• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
غربت مہنگائی، بیروزگاری بنیادی سہولتوں کی عدم فراہمی یہ وہ مسائل اور مشکلات ہیں جو ہمیں ورثے میں ملے! قیام پاکستان سے لے کر اب تک انہی مسائل نے ہمیں گھیر رکھا ہے۔ عام آدمی کی زندگی اس قدر مشکلات اور پریشانیوں سے بھری پڑی ہے کہ لوگ خودکشی کرنے پر مجبور ہیں۔ ہماری سیاسی قیادت کبھی بھی غریبوں اور عام آدمی کے دُکھوں کو نہیں سمجھ سکی۔ کاش ایسا ہوتا کہ ایسی قیادت میسر آتی جو لوگوں کیلئے حقیقی رہنما اور رہبر ثابت ہوتی اُن کے دُکھوں کا مداوا کرتی اُن کی تکلیفوں کو اپنی تکلیفیں سمجھتی اُن کے لئے آسانیاں فراہم کرنے کیلئے تگ و دو کرتی اور اُسی قیادت کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بعد میں آنے والے حکمران بھی اُن کی تقلید کرتے لیکن افسوس صد افسوس ایسا نہ ہو سکا۔ بعد میں آنے والے ہر حکمران نے اپنے سے پہلے حکمران کی تقلید تو کی لیکن عوامی مفادات کیلئے نہیں بلکہ ذاتی مفادات کیلئے کام کیا اور عام آدمی کے مسائل اور مشکلات کو سمجھنے سے بالکل قاصر رہے۔ ہر حکومت کا یہ عزم ہونا چاہئے کہ وہ غیر ملکی قرضوں پر انحصار ختم کرکے ملکی معیشت کو مستحکم بنائے۔ اگرچہ حکومت کے سامنے ملک کی اقتصادی صورتحال بہتر بنانے کا سوال ایک بہت بڑے چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے لیکن بہت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ حکومت صرف اپنے ذاتی مفادات اور شاہ خرچیوں کی طرف زیادہ دھیان دیتی ہے جبکہ اس کے مقابلے میں کروڑوں عوام جو حکومت سے آس امید لگائے بیٹھے ہیں ان کی طرف کوئی دھیان اور توجہ نہیں دی جاتی۔ اس وقت ملک کو جن غیر معمولی اقتصادی مسائل کا سامنا ہے ان کے پائیدار حل کیلئے حکمران مخلصانہ منصوبہ بندی کرلیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم ان مشکلات اور مسائل سے چھٹکارا حاصل نہ کر سکیں۔ ہمارے وسائل بہت کم ہیں جبکہ مسائل بہت زیادہ۔ ہمارے مسائل کا حل زیادہ قرضے اور زیادہ ٹیکس نہیں بلکہ تعلیم و صحت کی ترقی اور امن و امان کی بحالی ہے۔ بجٹ کوئی بھی ہو اس میں غریب کی مشکلات اور ان کے مسائل کے حل کیلئے بہت دعوے اور خواب دکھائے جاتے ہیں مگر عملی طور پر کچھ نہیں ہوتا۔ ہر آنے والے بجٹ سے پہلے لوگوں کی توقعات اور خدشات بڑھتے رہتے ہیں۔ اللہ کرے وہ وقت آئے اور ملک کے وسائل اتنے زیادہ ہوجائیں کہ آنے والے ہر بجٹ میں لوگوں کیلئے زیادہ سے زیادہ مراعات ہوں۔ عوام اس بات کے خواہش مند ہوتے ہیں کہ بجٹ ان کے مسائل کو سامنے رکھ کر بنایا جائے تاکہ ان پر زیادہ بوجھ نہ پڑے۔ عوام کا اصل مسئلہ مہنگائی ہے جسے آج تک حل نہیں کیا جا سکا، مہنگائی سے متاثرہ طبقات میں نچلا تنخواہ دار طبقہ سرفہرست ہوتا ہے۔ بہرحال بجٹ ایسا ہونا چاہئے جسے دیکھ کر عام آدمی یہ نہ کہہ سکے کہ اس بجٹ نے مہنگائی میں اضافہ کرکے عوام کی کمر توڑ دی ہے۔ بجٹ ایسا ہونا چاہئے جس میں ہر طبقے کو ریلیف ملے اور وہ آنے والے سالوں کیلئے ترقی کی ایک سیڑھی ثابت ہو۔ ملک اس وقت شدید مشکلات اور بحرانوں میں گھرا ہوا ہے عام آدمی کا زندگی گزارنا اس قدر مشکل ہوگیا ہے کہ ایک وقت کی روٹی بھی نہیں کھا سکتا، ایک طرف بجلی کی لوڈشیڈنگ دوسری طرف گیس کا بحران تیسری طرف مہنگائی اور چوتھی طرف بیروزگاری ایسے حالات میں بے بس لاچار اور غریب آدمی کس طرح زندگی کے معاملات کو آگے بڑھا سکتا ہے۔ ہر آنے والی نئی حکومت لوگوں کو خوبصورت وعدوں اور خوابوں کے ذریعے بہلانے کی کوشش کرتی ہے اور عوام اتنے معصوم اور کمزور ہیں کہ وہ بھی ہر دفعہ ان کے بہکاوے میں آکر امید بلکہ نہ ختم ہونے والی انتظار کی گھڑیوں کو دیکھتے رہتے ہیں۔ موجودہ حکومت نے بھی بحرانوں سے نکلنے اور معاشی صورتحال بہتر بنانے کے بہت دعوے کئے اب پھر لوڈشیڈنگ ختم کرنے اور انرجی بحران پر قابو پانے کے دعوے کئے جارہے ہیں۔ اللہ کرے ان کی پلاننگ ان کی کوششیں اور ان کے وعدے پورے ہوں اور عوام کو بھی سکھ کا سانس لینا نصیب ہو۔ وگرنہ اگر اس دفعہ بھی عوام کے ساتھ دھوکہ ہوا تو پھر یقیناً اس حکومت کو بھی ’’لینے کے دینے‘‘ پڑ سکتے ہیں۔
ہر سال بجٹ آنے سے پہلے پوری قوم پریشانی اور اضطراب کا شکار رہتی ہے کیونکہ یہ ایک ایسا مرحلہ ہوتا ہے جس سے ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے فرد کا کسی نہ کسی طرح سے براہ راست تعلق ہوتا ہے۔ عوام کا اصل مسئلہ مہنگائی ہے جسے آج تک حل نہیں کیا جا سکا۔ اب تو مہنگائی کے بھی چار موسم بن چکے ہیں۔ ایک موسم وفاقی بجٹ کے اعلان کے بعد شروع ہوتا ہے۔ دوسرا موسم مالی سال کی پہلی سہ ماہی کے اختتام پر، تیسرا سیزن رمضان المبارک سے قبل اور چوتھا سیزن بجٹ کے اعلان ٓسے ایک ماہ قبل شروع ہوتا ہے۔ جس ملک میں سال میں چار بار اشیاء کے نرخوں میں بلاجواز اضافہ ہوتا ہو وہاں سفید پوش طبقےکی کیا حالت ہو گی؟ مہنگائی سے متاثرہ طبقات میں نچلا تنخواہ دار طبقہ سرفہرست ہے۔ عام آدمی مہنگائی کے پیمانے سے بجٹ کو چانچنے کی کوشش کرتا ہے۔ اگر بجٹ کے حوالے سے مہنگائی میں اضافہ ہو جائے تو عام آدمی بھی اس بجٹ کو اچھا نہیں کہتا۔ بجٹ کے اعداد و شمار کے حوالے سے کئی تکنیکی پہلو ہوتے ہیں جسے سمجھنے کیلئے اقتصادیات کا بنیادی علم رکھنا بہت ضروری ہے۔ بجٹ زیادہ تر اعداد و شمار کا کھیل ہوتا ہے جو وزیر خزانہ کی کپتانی میں کھیلا جاتا ہے۔ بجٹ بظاہر تو سال میں ایک دفعہ ہی پیش کیا جاتا ہے لیکن اس کے کچھ پہلو عوام سے خفیہ رکھے جاتے ہیں۔ جس سے بجٹ کا خسارہ تیزی سے بڑھتا ہے اس میں بعض ایسے اقدامات کئے جاتے ہیں جس سے مہنگائی میں خودبخود اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ بہترین بجٹ وہی ہوتاہے جس کے ذریعے معاشی ترقی کی راہیں کھل سکیں۔ نئے نئے وسائل تلاش کئے جائیں، ملک کے مختلف طبقات کا اس طرح تحفظ کیا جائے کہ کوئی طبقہ محروم نہ رہ جائے جبکہ اس کے برعکس دوسرا طبقہ تمام تر مراعات اور فائدے حاصل کرلے جس سے ملک میں دولت کی عدم مساوات پیدا ہو جائے اور معیشت گروہوں میں تقسیم ہو جائے۔ بجٹ ہمیشہ سے ہی غریب عوام کی معاشی و سماجی حالت سدھارنے کے نام پر مرتب کیا جاتا ہے لیکن اس دلفریب نعرے کے پیچھے ہمیشہ عوام پر ظلم ہوا ہے۔ خدا نہ کرے عوام کی طویل خاموشی کسی طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہو۔ ان حالات میں عوامی توقعات کو پورا کرنے کیلئے ہمیں بجٹ میں قرضوں پر کم انحصار کرنا چاہئے۔ اللہ کرے عوام کی بنیادی ضرورتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسا بجٹ پیش کیا جائے جس سے غریب آدمی کی مشکلات میں اضافہ ہونے کی بجائے کمی آئے۔ اللہ کرے یہ بجٹ غریبوں کیلئے خوشیوں کا پیغام لے کر آئے اور جو خاندان معاشی پیچیدگیوں کی وجہ سے اپنی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہیں ان کیلئے یہ بجٹ مشکلات کی بجائے آسانیاں فراہم کرے۔ آمین

.
تازہ ترین