آپ تصور کریں کہ آپ ایک گاڑی چلا رہے ہیں کہ اچانک گاڑی کو حادثہ پیش آ جاتا ہے اور گاڑی کو کافی نقصان پہنچتا ہے لیکن آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ گاڑی ’’یاداشت دہاتی مرکب‘‘ سے بنی ہوئی ہے۔ اس مواد میں خود اس ٹوٹ پھوٹ کو مرمت کرنے کی ’’طلسمی‘‘ صلاحیت ہے کہ وہ خود بخود اپنی صحیح حالت میں آ جاتا ہے۔ اب خراب ہوئے پینٹ کا کیا ہوگا؟ اس کی بھی کوئی فکر نہیں کیونکہ گاڑی میں’’آپ ہی درستی‘‘ کا پینٹ ہے وہ بھی آپ ہی درست ہو جائے گا۔ کیا یہ افسانہ ہے؟ نہیں، آپ یقین کریں یا نہیں مگر ایسے مواد تیار کئے جا چکے ہیں۔ گزشتہ دہائی سے اس قسم کے حیرت انگیز مواد بنائے جا چکے ہیں جو برقی رو یا مقناطیسی لہر سے اپنی ساخت تبدیل کرسکتے ہیں اور روبو کوپ جیسے سپاہی لڑائی کے دوران استعمال کر سکتے ہیں۔ یہ خاص سوٹ جب سپاہی کے اعصابی نظام سے منسلک ہوتا ہے تو فوری اس کے زبانی احکامات پر عمل درآمد شروع کر دیتا ہے۔ اس قسم کے سوٹ نے مزید ’’مواصلاتی لباس‘‘ اور دیگر اسمارٹ کپڑوں کی تیاری کے لئے راہیں ہموار کر دی ہیں۔
آیوا ریاست جامعہ کے محققین نے فوٹو والٹائیک کپڑا سازی کا استعمال کرتے ہوئے شمسی خلیوں پر مشتمل ٹائی تیار کی ہے جس سے موبائل فون چارج کئے جا سکتے ہیں۔ اسی طرح ایک کمپنی نے بلیو ٹوتھ آئی جیکٹ ایجاد کی ہے اس جیکٹ میں بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ جس سے جیکٹ پہننے والا آئی پیڈ کو سن سکتا ہے اور بیک وقت سیل فون بھی استعمال کر سکتا ہے۔ اس طرح کے ذہین کپڑے تیار کئے جا رہے ہیں جو درجہ حرارت کنٹرول کرتے ہیں اور گرمی اور سردی میں نہایت آرام دہ ہوتے ہیں۔ ایک اور نیا مواد ای ٹیکسٹائل کے نام سے تیار کیا گیا ہے جس میں کئی قسم کے ڈیزائن محفوظ ہوتے ہیں جو کہ بٹن دبانے سے فوراً نئے رنگوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ ایسے بھی کپڑے ایجاد ہو گئے ہیں جو آہستہ آہستہ آپ کے لباس کا رنگ بھی تبدیل کر سکتے ہیں جس میں تقریباً گھنٹہ لگتا ہے۔ یعنی آپ کسی دعوت میں ایک رنگ کا لباس پہن کر جائیں اور واپس دوسرے رنگ کے لباس میں آئیں۔
اب یہ بھی ممکن ہے کہ آپ خود کو ایک مخصوص کپڑے میں لپیٹ کر لوگو ں کی نظر سے اوجھل ہوسکتے ہیں۔ یعنی ہیری پوٹرکا غائب ہونے والا چوغہ اب حقیقت ہو گیا ہے۔ ان (metamaterials)کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہ روشنی کو اپنے سے دور جھکاتے ہیں۔ اس کا اندازہ اس طرح سے لگایا جا سکتا ہے کہ جیسے بہتے ہوئے پانی کے راستے میں ایک پتھر آتا ہے اور پانی اس کے گرد گھوم کر بہتا رہتا ہے بالکل یہی صورتحال روشنی کی ہوتی ہے جب وہ میٹا مٹیریل سے لپٹی کسی بھی چیز سے ٹکراتی ہے۔ یہ مواد روشنی کی لہروں کو نہ جذب کرتا ہے نہ ہی واپس لوٹاتا ہے۔ اسی لئے اس مواد کو آبدوزوں اور ٹینکوں کو دشمن کی نظر سے غائب کرنے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔
طیاروں کی تیاری کے لئے ایک نیا دھاتی مرکب (alloy)استعمال کیا جا رہا ہے جو برقی اشاروں سے پیدا کئے گئے دباؤ سے اپنی ساخت تبدیل کر لیتا ہے اور دباؤ کے ختم ہوتے ہی اپنی اصل حالت میں واپس آجاتا ہے۔ ’’اسمارٹ یاداشت دھاتی مرکب‘‘ جو کہ آواز کو جذب کر لیتے ہیں۔ یہ خفیہ ہیلی کاپٹروں اور زمینی گاڑیوں کے لئے انتہائی کارآمد ہیں۔ ان حیرت انگیز موادوں کے ڈھانچوں میں انتہائی ننھی نینو مشینیں نصب ہوتی ہیں۔ کاربن نینو ٹیوبزکو بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔ جو کہ اسٹیل کے مقابلے میں وزن کے اعتبار سے چھ سو گنا زیادہ مضبوط ہیں۔ اور اس کی انتہائی باریک تہہ جو کہ جامع مواد سے تیار کی گئی ہے خلائی طیاروں کی سطحی جلد کے لئے استعمال کی جارہی ہے۔ اس سے طیارے زیادہ مضبوط، کم وزن اور کسی نقصان کی صورت میں خود ہی مرمت کر لیتے ہیں۔
تصور کریں کہ اہم عہدیدار انتہائی خفیہ گفتگو کر رہے ہیں اور کمرے کو مکمل طور پر چیک کرلیا گیا ہے اور محفوظ قرار دے دیا گیا ہے۔ تاہم ایک نہایت بے ضرر سی چھوٹی سی مکھی کمرے کی دیوار پر بیٹھی ہے جس کی نشاندہی جانچ پڑتال کے دوران بھی نہیں کی جا سکتی۔ یہ کوئی عام کیڑا نہیں بلکہ ڈرون کیڑا ہے جسے امریکہ کی ایک دفاعی ایجنسی نے تیار کیا ہے۔ اس کیڑے کو میلوں دور غیر ملکی سفارتخانے سے بھی اپنے تابع رکھا جاتا ہے۔ سفارتخانے کے تہہ خانے کے ایک چھوٹے سے کمرے میں بیٹھی ایک خاتون ہیڈ فون اور اسکرین کے ساتھ اہم عہدے داروں کے درمیان تمام گفتگو ریکارڈ کرکے غیر ملکی خفیہ ایجنسی کو باہر منتقل کر رہی ہے۔ ایسے کیڑے ایک مخصوص دھات سے تیار کئے جاتے ہیں جو کہ اسے شناخت نہیں ہونے دیتے۔ ایسے مواد کو ’’چور مواد‘‘ کہتے ہیں۔ 2015ء میں بنائی گئی ایک برطانوی فلم ’’آسمان میں آنکھ‘‘ انہیں ڈرون کیڑوں کے بارے میں تیار کی گئی ہے۔
اب آپ تصور کریں کہ آپ ایک جدید ترین لڑاکا طیارے کے پائلٹ ہیں جو کہ ایک بھاری قیمت پر خریدا گیا ہے۔ اپ ا پنے دشمن کے طیارے سےلڑائی کے لئے پورے یقین کے ساتھ آئے ہیں کہ آپ اپنی بھرپور صلاحیتوں سے دشمن کے دانت کھٹے کر دینگے۔ اچانک یہ محسوس ہوتا ہے کہ آپ کے جہاز کے تمام کل پرزے بند ہو گئے ہیں اور آپ ایک ناکارہ جہاز کی پائلٹ کی سیٹ پر بیٹھے ہیں۔ یہ یکایک کیا ہوا؟ آپ کو یہ علم ہی نہیں تھا کہ تمام کنٹرول کا نظام ایک نصب شدہ چپ نے آپ کے طیارے کے تمام نظام کو ایک بیرونی ریڈیو سگنل سے غیر فعال کردیا ہے۔ یہ چپ آپ کے جہاز میں آپ کے علم کے بغیر نصب تھی۔ دشمن کے جہاز بنانے والی کمپنی نے اپنی حکومت کے ذریعے اطلاع دیدی تھی کہ کونسے سگنل بھیجنے ہیں تاکہ آپ کے تمام ہتھیار اور جہازمکمل ناکارہ ہو سکیں۔ یہ انتہائی فکر انگیز بات ہے ان ممالک کے لئے جو بیرون ملک سے طیارے اور آبدوزیں خریدتے ہیں کیونکہ یہ چپ ایسے مواد سے تیار کی جاتی ہیں جن کی شناخت آسانی سے نہیں ہو پاتی۔کیا ہم ایسا کاغذ تیار کرسکتے ہیں جو کہ لو ہے سے بھی زیادہ مضبوط ہو؟ حیرت انگیز طور پر اس کا جواب بھی ہاں میں ہے اسٹاک ہوم کے رائل انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی نے ایک خاص کاغذ تیار کیا ہے جس سے بندوق کی گولی بھی نہیں گزر سکتی۔ یہ کاغذ نینو سیلیولوز کے ریشے سے تیار ہوتے ہیں۔ سیلیولوز کپاس (تقریباً 90%)اور لکڑی کا اہم جزو ہے۔
مندرجہ بالا بیان کردہ مواد سے وہ کمپنیاں اربوں کھربوں ڈالر منافع حاصل کررہی ہیں۔ اس میں امریکہ کی دفاعی کمپنیاں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ امریکہ میں تحقیق و ترقی کا تقریباً 50%حصہ اخراجات کا امریکہ کی دفاعی کمپنیاں ناسا، امریکی فضائیہ، ڈارپا، بحریہ تحقیق کا آفس اور وزارت دفاع خرچ کرتی ہیں۔ ہماری افواج کو بھی چاہئے کہ اپنے بجٹ میں سے کم از کم 10%حصہ جدید تحقیق کے لئے مختص کریں، خصوصاً نئے مواد، جینیات، روبوٹکس، مصنوعی ذہانت، اسمارٹ ہتھیاروں کے لئے۔ ان تحقیقات کے لئے ملک کے اچھے مستند تحقیقی اداروں کی مدد لی جائے۔ اور ان اداروں کو مضبوط کرنے کے لئے معیاری افرادی قوت، ساز و سامان اور فنڈز بھی فراہم کئے جائیں تاکہ وہ ہماری مسلح افواج کو اور مضبوط بنانے کے لئے جدید تحقیق کر سکیں۔ افسوس کہ ہمارے گزشتہ سربراہان نے کبھی خود انحصاری پر زیادہ توجہ ہی نہیں دی بلکہ ہمیشہ غیر ملکیوں کے رحم و کرم پر رہنے کی کوشش کی۔ پاکستان کا پہلا نینو ٹیکنالوجی کا مرکز بین الاقوامی ادارہ برائے حیاتی و کیمیائی سائنسز، جامعہ کراچی میں عزیز جمال صاحب کی مدد سے قائم کیا جارہا ہے۔ اسے حکومت کی سرپرستی کی ضرورت ہے تاکہ اسے عالمی معیار کا بہترین مرکز بنایا جا سکے۔
ایک پریشان کن پیش رفت امریکہ کے صدر ٹرمپ کا ہندوستان کے وزیراعظم مودی کو امریکہ آنے کی دعوت دینا ہے۔ ایک موضوع جو جو یقیناً زیر بحث آئے گا وہ پاکستان میں دہشت گردی ہے اور ہندوستان زور دے گا کہ اس کو جڑ سے ختم کرنے کے لئے پاکستان پر سختی کی جائے اور CPECکو کامیاب نہیں ہونے دیا جائے۔ ہمارے دفتر خارجہ کو چاہئے کہ اس معاملے کو اعلیٰ ترین ترجیح دے اور ایک مضبوط حکمت عملی تیار کرے تاکہ اس ابھرتے ہوئے خطرے سے نمٹا جاسکے۔ اس سلسلے میں چین کو حکمت عملی میں ساتھ ملانا ہوگا۔
.