گزشتہ دو سال کے دوران میں نے پاکستان میں اعلیٰ درجے کی انجینئرنگ اور ٹیکنالوجی جامعات قائم کرنے کیلئے آسٹریا، اٹلی اور فرانس کا سفر کیا ہے۔ان ممالک میں سفر کا مقصد وہاں کی بہترین جامعات کا جھرمٹ (consortium) قائم کرنے کیلئے قائل کرناتھاتاکہ پاکستان میںان کی شراکت سے اعلیٰ درجے کی انجینئرنگ اور ٹیکنالوجی کی جامعات قائم کی جا سکیں۔ ہم اپنے بچوں کو بیرون ملک اچھی تعلیم حاصل کرنے کیلئے بھیجتے ہیں جس پر مجموعی طور پر ہم ہر سال تقریباً 100 ارب سے زائد روپے خرچ کر تے ہیں۔کیوں نا بین الاقوامی معیار کی جامعات پاکستان میں قائم کرکےاس پیسے کو بچا لیا جائے ؟ اس طرح ہم اپنے بچوں کو ملک ہی میں بہترین تعلیم فراہم کرسکتے ہیں ۔ آخر ہم اپنے بچوں کو کیمبرج کی سطح کا او(’’O‘‘) اور اے (’’A‘‘) لیول بھی بغیر کیمبرج بھیجے ملک ہی میں کراتے ہیں تو جامعاتی سطح پر بھی ایسا کیا جا سکتا ہے۔
2004 ء میں جب میں اعلیٰ تعلیمی کمیشن کا چیئرمین تھااس وقت میں نے پاکستان میں انجینئرنگ کی تعلیم اور تحقیق کو مضبوط بنانے کیلئے ایک اہم قدم اٹھایا تھا اور فیصلہ کیا گیا تھا کہ پاکستان میں کئی عالمی معیار کی غیر ملکی انجینئرنگ جامعات کا ایک نیٹ ورک قائم کیا جائے یہ قدم انتہائی اہم اور منفرد تھا۔اس کے تحت (کسی ایک غیر ملکی جامعہ کے بجائے) اعلیٰ درجے کی کئی غیر ملکی جامعات کے (consortium)کے ساتھ شراکت شامل تھی تاکہ اچھے معیار کے غیر ملکی اساتذہ پاکستان میں کافی تعداد میں دستیاب ہو سکیں۔ چنانچہ 9جرمن انجینئرنگ جامعات کا مضبوط جھرمٹ لاہور میں ایک عالمی معیار کی انجینئرنگ جامعہ قائم کرنے کیلئے تشکیل دیا گیا تھا۔ اسی طرح فرانس، اٹلی، آسٹریا، چین اور سویڈن کے بھی ایسے ہی جامعات کےجھرمٹ قائم کئے گئے۔ صدر پاکستان نے لاہور میں آسٹرین جامعہ کی بنیاد رکھی جبکہ وزیر اعظم نے کراچی میں فرانس کی جامعہ کا سنگ بنیاد رکھا تھا ۔ جرمن آسٹرین، اطالوی اور چینی جامعات کی کلاسیں اکتوبر 2008میں شروع کرنے کا منصوبہ تھا۔ لاہور میں والڈن ہوائی اڈے جرمن اور آسٹرین جامعات کیلئے ایک عارضی کیمپس کے طور پر تجویز کیا گیا تھا ۔ اسی طرح کراچی میں فرانسیسی اور اطالوی جامعات اسلام آباد اور سیالکوٹ میں چینی اور سویڈش انجینئرنگ جامعات کیلئے عارضی انتظامات کرلئے گئے تھے۔ ہرجامعہ کا اہم ترین حصہ اس کے احاطے کے اندر ایک ٹیکنالوجی پارک تھا تاکہ ہر جامعہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ انجینئروں کے ساتھ ساتھ کاروباری صلاحیتوں کے حامل افراد تشکیل دے سکےجو اپنی کمپنیوںکا خود آغاز کر سکیں ۔جرمنی، اٹلی، آسٹریا اور چین کے تعاون سے چار منصوبوں کوفروری، 2008 ء میں ایکنک نےمنظور کر لیا تھا ۔ لیکن افسوس 19مئی، 2008 ء کو ان منصوبوں کی منظوری کے صرف تین ماہ بعد تباہی آئی، نئی پی پی پی کی حکومت نے ان تمام پروگراموں کو مکمل طور پربندکر دیا۔ سالوں کی محنت کو کچرے کے ڈبے میں ڈال دیا گیااور ایک سنہری مو قع پاکستان کے ہا تھ سے نکل گیا۔اس وقت کے حکمرانوں نے یہ تک نہیں دیکھا کےہندوستان میں جواہر لال نہرونےکئی انڈین انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی قائم کر کےہندوستان کی معاشی ترقی کے لئے کتنازبردست کام کیاتھاجس کےنتیجہ میں ITکی صنعت ہندوستان میں تقریبا150ارب ڈالرتک جا پہنچی ہے۔حکومت پاکستان کےاس غیر عملی فیصلے سے 30 غیر ملکی جامعات کی ناراضی مول لینی پڑی جنہوں نے ملک میں ان دنوں باقاعدہ دہشت گرد حملوں کی وجہ سے حفاظتی انتظامات کا خطرہ ہونے کے باوجود پاکستان میں کلاسیں شروع کرنے پر اتفاق کیا تھا ۔ان کی آنکھوں میں پاکستان نےایک قوم کی حیثیت سے تمام ساکھ کھو دی۔تاہم میں نے ہار نہیں مانی۔ میں نے اس تجویزکے ساتھ 2015 ء میں جناب عمران خان سے رابطہ کیا اور انہوں نے فوری طور پراس بصیرت انگیز قدم کیلئے حامی بھری اور ہری پور ہزارہ میں ایک آسٹرین انجینئرنگ جامعہ قائم کرنے پر اتفاق کیا۔اس جامعہ کو خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت کی طرف سے فنڈز فراہم کئےجارہے ہیں۔ اور چارسائنس اور ٹیکنالوجی کی بہترین جامعات کا ایک کنسورشیم تشکیل کیا جا چکا ہے اور انہوں نے پاکستان میں اپنی ڈگری دینے پر اتفاق کیا ہے. اس کے بعد میں نے جناب شہباز شریف سے رابطہ کیا اور انہوں نےبھی لاہور نالج پارک (Lahore Knowledge Park) میں ایک انجینئرنگ جامعہ قائم کرنے پر اتفاق کیا۔ اس سلسلےمیں اطالوی انجینئرنگ جامعات کا جھرمٹ قائم کیا جا رہاہے اور کلاسیں2018 میں شرو ع ہوجانے کی توقع ہے۔ ضروری ہے کہ لاہور نالج پارک میں مزید وقت ضائع کئے بغیر متحرک CEO مقرر کر لیاجائےورنہ پروگرام 2019تک کیلئے ملتوی ہو جائیگا۔ میں نے وزیراعلیٰ سندھ سے بھی اسی طرح کی انجینئرنگ جامعہ کے قیام کیلئے ستمبر2016میں رابطہ کیا تھا،وہ خود بھی انجینئر نگ میں جامعہ ا سٹینفورڈ سےتربیت یافتہ ہیں لیکن ان کی طرف سے آج تک فیصلے کا منتظر ہے۔ نیز پاکستان کے دیگر بڑے شہروں میں بھی اسی طرح کی غیر ملکی انجینئرنگ جامعات کے قیام کیلئے فرانسیسی چینی اور سویڈش اداروں کیساتھ تبادلہ خیال جاری ہے۔ وہ شعبے جن میں ان جامعات کی توجہ مرکوز ہوگی ان میں صنعتی عملی انجینئرنگ، توانائی، زرعی انجینئرنگ / بایو ٹکنالوجی، مادی علوم / نینو ٹیکنالوجی ، مصنوعی ذہانت / روبوٹکس، جینومکس اور دیگر تیزی سے ابھرتے ہوئے شعبے شامل ہیں۔ مثال کے طور پر آج بائیوٹیکنالوجی کاشعبہ زراعت اور طب کو تیزی سےتبدیل کررہا ہے۔ نوبل انعام یافتہ آرتھرکارن برگ نےایک بار بیان کیاتھا ’’بایو ٹیکنالوجی اور اس سے وابستہ روشن مستقبل کی طاقت کے پیش نظر،یہ اہم ہےکہ کم ترقی یافتہ ممالک اپنی حیثیت کو مضبوط کرنے کیلئے بائیو ٹیکنالوجی ضروراستعمال کریں‘‘۔ 2001میں جب میں سائنس و ٹیکنالوجی کا وفاقی وزیر تھا، تب ہم نے سائنس اور ٹیکنالوجی کی وزارت کے تحت دو طاقتور کمیشن قائم کئےتھے۔ایک بائیو ٹیکنالوجی کا قومی کمیشن تھاجس نے ایک ارب روپے سے زائد کے بہت سے پروگرام شروع کئے تھےاور جب وہ پاکستان میں بائیو ٹیکنالوجی کے ایک ٹھوس پروگرام کی بنیاد رکھنے جارہا تھا ، اسی وقت نئی پی پی پی کی حکومت نے اسے بند کر دیا۔ دوسرا کمیشن نینو ٹیکنالوجی کا قومی کمیشن تھا یہ ایک ابھرتا ہوا شعبہ ہےجو کہ دوسرے مختلف شعبوں میں صنعتوں کی ایک بڑی تعداد پر اثر انداز ہو رہا ہےجن میں الیکٹرانکس، کمپیوٹر سائنسز، انجینئرنگ، دواسازی، زراعت، نقل و حمل وغیرہ بھی شامل.ہیں۔ اس کمیشن کو بھی بند کر دیا گیاتھا۔
پاکستان میں ترقی کی بہت کم سطح کی عکاسی اس بات سےہوتی ہےکہ پاکستان کے ایک شہری کی فی کس اوسط آمدنی سنگاپور میں ایک شہری کی اوسط فی کس آمدنی سے 40 گنا کم ہے۔اس کی وجہ ہمارے ناقص قومی ترقیاتی منصوبے ہیں۔ ہم اب تک یہ ہی سمجھنے میں ناکام رہے ہیں کہ قدرتی وسائل کی اب بہت کم اہمیت رہ گئی ہے۔اگر ہم ترقی کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اعلیٰ معیار کے انسانی وسائل کی ترقی پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔تاکہ ہم اعلیٰ ٹیکنالوجی کا مال تیار اور برآمد کرسکیں جس کی زیادہ قیمت ہے اور جس کی وجہ سے ہم غربت سے چھٹکارا حاصل کر سکتے ہیں ۔ یہی سنگاپور نے بھی کیا ہے.۔ نتیجے کے طور پر سنگاپور کی قومی جامعہ آج دنیا میں 12 ویں نمبر پر ہےاور QS درجہ بندی کے تحت ایشیا میں سب سے پہلے نمبر پر ہے۔ کوریا نے بھی یہی کیا ہے. کورین ادارہ برائے سائنس و ٹیکنالوجی، کورین اطلاقی ادارہ برائے سائنس و ٹیکنالوجی، سیول قومی جامعہ اور کئی دیگر جامعات اور ادارے، قائم کئے اور اسطرح صنعتی انقلاب کی راہ ہموار کی اور بہت سے شعبوں میں آج ایک عالمی دیو بن گیا ہے۔
ترقی کا راستہ بالکل واضح ہے، لیکن ہم اس کی پیروی کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ صرف شہروں کے درمیان سڑکوں کی تعمیر کے علاوہ ، ہمیں بحری جہاز، دواسازی، انجینئرنگ مصنوعات، الیکٹرونکس، خصوصی دھاتیں، نایاب معدنیات، جدید ترین سافٹ ویئر اور دیگر ایسی اشیا اور خدمات کی تیاری کے لئے پروگرام ترتیب دینے چاہئیں تھے۔ یہ صرف اسی وقت ممکن ہےجب ہم اعلیٰ درجے کی جامعات اور عمدہ کارکر دگی کے مراکز (Centers of Excellence) قائم کریں اور ان اداروں کی تحقیق کو صنعت اور زراعت سے منسلک کر دیں۔ پچھلے دو سال سے الحمد للہ اعلیٰ معیار کی انجینئرنگ کی نئی غیرملکی جامعات قائم کی جارہی ہیں اوراب اس طویل تاریک سرنگ کے آخر میں روشنی کی کرن نظر آرہی ہے۔