( گزشتہ سے پیوستہ)
2050 تک دنیا کی آبادی 9ارب تک پہنچنے کی توقع ہے، جس کی وجہ سے ہمارے سیارے پر قابل کاشت علاقےمحدود ہوجائیں گے نتیجتاً بہت سے ممالک میں خشک سالی اور بڑے پیمانے پر قحط پڑنے کے امکانات بڑھ رہے ہیں اس عالمی گرمی(global warming) سے شدید متاثرہ ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے۔ گزشتہ چند دہائیوں میں جینیات میں شاندار ترقی اور اضافہ ہواہےجس کی بدولت ان حالات میں عوام کے لئے خوراک فراہم کرنے کی امید ہو گئی ہے۔جینیاتی طور پر تبدیل شدہ فصلیں نہ صرف زیا دہ پیداوار دیں گی بلکہ بہتر غذائیت کی حامل اور بیماری سے مزاحم بھی ہوں گی۔
پودوں یا جانوروں میں تمام موروثی معلومات ان کے جین (gene)میں موجود ہوتی ہیں۔ایک چھوٹے سےخرد ہار (DNA) کا تصور کریں جس میں چار مختلف اقسام کے کروڑوں یا اربوں سالمے ہوتے ہیں جنہیں نیوکلیک ایسڈ (nucleic acid) کے طور پر جانا جاتا ہے۔ یہ ایک خاص ترتیب سے موجود ہوتے ہیں۔ نیوکلیک ایسڈ کی یہ ترتیب ہی پودوں یا جانو روں کی خصوصیات کے بارے میں تعین کرتی ہے۔مثال کے طور پر ایک پودے سے کس طرح اور کس معیار کے پھل پیدا ہونگے ، ہماری آنکھوں کا رنگ، ہمارے دل یا دماغ کی ساخت وغیرہ یہ سب اس ترتیب کے ذریعے کنٹرول ہوتے ہیں ۔وہ ترتیب جس میں یہ سالماتی موتی پروئے ہوتے ہیں اسے جینیاتی کوڈ (genetic code) کے طور پر جانا جاتا ہے۔انسانوں میں پہلا ایسا کوڈ 2007 میں پروفیسر جم واٹسن نےدریافت کیا گیا تھا جس پر لاکھوں ڈالر کی لاگت آئی تھی اور مکمل کرنے میں سالوں لگ گئےتھے۔اب انتہائی تیزترتیب جانچنے کی مشینوں کی بدولت صرف 1500ڈالر کی لاگت سے ایک ہفتے کے اندر یہ ترتیب جانچی جا سکتی ہے
حال ہی میں ایک قابل ذکر پیش رفت امپیریل کالج لندن کے سائنسدانوں نے کی ہے۔ انہوں نے ایک ناقابل یقین رفتار سے انسانی جینوم کی ترتیب جانچنے کے لئے ایک مائکروچپ ایجاد کی ہے جو کہ انسان میں موجود 3.16ارب نیوکلیک ایسڈپر مبنی پورے جینوم کو منٹوں میں پڑھ سکتی ہے! وہ آلہ جس میں یہ چپ نصب کی جاتی ہے سالماتی ہار کی باریک ترین اور معمولی تبدیلی تک کو پڑھ سکتا ہے ۔ موجودہ مشینوں (جس میں 10سالمے فی سیکنڈ پڑھنے کی صلاحیت ہے) کے مقابلے میں یہ آلہ ایک کروڑ سالمے فی سیکنڈ کی رفتار سےنیوکلیک ایسڈ کی ترتیب پڑھ سکتا ہے۔
علم الجینیات کی ایک اور حیرت انگیز پیش رفت، عادی مجرموں میں’’جرم جین ‘‘ (crime genes)کی شناخت ہے۔اس جین کی موجودگی دماغ کے اس حصے کو متاثر کرتی ہے جوکسی کے اعمال کےممکنہ نتائج کے بارے میں سوچنے کی صلاحیت کوروکتا ہے۔ اس جین کی موجودگی تشدد کرنے پر اکساتی ہے۔ تاہم یہ مشاہدہ بھی کیا گیا ہے کہ اس جین کے حامل اکثر افراد تشدد پسند ہوتے ہیں، لیکن دیگر نفسیاتی وجوہات بھی اس روئیے کی ذمہ دار ہو سکتی ہیں۔
چند سال پہلے، کنگز کالج لندن کے محققین نے انسانوںمیں عمر بڑھنے کے عمل کے لئے ذمہ دار مخصوص جین (Ageing Gene) شناخت کئے ہیں۔ ان کے مطابق یہ جین غذا اور ماحول کے چند بیرونی عوامل کی وجہ سے متحرک اور غیر متحرک ہوتے ہیںاورہو سکتا ہےکہ ایک صحت منداور طویل العمر زندگی کا راز انہیں جین میں پوشیدہ ہو۔چار اہم جین جو صحت مند اور ممکنہ لمبی عمر کے متحمل ہیں وہ کولیسٹرول پھیپھڑوں کے افعال سے تعلق رکھتے ہیں۔ ETH ، زیورخ(Zurich) کے تحقیقی گروپ نے دریافت کیا کہ بعض’’عمر بڑھنےکے جین‘‘ میں ، لیبارٹری کے جانوروں میں رد و بدل کیا گیا تو ان جانوروں کی صحت مند زندگی کی مدت کو نمایاں طور پر بڑھا جا سکتا تھا۔لہٰذا کوششیں کی جارہی ہیں کہ انسانوں میں بھی صحت مند طویل العمری حاصل کی جا سکے۔ بہت سے سائنسدانوں کا خیال ہے کہ اس طرح کی دریافتوں کی وجہ سے آئندہ ہمارے بچوں کی 120سال یا اس سے زیادہ کی عمریں ہو سکیں گی۔2016میں امریکی فوڈ اورڈرگ ایڈمنسٹریشن،(FDA)نےایک عمربڑھنے سے روکنے والی دواکو آزمانے کی منظوری دے دی ہے، اس دوا کا نام میٹ فورمین ہے جو ذیابطیس (Diabetes) میں بھی استعمال ہوتی ہے ۔یہ پہلی بار ہے کہ ایف ڈی اے نے عمر بڑھنے کےعمل کو ایک مخصوص بیماری تسلیم کیا اور ایک نئی دوا کو ہدف کے طور پر آزمانے (clinical trials) کی منظوری دی۔
ہر سال 2کروڑ سے زائد افراد ملیریا سے متاثر ہوتے ہیں اور اس مرض سے تقریباً آٹھ لاکھ اموات سالانہ ریکارڈ کی گئی ہیں. ان اموات میں 90فیصد سے زائد بچے، صحارا افریقہ سے تعلق رکھتےہیں۔اس بیماری سے نمٹنے کے لئے کہ جینیاتی ترمیم شدہ مچھروں سےمادہ مچھروں کی آبادی کو کم کیا جا سکتا ہے۔ جامعہ کیلی فورنیا کےپروفیسر انتھونی جیمزنے ایسے مچھروں کی ایک جینیاتی ترمیم شدہ قسم تیار کی ہے جو کہ مادہ مچھروں کو پرواز سے روکتی ہے۔ جب پانی پر مچھر کےلاروے پیدا ہوتے ہیں تو ان میں سے مادہ مچھر اڑ نے کی صلاحیت نہ ہونے کی وجہ سے اڑ نہیں پاتے اور مر جاتے ہیں یہ ’’جینیاتی نسل کش‘‘ (genetic genocide)کا نقطہ نظر بالآخر ملیریاکےباعث مچھروں کی آبادی کم کرنے اورلاکھوںزندگیاں بچانے کے لئے مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔انسانی جینوم کی تیز رفتار ترتیب جانچنے میں کی جانے والی جدیدیت کی بدولت بہت سی انسانی بیماریوں کی جینیاتی وجوہات سمجھنے میں بھی آسانی ہوگی۔ اس عظیم تر تفہیم کے نتیجے میں ایک ’’انفرادی ادویات‘‘ (Personalized Medicine)کا ایک نیا شعبہ تیز رفتار ترقی کے مراحل میں ہے جس کے تحت آبادی کے مختلف گروپوں کی انفرادی جینیاتی ساخت کے مطابق ادویات میں رد وبدل کی جا سکے گی۔
جینیاتی انجینئرنگ کا ایک بہترین مرکزاب پاکستان میں قائم کیا گیا ہے، جمیل الرحمن مرکز برائے جینیاتی تحقیق جو کہ بین الاقوامی مرکز برائےکیمیائی و حیاتیاتی علوم (ICCBS) میں واقع ایک ابھرتا ہوا بہترین کارکردگی کا مرکز ہے جو کہ میرے والد کے نام سے منسوب ہے اور میرے ذاتی عطیے سے تعمیر کیا گیا ہے ۔یہ ملک میں سب سے بہترین جدیدآلات کی سہولتوں سے لیس ہے، اور ICCBS کے متحرک ڈائریکٹر، پروفیسر اقبال چوہدری کی قیادت میں صحت اور زراعت کی تحقیق میں مشغول ہے۔
جینوم ترتیب (gene sequencing)کی ٹیکنالوجی میں تیزی سے ترقی میدان زراعت میں بھی ایک پورےنئے دور کا آغاز کر رہی ہے۔ ہمیں اپنی فصلوں کے لئے خود کے لئے ایسےنئے بیج تحقیق کی بنیاد پرتیار کرنے کی ضرورت ہے ،بجائے اس کےکہ ہم مغرب سے بیج کی درآمد پر انحصار کریں ۔ اسطرح ہم اپنی غذائی فصلوں کی نئی جینیاتی طور پر تبدیل شدہ (genetically modified) اقسام تیار کرسکیں گے۔اس طرح غیر ملکی آقاؤں پر مکمل طور پر انحصار کرنےکے خطرات بھی ختم ہوجائیں گے۔ایک مرتبہ کسی ملک کے اندر خوراک کی روانی پر قابو پالیا گیا توآپ پورے ملک کو نہ صرف قابو کرسکتے ہیں بلکہ اپنے اشاروں پر نچا سکتے ہیں ۔ ہمیں پاکستان میں کسی غیر ملکی کمپنی کو ہر گز پاکستان میں جینیاتی طور پر ترمیم شدہ بیج بیچنے کی اجازت نہیں دینی چاہئے۔ ہمیں فصلوں کی نمک روادار اور خشک سالی مزاحم اقسام کی قدرتی انتخاب کے ذریعے یا جینیاتی انجینئرنگ کے ذریعے ترقی میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے تاکہ عنقریب قحط اور خشک سالی کے آنے والےچیلنج کا مقابلہ کرسکیںاور ایسے میں سائنس ہماری مدد ضرور کرے گی۔
وہ ممالک جو اس طرح جدیدیت میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں وہ اربوں ڈالر کما رہے ہیں۔پاکستان کو بھی غربت کے طوق سے نکل کر سامنے آنے کے لئے، سائنس، ٹیکنالوجی اور جدت میں سرمایہ کاری، اور تحقیق ، صنعت / زراعت کے درمیان مضبوط روابط قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ افسوس کہ پاکستان میں سائنس اورٹیکنالوجی کی وزارت کاترقیاتی بجٹ (صرف تقریباً 1.8 ارب روپے) جوانتہائی کم ہے۔تعلیم کےمیدان میں ہماری سرمایہ کاری بھی افسوسناک حالت تک انتہائی کم ہے اور آج پاکستان کا شمار دنیاکے سب سےنیچے ان نو ممالک میں ہوتا ہے جو تعلیم پر اپنی GDP کا سب سے کم (2 فیصدکے لگ بھگ) خرچ کرتے ہیں۔ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہم ایک مضبوط علم پرمبنی معیشت تب ہی تعمیر کرسکتےہیں جب ہم اعلیٰ ترین معیار کے اسکولوں، کالجوں اور جامعات کے لئے سرمایہ کاری کریں۔اب وقت تبدیل ہو چکا ہے ہمیں اپنی سرمایہ کاری کا رخ فوراً تبدیل کرنا ہوگا یعنی ہمیں ہماری حقیقی دولت جو کہ ہماری نو جوان نسل ہے اس پر سرمایہ کاری کرنےکی ضرورت ہے، تاکہ ہم بھی پر وقارطریقے سے اقوام عالم میں کھڑے ہوسکیں ۔
.