• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جیسے پیسہ پیسے کو کھینچتا ہے، اسی طرح غربت غربت کو، گندگی گندگی کو، جہالت جہالت کو، خودنمائی خودنمائی کو اور خوستائی خودستائی کو کھینچتی ہے۔ کیا آپ نے محسوس یا غور کیا کہ سندھ کی حکومت بھی پنجاب حکومت کے نقش قدم پر چل پڑی ہے۔ سندھ حکومت کی طرف سے جاری کئے گئے ایسے اخباری و دیگر اشتہا رات میں بتدریج اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے جس میں چیف منسٹر اور چوزہ چیئرمین بلاول کے افتتاح، کارنامے اور دیگر عزائم شامل ہوتے ہیں۔ خوش رہو دوسروں کے خرچے پر یعنی سیلف پروجیکشن پر قومی خزانے کے جی بھر کے چھوڈے اور پڑخچے اتارو، کوئی پوچھنے والا نہیں کہ تم ایسی کون سی توپ چلا رہے ہو جس پر ان لوگوں کا کروڑوں اربوں روپیہ برباد کیا جارہا ہے جن حرماں نصیبوں کو پینے کا صاف پانی بھی میسر نہیں۔ یہ کیسی ذہنیت ہے جس کے پیٹ اور نیتیں نہ پیسے سے بھرتی ہیں نہ پروجیکشن سے۔ یہ سب لوگ اور ان کے کفگیر مشیر ذہنی طور پر اتنے پسماندہ اور قلاش ہیں کہ اس بنیادی اصول سے بھی بے خبر ہیں کہ اوور ایکسپوژر خطرناک ہوتا ہے۔ ایک ہی شکل بلکہ تھوبڑا بار بار لگاتار دیکھ دیکھ کر عوام اوبھ جاتے ہیں، متلی ہونے لگتی ہے، گھن آنے لگتی ہے لیکن یہ سادہ سی بات ان کی زنگ آلود سمجھ دانیوں میں فٹ نہیں بیٹھتی۔ فارسی کا اک ضرب المثل نما مصرع ہے کہ عطار کو مشک کا تعارف نہیں کرانا پڑتا۔ خوشبو خود اپنا تعارف ہوتی ہے لیکن انہیں ملکی خزانے سے کھلواڑ کا جنون ہے۔ کاش! اس ملک میں کوئی تو ایسا ہوتا جو حساب لگاتا یا حساب مانگتا کہ حکمرانو! تم سال بھر میں عوام کا کتنا مال مفت دل بے رحم کے ساتھ اپنی امیج بلڈنگ پر خرچ کرتے ہو۔ مجھے یقین ہے وفاق اور صوبوں کو ملا کر یہ رقم کھربوں نہیں تو اربوں میں ضرور بنتی ہوگی۔ اشتہاری مہموں کے علاوہ کمپنی کی مشہوری کے لئے جو شاہانہ تقریبات ہوتی ہیں وہ بھی اس تخمینہ میں شامل کرنا ضروری ہیں۔ سندھ میں یہ’’وائرس‘‘ پنجاب سے پہنچا ہے حالانکہ نقل کرنی ہی تھی تو کسی ڈھنگ کے کام میں کرتے۔ سو اس کالم کا پہلا سوال یہ کہ یہ رویہ درست ہے یا نہیں؟دوسرا سوال بھی ایسا ہی فضول اور مجہول سا ہے۔ میں نے بچپن میں بزرگوں سے سنا تھا کہ وقت کے ساتھ ساتھ انسانوں کے کرتوت اور اعمال ان کے چہروں پر اثر انداز ہونے لگتے ہیں۔ تجربہ پچھلے دنوں ہوا جب قومی سطح پر بولے گئے ایک وی وی آئی پی جھوٹ کا دفاع کرنے کے لئے اک پوری ٹیم میدان میں اتری اور صبح دوپہر شام تین شفٹوں میں جھوٹ در جھوٹ درجھوٹ کے ساتھ چرب زبانی بلکہ حرب زبانی سے اپنے آقا و سیاسی ان داتا کے دفاع میں جت گئی اور ہر قسم کی حیا کو بالائے طاق رکھ دیا۔ یہ سب کے سب خوش شکل لوگ تھے لیکن بتدریج ان کی شکلیں بدلتی گئیں۔ ان کے چہروں سے سادگی، ملائمت، بھلائی، معصومیت رخصت ہوتی گئی۔ نقوش بگڑتے گئے، خرانٹ پن کا غلبہ ہوگیا جیسے ڈھٹائی نے انسانی روپ دھار لیا ہو کہ مسلسل جھوٹ نے ان کی شکلیں بھی جھوٹی جھوٹی سی کردیں۔ یہ میرے احساسات ہیں جو ممکن ہے غلط ہوں سو آپ سے میرا سوال یہ ہے کہ کیا آپ نے بھی ایسا کچھ محسوس کیا ہے یا میرا اندازہ اور احساس بے بنیاد ہے؟تیسرا سوال تھوڑا پیچیدہ ہے، فرض کریں کہ ایک بہت ہی گنہگار آدمی ہے جس میں سارے شرعی عیب ہی موجود نہیں بلکہ دو چار عیوب اس نے خود ایجاد کررکھے ہیں لیکن یہی گنہگار ایک معصوم بچے کو دریا میں ڈوبنے سے بچانے کے لئے جان ہتھیلی پر رکھ کر دریا میں کود جاتا ہے۔ اب وہ ہے، اس کے ایک ہاتھ میں بچہ اور بپھرے ہوئے دریا کی بے رحم لہریں اور دیکھنے والے فیصلہ نہیں کر پارہے کہ یہ خود اور بچے کو بچاپائے گا یا نہیں۔ دریا کے کنارے تماشا دیکھنے والوں میں چند انتہائی پرہیز گار لوگ بھی موجود ہیں جو بہترین تیراک بھی ہیں تو میرا سوال یہ ہے کہ کیا ان پرہیز گاروں کو دریا میں کود کر گنہگار کی مدد کرتے ہوئے اس کی اور معصوم بچے کی زندگیاں بچانے کے لئے آگے بڑھنا چاہئے یا اس گنہگار کو بچے سمیت اس کے حال پر چھوڑ دینا چاہئے؟

.
تازہ ترین