• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں سب کچھ تھا،میرے اوپر کون سا دبائو تھا،جنرل راحیل شریف نےد بائو ختم کرنے میں کردار ادا کیا،پرویز مشرف

کراچی (ٹی وی رپورٹ)سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے ایک انٹرویومیں کہاہےکہ میں سب کچھ تھا،میرے اوپر کون سا دبائو تھا،حکومت کا ججوں پر دبائو تھا،سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے دبائو ختم کرنے میں کردار ادا کیا۔  ٹی وی اینکر پرسن کے سوال کہ مشرف صاحب جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ کا کہنا ہے کہ پرویز مشرف کے معاملے پر فوج کے ادارے کو تشویش تھی اور جنرل راحیل شریف نے آپ کو بچایا؟سابق صدر پرویز مشرف نے کہا کہ ہاں انھوں نے ضرور مدد  کی جس پر میں ان کا مشکور ہوں۔ میں ان کا باس رہا ہوا ہوں، میں بھی آرمی چیف رہا ہوں،انہوں نے اس سلسلے میں میری مدد کی، سیاسی مقدمات ہیں، میرا نام ای سی ایل پر ڈالا گیا ہے ، سیاسی ایشو بنایا ہوا ہے۔اینکر: مشرف صاحب لوگ یہ ضرور جاننا چاہتے ہیں جو آپ نے کہاکہ مدد کی گئی وہ کس طرح کیوں کرکی گئی ایک معاملہ کورٹ میں چل رہا ہے حکومت آپ کے خلاف تھی تو وہ کس طرح Help outہوتا ہے آرمی چیف کی طرف سے؟جواب میں مشرف نے کہا کہ نہیںcourts کو influenceکرنا۔ دیکھیں یہ کورٹس، بدقسمتی سے یہ کہنا پڑتا ہے یہ کہنا نہیں چاہیے یہ عدلیہ مجھے امید ہے کہ یہ عدل و انصاف کی طرف آجائیں، یہ کورٹس behind the scene دبائو میں کام کررہے ہوتے ہیں فیصلے دے رہے ہوتے ہیں ابBehind the sceneاس دبائو کو releaseکرنے میں اس سے ڈیل کرنے میں سابق آرمی چیف کا کردار تھا۔اینکر: یہ بڑی دلچسپ بات ہے کہ آرمی چیف نے حکومت سے کہا کہ آپ دبائو نہ ڈالیں ججز کے اوپر اور اس وجہ سے ججز نے آزادانہ فیصلہ دے دیا حکومت نے دبائو ڈالنا شروع کردیا اور آپ باہر چلے گئے۔مشرف نے ہاں میں جواب دیا۔میزبان نے اپنے تجزیے میں کہا کہ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ صرف پاکستان میں آرمی چیف کی تقرری کے وقت جو شور و غل ہوتا ہے وہ غلط ہے ، ابھی کل ہی بھارت کے نئے آرمی چیف کی تقرری کی گئی اور وہاں پر ایک نئے تنازعے کا آغاز ہوگیا ، تین سینئر جنرل کو نظر انداز کرکے نریندر مود ی نے نئے آرمی چیف کی تقرری کی ہے ، اس حوالے سے اپوزیشن بہت سارے سوالات اٹھا رہی ہے اور اس کے علاوہ تنقید بھی کررہی ہے ، پاکستان میں اس بار نئے آرمی چیف کی تقرری کے وقت کوئی تنازع کھڑا نہیں ہوا ، لیکن پاکستان میں جب  بھی نیا آرمی چیف آتا ہے تو یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ وزیر اعظم سول ملٹری تعلقات میں سبقت لے جانا چاہ رہا ہے ،لیکن بعد میں عقد یہ کھلتا ہے کہ وزیر اعظم کے بجائے آرمی چیف سول ملٹری تعلقات میں سبقت لے جانا چاہ رہا ہے ، پاکستان میں خارجہ تعلقات یا سیکورٹی پالیسی ہو وہاں آرمی چیف اپنا اثر رسوخ استعمال کرتا ہے ، یہی معاملہ ہم گزشتہ آرمی چیفس کے حوالے سے دیکھتے آئے ہیں ۔ اس حوالے سے گفتگو میں پاکستان آرمی کے سابق چیف اور سابق صدر پاکستان جنرل (ر) پرویز مشرف شریک ہوئے ۔ آرمی کے سویلین معاملات میں دخل اندازی کے حوالے سے پرویز مشرف کا کہنا تھا کہ میں ایسا نہیں سمجھتا کیونکہ سول معاملات میں مداخلت کا کوئی سوال نہیں پیدا ہوپاتا ہے ، ایک ملک ہے ، وہاں نظام حکومت قائم ہے ، کسی کو کسی کے معاملات میں دخل کرنے کا حق نہیں ہے ، وزیر اعظم اس ملک کا اقتدار چلا رہا ہے لیکن مسئلے تب پیدا ہوتے ہیں جب conflict of interestہو جب زبردستی کسی کے معاملات میں مداخلت کرنے کی کوشش کی جائے ، اس قسم کی مداخلت ہمیشہ سے نواز شریف کرتے آئے ہیں ، یہ کوشش کرتے ہیں کہ آرمی چیف پر تسلط قائم کیا جائے ، بے شک آرمی چیف کا تقرر انہوں نے ہی کرنا ہے لیکن آرمی چیف کوئی چھوٹا موٹا عہدہ نہیں ہے ، سب سے پہلے اس کو پاکستان کا خیال مقدم رکھنا پڑتا ہے ، جہاں آرمی چیف کے دائر ہ اختیار میں مداخلت کی جائے گی تو وہاں تنازعات جنم لیتے ہیں ، عوام عمومی طور پر آرمی چیف کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے ، کیونکہ گورننس کے حوالے سے آرمی سب سے بہترین ہے ، پھر جب یہ چیزیں رونما ہوتی ہیں تو پھر یہ تنازع کی شکل اختیار کرلیتی ہیں ، پھر مسابقت بازی شرو ع ہوجاتی ہے کہ کون کس پر تسلط قائم کرے ، میرے خیال میں یہ ہونا نہیں چاہئے۔ سول اور ملٹری تعلقات میں کس وجہ سے conflict of interestپیدا ہوتا ہے کے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بدترین حکومتی کارکردگی کی وجہ سے conflict of interest پیدا ہوتا ہے ، اگر حکومتی کارکردگی بہتر نہیں ہے ، عوام کی حالت بری ہے ، ملک میں ترقی نہیں ہورہی ہے ، پاکستان تنزلی کی جانب گامزن ہے ، خارجہ اور اندرونی پالیسیاں حکومت کی ٹھیک نہیں ہیں تو ان باتوں کی وجہ سے عوام اپنی امیدیں آرمی چیف سے وابستہ کرلیتے ہیں ، آرمی چیف پھر حکومت کے پاس اپنی معصومانہ ایڈوائس لیکر جاتے ہیں کہ اس صورتحال کو ٹھیک کریں ، وہاں سے پھر تنازع شروع ہوجاتا ہے ، اس کے علاوہ یہ بھی ہے کہ اگر ناجائز قسم کے احکامات آرمی چیف کو دیے جائیں جو آرمی چیف قبول نہ کرسکے ، اس طرح بھی کوئی تنازع جنم لے سکتا ہے ۔ میزبان کے سوال کہ جب آپ آرمی چیف تھے تب آپ کے اور نواز شریف کے درمیان کس قسم کے اختلاف تھے کے سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کچھ چھوٹی چیزوں پر اختلافات پیدا ہوئے تھے ، میں جب آرمی چیف تعینات ہوا تو مجھے نواز شریف نے بلا کر کہا گیا کہ دو میجر جنرلز کو برطرف کردیں ، میں نے کہا کیسے نکالیں اور کس سلسلے میں ؟ اس سوال پر انہوں نے اپنی وجوہات بتائیں کہ وہ کوئی غلط ایڈوائس دے رہے تھے ، میں نے ان سے کہا کہ یہ دو میجر جنرلز ہیں ، ان کو برطرف کرنے کیلئے مجھے کوئی ٹھوس وجہ ہونی چاہئے ، تاکہ میں ان کے خلاف کوئی انکوائری کروائوں اور ان کے بعد ان کے خلاف کوئی ایکشن لیا جائے ، میں نے ان کا یہ حکم قبول نہیں کیا ، نواز شریف مجھے ہر طرف سے کہلوا رہے تھے کہ ان کو برطرف کیا جائے ، میں نے انہیں حتمی بتایا کہ میں ان کا یہ حکم نہیں مانوں گا ، کیونکہ میری ایک عزت ہے ، آرمی میں میری ایک عزت ہے ، میرا سپاہی کہے گا کہ یہ کس قسم کا چیف ہے کہ کسی کے کہنے پر دو میجر جنرل نکال دیئے ، پھر دوسرا واقعہ نجم سیٹھی کے حوالے سے تھا ،ان سے آپ خود بھی بات کرلیں، نواز شریف نجم سیٹھی کا کورٹ مارشل کروانا چاہتے تھے ، ان کو گرفتار کیا ہوا تھا ، ابھی نجم سیٹھی ان کے ساتھ ہیں ، لیکن اُس وقت نجم سیٹھی کو نواز شریف نے گرفتار کیا ہوا تھا ، نجم سیٹھی کو انٹیلی جنس کے ذریعے گرفتار کیا گیا تھا ، بعد میں نجم سیٹھی کو آئی ایس آئی کے حوالے کیا گیا تھا۔میزبان کے سوال کہ وزیر اعظم اور آرمی چیف کے درمیان اگر اختلافات ہوتے تھے تو کون ان کے درمیان مصالحت کرواتا تھا  کے جواب میں انہوں نے کہا تھا کہ کسی نہ کسی کو جس کو دونوں فریقین موافق مانتے ہو  مصالحت کروا سکتا تھا ، کچھ لو گ تھے ، جو ان کے بھی قریب تھے اور مجھ سے بھی قریب تھے ، میں ان کے گھر ڈنر پر بھی گیا تھا ، کیونکہ انہوں نے مجھے خود بلایا تھا ، انہوں نے مجھے  اور میری اہلیہ کو عمرہ کرنے کی دعوت دی، میں نے ان کی دعوت کو قبول کیا تو انہوں نے مجھے لاہور مدعو کیا کہ وہاں سے ساتھ جائیں گے ، وہاں گھر پر انہوں نے کہا کہ کھانا میرے ساتھ کھائیں ، پھر میں ان کے گھر گیا ، وہ ایک good will gestureنہیں وہ ایک عمومی دعوت نامہ تھا ، جب میں ان کے گھر مدعو تھا تب ان کے اور میرے درمیان ٹینشن ختم ہوگئی تھی ، ٹینشن تھی کہ میرے بارے میں اخباروں میں آرہا تھا کہ مجھے ریٹائر کیا جائے گا ، مجھے چیئرمین بنا دیا جائے گا ، جو میں نہیں چاہتا تھا ، دوسرا ایک کور کمانڈر بھی تھے ، جو ان سے مل ملا رہے تھے ، جس کا مجھے پتا چل گیا تھا ، یہ معاملات مصالحت کاری سے حل ہوگئے تھے ، میں چیئرمین نہیں بننا چاہتا تھا ، سب چیزیں نارمل انداز میں پھر چل رہی تھیں ، میرا کسی بھی قسم کا کوئی ارادہ مداخلت یا ان پر حاوی ہونے کا نہیں تھا ۔آرمی چیف کی تقرری کے بعد خود آرمی چیف کے شروع میں کیا جذبات ہوتے ہیں ، جب ایک بااختیار ادارہ کا کنٹرول ان کے ہاتھ میں آتا ہے کے سوال کے جواب میں پرویز مشرف نے کہا کہ یہ ٹھیک بات ہے ، پہلے تین چار افسروں میں سے آرمی چیف منتخب کرنے کا طریقہ بالکل ٹھیک ہے ، میرٹ ہونا چاہئے ، کوئی بھی آرمی کا افسر آرمی کا چیف بننے کے بعد اپنے آپ کو بااختیار محسوس کرتا ہے ، میں نے بھی اپنے آپ کو طاقتور محسو س کیا ، لیکن ہم اپنی طاقت کا غلط استعمال نہیں کرتے ، مسئلہ دوسری طرف سے پیدا ہوتا ہے ، اپنی طاقت کا استعمال تب کیا جاتا ہے جب misgovernanceہوتی ہے ۔ خارجہ پالیسی پر آرمی چیف کے اثر انداز ہونے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ ہم نے کوئی کام زبردستی نہیں کیا ، اس وقت کئی نیوکلیئر treatiesسائن ہورہی تھیں ، مثلاً CTBTاس میں آرمی کا کردار بھی ہوتا ہے ، کشمیر کے حوالے سے واجپائی صاحب لاہور آئے تھے ، میں نے کئی بار ٹی وی پر بتایا ، میں دوبارہ بتا دیتا ہوں جب واجپائی اور نواز شریف کے درمیان اعلان لاہور کا مسودہ آیا تو اتفاق  سے میں وہاں آرمی چیف کے طور پر بیٹھا ہوا تھا ، یہ نہیں تھا کہ وہ مسودہ میں نے بنایا تھا ، فارن سیکرٹری نے وہ مسودہ پڑھ کر بتایا ، تو میں نے نوٹ کیا کہ اس مسودہ میں کشمیر کا لفظ شامل تھا ہی نہیں ، اس پر میں نے اعتراض کیا کہ کم از کم کشمیرکا ذکر ہونا چاہئے ، پھر انہوں نے کہا کہ یہ پھر مشترکہ اعلامیہ نہیں ہوگا کیونکہ بھارت نہیں مانے گا ، میں نے کہا کہ اگر بھارت نہیں مانے گا تو وہ loosersہیں ، بیشک وہ چلے جائیں ، ہمار اکیا جارہا ہے اگر اس پر اعلامیہ پر سائن نہیں ہوتے ہیں ، پھر نواز شریف نے بھی کہا کہ کشمیر کا ذکرہونا چاہئے ، پھر ہم نے مسودہ میں ہم نے ترمیم کی اور شامل کیا ، اس واقعہ کے طویل عرصہ بعد جب میں صدر پاکستان تھا اور میں نے یہ اعلامیہ طلب کیا تو اس اعلامیہ میں کشمیر کا لفظ شامل نہیں تھا ، نواز شریف نے لاہور اعلامیہ میں کشمیر کا لفظ تک شامل نہیں کیا ، یہ اتنی باتیں کرتے ہیں کہ ہم نے کشمیر کے مسئلے کو اجاگر کیا ، جبکہ یہ تو کشمیر کے مسئلے پر بات ہی نہیں کرتے تھے ، میں چیلنج کرتا ہوں کہ فارن آفس سے وہ مسودہ نکال کر دیکھ لیں ، کشمیر کا لفظ اس میں شامل نہیں ہے ، میں نے اُ س وقت اپنی رائے دی تھی کہ کشمیر کا ذکر ہونا چاہئے ، اگر کشمیر کے بغیر مذاکرات نہیں بھی ہوتے تو واجپائی صاحب کو واپس جانے دو ۔
تازہ ترین