• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بھارت کو بھی چوہدری بننے کا شوق
بھارت جب سے اکھنڈ بھارت بنانے کی کوشش میں ناکام ہوا ہے وہ سپر پاور بننے کے چھیچھڑے خوابوں میں دیکھنے لگا ہے، اپنے فوجی جوانوں کو پورا اور معیاری کھانا فراہم نہ کر سکنے والا بارود کا ہمالہ کھڑا کر کے اپنی پست قامتی کو کب تک چھپائے گا، ماہرین کہتے ہیں جنگی تیاریوں کا نیا بھارتی پروگرام خطرناک ثابت ہو سکتا ہے پاکستان کوشش کر رہا ہے کہ کسی طرح اس کے آنگن میں خوشحالی آئے، پاک فوج اپنے دفاع کے لئے ہمہ وقت چوکس ہے، دہلی کے پاس غریبوں کا پیٹ کاٹ کر ہولناک ہتھیاروں کے انبار لگ جائیں گے مگر وہ خطرہ بننے کے لئے ہمت نہیں پیدا کر سکے گا، بھارت صدیوں سے مفتوح رہا ہے اور اب فاتح عالم بننے کے لئے زیر زمین ایٹمی شہر بساتے بساتے برسرزمین اپنی لٹیا ڈبو دے گا، اور گنگا میں لٹیائوں کی گنجائش نہیں رہے گی، بھارتی حکمرانوں نے ہمیشہ جنگ پر سیاست کی ہے، اپنے عوام کی بہبود کے لئے اور امن کے قیام کے کوئی کوشش نہیں کی، جارحیت و مدافعت کی جنگ میں دفاع جیت جاتا ہے، جب سے دنیا گلوبل ویلیج بنی ہے چوہدری بننے کے شوق نے زور پکڑا ہے، ٹرمپ ابھی بھارتی جنگی جنون کو لگام دے ورنہ کھتری سپر بن کر اس کا رقیب بن سکتا ہے، پاکستان کو اپنے کام سے غرض ہے اور اگر کوئی راہ میں آیا تو کچلا جائے گا، لوہا جمع کرنے کے لئے اٹھانے کا حوصلہ بھی ہونا چاہئے، ورنہ اسکریپ کا بھارت کیا کرے گا؎
اتنا ہتھیار لے کر کیا کرو گے
چلو بھر پانی میں ڈوب مرو گے
علاقے کو خطے کو خود بھارت کو ممکن ہے خطرہ لاحق ہو لیکن ناقابل تسخیر قلعے پاکستان کو کوئی خطرہ نہیں، وطن کے لئے موت کو حیات سمجھنے والی پاکستانی قوم کو مسخر کرنے کا خیال مسخرہ پن کے سوا کچھ نہیں، چوہدری ڈونلڈ ٹرمپ کیا گلوبل ویلیج میں بھوکے ننگے بھارت کی چوہدراہٹ برداشت کر لیں گے؟ البتہ امریکہ کو برصغیر میں ایک کمی کی ضرورت ہے، یہی مقام بھارت کو دلوانے کے لئے جوہری جواہر جمع کر کے نہ جانے کس کے لئے مال غنیمت جمع کر رہا ہے۔
٭٭٭٭
کون جیتا ہے 2025کے آنے تک؟
کرنے والے پانچ برسوں میں صدیوں کا سفر طے کر کے دکھا دیتے ہیں، ہمارے مسائل خورونوش تک تو شو ختم ہونے والا ہے اور وہ حل نہ ہو سکے، مہنگائی 70 برسوں میں جوان سے جوان تر ہوتی گئی، 2025 تک صرف تر رہ جائے گی اور غریب لوگ اس کا سلاد بنا کر گزارہ کر لیں گے، یہ مہنگائی کا خاتمہ، خوشحالی کی آمد اور ہر روز، روز عید ہر شب، شب برأت غریب عوام کے لئے نہیں ہوا کرتی یہ ان کی لونڈی ہے جن کے منہ میں پیدا ہوتے وقت سونے کا چمچ ہوتا ہے اور وہ ہنستے ہوئے آتے ہیں روتے ہوئے جائیں گے، دراصل اس آنگن میں اتنا گند جمع ہو چکا ہے کہ پوری قوم، عدالتیں، فوج، حکمران، قانون نافذ کرنے والے نکے وڈے ادارے سب مل کر بھی جھاڑو دیں تو اکیپہلوان کی طرح ان کا کاندھا اتر جائے گا نجاست ختم نہ ہو گی کیونکہ کرپشن وائرل بلکہ جینیٹک ہو گئی ہے، بیچارے عوام نے بابائے قوم کے جانے کے بعد سے جوں ترقی کے لئے سیاستدانوں حکمرانوں الغرض ہر قسم کے دانوں کو بے تحاشا وقت دیا، ووٹ دیئے، مگر ہوا کیا کہ؎
میں نے دل دیا میں نے جان دی مگر آہ تو نے نہ قدر کی
جو ظفرؔ نے کبھی دل کی کہی اسے چٹکیوں میں اڑا دیا
خزانے پر نہ جانے کس کو بٹھا دیا جاتا ہے کہ غریب جائے تو خزانچی خالی خزانے پر چوٹ لگا کر ٹھن ٹھن گوپال کر دیتا ہے، شاید خزانے کے صندوق دو ہیں ایک اُن کے لئے ایک اِن کے لئے، اُن وہ ہیں جو ہر چند کہیں کہ ہیں نہیں ہیں اور اِن سے مراد وہ ہیں جو In ہیں، الغرض یہ دھرتی ہے انز اور آئوٹس کی کر لو جو کرنا ہے 2025تک۔
٭٭٭٭
کیا ہم چند افراد کی پوجا کرتے رہیں گے؟
جہاں پیٹ پوجا کے لئے کچھ میسر نہ آئے وہاں چند افراد کے لئے مخصوص پوجا مندر میں بڑا رش ہوتا ہے، یہ چلن اس لئے روا رکھا گیا ہے کہ غریب عوام امیر ترین خواص کا طواف کرتے رہیں، اور طوافِ کعبہ بھول جائیں، کعبے ہی سے اللہ کے رسول ﷺ نے صدا بلند فرمائی تھی ’’حکمرانوں کو دولت کی تقسیم درست رکھنی چاہئے کہیں ایسا نہ ہو محرومی کفر سے جا ملے‘‘ ہم اپنی انہی انسانی قدروں کو بھول گئے، پر اتنا بھی نہیں بھولے بُھلا دیئے جاتے ہیں، ہر سفید پوش، سیاہ پوش سے یہی کہتا سنائی دیتا ہے؎
اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا
محبت وہاں خالص ہوتی ہے اور پھنسانے اپنا کام نکالنے کا وسیلہ نہیں بنتی جہاں سب کے دانے برابر برابر ہوں، جہاں جرم کی سزا ملتی ہے، سزا تو ہمارے ہاں بھی ملتی ہے مگر چھوٹے گناہ گاروں کو بڑے مجرموں کو جزا ملتی ہے اور اس حساب سے ملتی ہے کہ وہ اسے گن نہیں پاتے سنبھال نہیں سکتے، آج اس ملک کے امراء کے سرمائے اکٹھا کر کے ملک کی فلاح پر متقی افراد لگا دیں تو وطن غریب جنت نظیر بن جائے، یہ نہیں کہ کوئی شیر بن جائے کوئی تیر بن جائے اور کوئی بَلا لے کر ان کے پیچھے پڑ جائے جبکہ اس بلے میں بھی سو سو بل ہیں، پاکستان پر میاں محمد بخشؒ نے یوں تبصرہ کیا؎
سچی گل محمد بخشا اندروں گئی اے مُک
ہمیں بیرونی خطرات کی ضرورت ہی نہیں کہ اس مد میں ہم اندرونی سطح پر خود کفیل ہیں:
آئیں مشقہ ہٹائیں مسجد جائیں
پھر سے قبول اسلام کریں
لیکن خیال رہے کہ مسجد سے آ کے بھی مسجد ہی میں رہیں۔
٭٭٭٭
گوٹا کناری
....Oایک زمانے میں مولانا گوٹا کناری بھی ہوا کرتے تھے،
اب نہ جانے کہاں ہیں، جہاں رہیں خوش رہیں۔
....Oپوپ فرانسس نے کہا ہے:مسیحی دیوار نہیں پل بناتے ہیں،
ٹرمپ نوٹ کر لیں،
....Oسالن ٹھیک نہ بنا، شوہر کی معذور بیوی کو زندہ جلانے کی کوشش۔
ہم پر ترس نہیں کیا جاتا اس لئے ہم بے ترس ہو گئے ہیں، ویسے قصاص تو یہی ہے کہ شوہر کا بھی 90فیصد جسم جھلسا دیا جائے مگر کب ایسا ہوتا تو پہلی جلائی جانے والی پاکستانی خاتون نہ جھلس مرتی،
....Oبھارت کے نیو کلیئر سٹی سے خود بھارت کی سٹی گم ہو جائے گی،
اسلئے فکر کی ضرورت نہیں، بھارت پر پابندیاں عائد کرنے کی ضرورت، اقوام متحدہ اسکا نوٹس لے،


.
تازہ ترین