آج پھر 27دسمبر ہے وہی دن جب 2007ء میں پورے ملک میں ایک سکتہ طاری ہو گیاتھا لوگ زار و قطار ر و رہے تھے کسی کو یقین نہیں آرہا تھا اور نہ کوئی یقین کر نے کو تیار تھا کہ کوئی ظالم سے ظالم بے نظیر بھٹو کو گولیا ںمار سکتاہے وہ تو ایسی نہیں تھیں کہ بموں اور گولیوں سے مار دیا جاتا ۔ اُنہوں نے تو ہر شخص کیساتھ اچھا سلوک کیا تھا زیادتی کرنے والوں کو نہ صرف معاف کیا بلکہ اپنے ساتھ شامل کر لیا اس کے باوجود گولی انکا مقد ر کیوں بنا دی گئی؟شیکسپئر نے خوب اور بالکل درست کہا ہے کہ یہ دنیا ایک ا سٹیج کی مانند ہے ۔ جہاں آنیوالا ہر شخص باقاعدہ ایک اسکرپٹ کے مطابق اپنا کردار ادا کر کے رخصت ہو جاتا ہے ۔بے نظیر بھٹوکا دنیا کے اس اسٹیج پر آنا اور پھر چلے جانا شہزادے ، شہزادیوں اور پریوں کی داستان لگتا ہے ۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت کا منظر آنکھوں کے سامنے آتے ہی اسٹیج پہ رچائے گئے شیکسپئر کے کسی ڈرامے کا گمان ہونے لگتا ہے ۔ چند لمحے پہلے عوام کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر میں چاہنے والوں میں گھری ہوئی اور ہمیشہ کی طرح مسکراتے اور کھلکھلاتے چہرے کے ساتھ خوشی سے مخمور دونوں ہاتھ فضاء میں بلند کئے اپنے چاہنے والوں کے زبردست نعروں کا جواب دے رہی تھیں اور کیسی بد قسمتی کہ دوسرے ہی لمحے منظر تبدیل ہو گیا ۔
والہانہ استقبال اور خوشی کی بجائے موت رقص کر رہی تھی ابھی ابھی کیا تھا اور ابھی ابھی کیا ہے ۔ جیسے بے نظیر بھٹو اس دنیا میں آئی ہی نہیں تھیں ۔ بے نظیر بھٹو کی زندگی ، جدوجہد، کارنامے اور ملک و قوم کیلئے خدمات پر محیط ہے ۔ 1988ء اور 1993ء میں وزیراعظم بنیں ۔1998ء میں دبئی چلی گئیں اور د س سال بعد 18اکتوبر 2007ء کو وطن واپس آئیں تو بم دھماکوں نے انکا استقبال کیا ۔ تمام خطرات اور خدشات کو پس پشت ڈالے ہوئے انتخابی مہم جاری رکھی ۔ جمہوریت ،قانون کی حکمرانی، عدل اور ملک کی ترقی کے عزم کی تکمیل کیلئے وہ بے دھڑک باہر نکل آئیں ۔ لیکن 27دسمبر2007ءکی شام روشنی کی یہ کرن بجھ گئی۔
مجھے 1996 ءسے انکے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا اور یہ سلسلہ انکی زندگی کے آخری دن تک چلتا رہا ۔ساتھیوں کا خیال اور بہت عزت کرتی تھیں ۔ جب ہم لوگ نواب زادہ نصر اللہ خان اور سہیل وڑائچ کے ساتھ لند ن گئے تو انہوں نے پارٹی کے لوگوں کو کہہ کر دعوتوں کا اہتمام کرایا ۔2006کو نیویارک میں انہوں نے میری بیٹی سائرہ خان کی منگنی پر مبار ک باد کیلئے ہوٹل میںدعوت دی جس میں دوسری بیٹی رائما خان بھی شریک ہوئیں ۔ بیٹیوں کو تحفے دئیے اور ٖڈھیر ساری دعائیں بھی ۔بے نظیر بھٹو کے مخالفین کہتے تھے کہ بے نظیر کسی کی نہیں سنتی اور مجھے جب انکے قریب ہونے کو موقع ملا تو میں حیران ہو گیا کہ وہ تو مشاورت پر سب سے زیادہ یقین رکھتی ہیں ۔ 1997 میں بے نظیر بھٹو نے ایک کونسل بنانے کا فیصلہ کیا جس میں پارٹی کے سینئر لوگوں کو شامل کیا تاکہ ان سے مشاورت اور تجربات سے فائدہ اٹھا یا جا سکے انہوں نے کونسل کا نام رکھنے کیلئے مجھ سمیت بہت سارے پارٹی رہنمائوں سے مشاورت کی اور پھر اسکا نام فیڈرل کونسل رکھا جس کے سیکرٹری جنرل خالد احمد کھرل بنائے ۔ بد قسمتی سے انکی شہادت کے بعد پارٹی کی قیادت سنبھالنے والوں نے فیڈرل کونسل کا اجلاس بلانا بھی گوارا نہیں کیا ۔ شاید انہیں مشاورت قبول نہیں تھی ۔ بے نظیر بھٹو نے ہر سطح پر ایسی کمیٹیاں بنائی تھیں جن کی مشاورت سے وہ پارٹی چلاتی اور پالیسی بناتی تھیں ۔ رائو سکند ر اقبال اپنی بیماری کے باعث پارٹی کی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لے پاتے تھے ۔ محترمہ نے انکو ہٹانے کی بجائے لاہور رابطہ کمیٹی بنا دی جس میں پنجاب کے صدر اور سیکرٹری جنرل سمیت اہم رہنمائوں کو شامل کر دیا ۔ خالد کھرل کو اسکا کوآرڈینیٹر اور مجھے سیکرٹری کے فرائض دئیے گئے لاہور کے صدر کی جگہ خالی ہوئی تو کہا گیا کہ نام تجویز کریں کمیٹی نے عزیز الرحمٰن چن کا مشورہ دیا تو بے نظیر بھٹو نے فوراً نامزدگی کا اعلان کر دیا جنرل مشرف کے دور میں ، میںنے محترمہ کو مشورہ دیا کہ لاہور کے بلدیاتی انتخابات میں کامیابی کیلئے 8ماہ قبل ضلعی ناظم کے امیدوار کا اعلان کر دینا چاہئے تاکہ وہ ہمارے امیدوارو ں کی الیکشن مہم چلا سکے ۔ میرا مشورہ قبول کر کے انہوں نے عزیز الرحمنٰ چن کو ضلعی ناظم کا امیدوار ڈکلیئر کر دیا ۔ مشاورت کا عالم یہ تھا کہ 1997ء کے بعد محترمہ نے جب بھی لاہور کا دورہ کیا تو وہ اپنے پروگرامز کو تین حصوں میں تقسیم کرتی تھیں پارٹی کے لوگوں سے ملاقات، میڈیا سے رابطہ اور دانشوروں سے ملاقاتیں ۔ دانشوروں کے تین گروپ بنائے جاتے تھے جن میں ریٹائرڈ بیورو کریٹ ،فوجی ، ججز اور وکلاء شامل تھے ۔
آج پیپلز پارٹی بے نظیر بھٹو کی سوچ اور فلسفے سے بہت دور جا چکی ہے ۔ لیڈر شپ مشاورت پر یقین نہیں رکھتی جسکا نتیجہ یہ ہے کہ پارٹی آکسیجن ٹینٹ میں ہے ۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت کی بدولت ملنے والا پانچ سالہ اقتدار لوٹ مار کر نے میں گزر گیا بے نظیر بھٹو کی مفاہمت اور مشاورت پالیسی کی بجائے مفاد اور صرف مفاد کی پالیسی اختیار کی گئی۔ ذاتی دوستوں اور رشتہ داروں کو بڑے بڑے عہدے دئیے گئے
کتنی شرمناک بات ہے کہ پیپلزپارٹی کو علاقائی پارٹی کہا جانے لگا ۔ یقینا ًاس پر بے نظیر بھٹو کی روح تڑپ رہی ہو گی۔ بے نظیر بھٹو نے تو کہا تھا کہ ہم تو وفاق پر یقین رکھتے ہیں اسی لئے عوام بے نظیر بھٹو کوچاروں صوبوں کی زنجیر کہتے تھے ۔ پیپلز پارٹی تو اللہ کے سپردہو رہی ہے لیکن بے نظیر بھٹو کی مشاورت کی پالیسی کو تمام سیاسی پارٹیوں کی لیڈر شپ کو اپنانے کی ضرورت ہے ۔ کوئی عقل کل نہیں ہوتا ۔ مشاورت سے مسائل حل ہوتے ہیں اور قومیں ترقی کرتی ہیں۔
مشاورت ہی جمہوریت کا دوسرا نام ہے ۔