا حصہ تقریباً 500گھرانوں کی ڈسپوزل پر تھا۔ آج یہی حال پاکستان کا ہے جس کے تمام تر وسائل کا بیشتر حصہ چند خاندانوں کے تصرف میں ہے جبکہ باقی ساری آبادی ٹوٹ بٹوٹ کی طرح ووٹ بازی میں مصروف اس جنم جلی جمہوریت کو مضبوط کررہی ہے جو جمہور یعنی عوام کی بدترین دشمن ہے۔ یہ جمہور اور جمہوریت دیکھ کر مجھے وہ کارٹون یاد آتا ہے جس میں اک آدمی گدھے پر سوار ہے۔ اس کے ہاتھ میں چھڑی ہے جس پر چارہ بندھا ہوا ہے جو بھوکے گدھے کے منہ سے چند انچ آگے ہے۔ بے چارہ بھک مرا گدھا پوری رفتار سے سرپٹ بھاگ رہا ہے کہ چند لمحوں میں سبز سبز رسیلے چارے تک پہنچ کر پیٹ بھر کے چارہ کھائے گا۔ بے چارہ گدھا نہیں جانتا کہ وہ ہزار سال بھی بھاگتا رہے تو چارے تک رسائی نصیب نہ ہوگی لیکن اسے پورا یقین ہے کہ’’جمہوریت بہترین انتقام ہے‘‘خواہ اس کا شکار وہ خود ہی کیوں نہ ہو۔دھند کی بے شمار قسمیں ہیں جن میں سے چند کی نشاندہی پیش خدمت ہے۔علمی دھندسیاسی دھندمذہبی دھندفکری دھندتاریخی دھنداقتصادی دھند وغیرہیوں تو یہ ساری دھندیں آپس میں قریبی رشتہ دار ہیں لیکن پہلی والی کا جواب نہیں۔’’علمی دھند‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ عوام کو علم سے محروم رکھو تاکہ وہ صحیح اور غلط میں تمیز کرنے کے قابل ہی نہ ہوسکیں۔یہی وہ آئیڈ ئل سچویشن ہے جہاں عوام اپنے قاتلوں کو اپنے کندھوں پر بٹھا کراقتدار میں لاتے ہی نہیں، اس خود کشی پر بھنگڑے بھی ڈالتے ہیں کہ ان کا’’امیدوار‘‘ جیت گیا جبکہ وہ خرکار کسی کا بھی یار نہیں ہوتا۔ سو فیصد عوام کو جاہل رکھنا ممکن نہیں ہوتا کیونکہ اشرافیہ کو کلرکوں، منشیوں، قاصدوں، معاونوں، چوبداروں، لٹھیتوں، برچھیتوں وغیرہ کی بھی ضرورت ہوتی ہے لیکن انہیں بھی جینوئن تعلیم، کوالٹی ایجوکیشن سے محروم رکھا جاتا ہے تاکہ وہ اورجنل سوچ سوچنے، شک شبہ کرنے اور سوال اٹھانے کے قابل نہ ہوسکیں۔ اسی لئے تو ہمارے بے شمار’’پڑھے لکھے‘‘ اس جمہوریت پر بھی انگلی اٹھانے سے ڈرتے ہیں جو جمہوریت ہے ہی نہیں۔ ان’’پڑھے لکھوں‘‘ کو یہ خوف ہوتا ہے کہ انہیں’’ان پڑھ‘‘ نہ سمجھا جائے۔ جہالت کا اک اور فائدہ بھی ہے کہ جذباتیت کا غلبہ رہتا ہے، عقلیت اپنی آبرو بچائے پھرتی ہے۔سیاسی اور اقتصادی دھند کو سمجھنا ہو تو صرف دو تازہ ترین وارداتوں کو ملا کر دیکھیں۔ لوگوں کو جھانسہ دینے کے لئے نام نہاد ’’مقامی حکومتوں‘‘ کا ڈول تو ڈال دیا گیا ۔ اب پانی نکالتے رہو لیکن کتا بدستور کنوئیں میں رہے گا کیونکہ ان عوامی مقامی حکومتوں کے اختیارات سلب کئے جاچکے ۔ یہ بے چارے’’جمن پرچیاں‘‘ اور ’’مرن پرچیاں‘‘ یعنی ’’برتھ سرٹیفکیٹ‘‘ اور ڈیتھ سرٹیفکیٹ‘‘ جاری کریں گے یا طلاق وغیرہ کے معاملات میں چکڑ چودھری بن کر ’’عوامی عوامی‘‘ اور’’ مقامی مقامی‘‘ کھیلا کریں گے۔ بونس کے طور پر کوئی چھوٹی موٹی دیہاڑی لگ گئی تو پوبارہ۔’’اقتصادی دھند‘‘ کے لئے ڈار کے حالیہ منی بجٹ کا ایک دھپہ ہی کافی ہے جس کے لئے پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینے کا تکلف بھی اس لئے ضروری نہیں سمجھا گیا کہ اصل میں سارے ایک ہیں۔5سے دس فیصد تک سکھا شاہی ڈیوٹی عائد جس کے نتیجہ میں350اشیاء مزید مہنگی ہوجائیں گی۔ اس پر لعنت بھیجیں یا مٹی ڈالیں کہ ڈالر اوپن مارکیٹ میں107روپے سے اوپر نکل گیا، صرف اس پر غور فرمائیں کہ جمہوری آمروں نے کھجوروں سے لے کر چائے تک .......اچار سے لے کر ڈائپر تک........جوس سے لے کر کافی تک........صابن سے لے کر ٹوتھ پیسٹ تک .........جوتوں سے لے کر پنکھوں تک کچھ بھی باقی نہیں چھوڑا، سب ڈار پر وار دیا گیا۔باقی بچی ہے تو صرف یہ جمہوریت جس کے بارے عوام کا خیال ہے کہ کل کی مرتی آج مرجائے تو وہ اس کی قبر پر جشن منائے گے۔ اللہ کرے جنم جلی جمہوریت کی یہ800سی سی گاڑی اپنی پیدا کردہ دھند میں کسی ہیبت ناک ٹرک سے اس طرح ٹکرائے کہ سواریوں سمیت .......۔
تازہ ترین