حالیہ دنوں کئی ایک امور میں اہم پیش رفت دکھائی دی۔ یہ پیش رفت اُس راستے پر روشنی ڈالتی ہے جس پر پاکستان کی طاقتور اسٹیبلشمنٹ چل رہی ہے ۔ یہ اس چیزکا تعین کرے گی کہ پاکستان اندرونی اور بیرونی طور پر کس سمت گامزن ہوتا ہے ۔ لیکن جیسا کہ امریکی شاعر، رابرٹ فراسٹ کا کہنا ہے ۔۔۔’’جو چیز فرق ڈالتی ہے ، وہ کم چُنی گئی راہوں کا انتخاب ہے ۔‘‘
اسٹیبلشمنٹ کے ’’بھارت کے خلاف تزویراتی تسدید (ڈیٹرنس) ‘‘کا گزشتہ بدھ کو کامیابی سے تجربہ کیا گیا۔ شارٹ رینج میزائل ، نصرمیدان ِ جنگ میں استعمال کرنے کے لئے بنائے گئے چھوٹے ایٹم بموں کو لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔ آرمی چیف، جنرل باجوہ کا کہنا تھا۔۔۔’’نصر نے کولڈ اسٹارٹ پر ٹھنڈا پانی گرا دیا۔‘‘ اس سے پہلے بھارتی آرمی چیف جنرل بیپن روات نے کولڈ اسٹارٹ ڈاکٹرائن کی بات کی تھی ۔ اس سے مرادبھارتی فورسز کا چند گھنٹوںکے نوٹس پر پاکستان کے اندر جارحانہ کارروائی کے لئے تیار رہنا ہے ۔
گویا اب علاقائی امن کا دارومدار ہتھیاروں کی مہنگی دوڑ پر ہے جو روایتی ہتھیاروں سے بڑھ کر جوہری ہتھیاروں تک پہنچ چکی ہے ۔ اس کے نتیجے میں سرحدکے دونوں طرف عوام کی سماجی بہبود متاثر ہوگی ۔ جنرل باجوہ کا کہنا تھا کہ پاکستان کی تزویراتی صلاحیت جارحانہ عزائم رکھنے والے اور جنگی جنون میں مبتلا ہمسائے کے خلاف امن کی ضمانت ہے ۔ اس وقت بھارت دنیا میں اسلحے کا سب سے بڑا خریدار ہے ، اور مودی سرکار پورے شدومد سے دوول ڈاکٹرائن ’’ جارحانہ دفاع‘ ‘ کو اپنائے ہوئے ہے ۔
اسٹیبلشمنٹ کی افغان پالیسی کا تعلق بھارتی پالیسی سے ہے ۔ بنیادی طور پر یہ تزویراتی گہرائی کا پیکیج تھی۔ اس کا مطلب 1990 ء کی دہائی میں افغان مجاہدین کے جہاد کی حمایت تھی۔ جب وہ منصوبہ کامیاب نہ ہوا تو کابل فتح کرنے کے لئے طالبان کے بازو مضبوط کیے گئے۔ لیکن جب یہ منصوبہ بھی ناکام ہوا، اُنہیں پاکستان کے قبائلی علاقوں میں محفوظ ٹھکانے فراہم کیے گئے ۔ بدقسمتی سے اس کے نتیجے میں پاکستانی طالبان نے جنم لیا۔ اب پاکستانی طالبان داعش کا روپ دھار کر پاکستان اور افغانستان، دونوں کے لئے مہیب خطرہ بن چکے ہیں۔
گزشتہ کچھ عرصے سے اس ڈاکٹرائن میں تھوڑی سی تبدیلی دیکھنے میں آئی۔ اسٹیبلشمنٹ ایک کلائنٹ اسٹیٹ میں تزویراتی گہرائی کی بجائے آزاد افغانستان میں ایک دوستانہ حکومت چاہتی تھی ۔ جب یہ مقصد بھی پورا نہ ہوا تو ڈاکٹرائن میں تھوڑی سی ترمیم کر کے ’’غیر جانبدار افغانستان ‘‘ کا تصور آگے بڑھایا گیا ۔ اس افغانستان میں مختلف افغان دھڑے، خاص طور پر پاکستان کے حمایت یافتہ طالبان،اقتدار میں شریک ہوں۔ لیکن اسٹیبلشمنٹ افغان طالبان کو کسی ایسے معاہدے پر راضی کرنے سے قاصر تھی۔مزید یہ کہ امریکی تعاون سے وجود میں آنے والی کابل حکومت بھی طالبان کو میز پر بیٹھنے کے لئے مجبور نہ کرسکی ، اس لئے یہ کوشش بھی ناکامی سے دوچار ہوگئی ۔ افغان پالیسی کی یہ پیہم ناکامی اسٹیبلشمنٹ کے امریکہ سے تعلقات بگاڑنے کی ذمہ دارہے ۔
اب دوسری پیش رفت ہمارے سامنے ہے۔ گزشتہ ہفتے پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے امریکی سینیٹر جان مکین نے پاکستان کو خبردار کیا کہ وہ حقانی نیٹ ورک کی مبینہ پشت پناہی سے باز رہے ورنہ اُسے امریکی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ۔ اس سے پہلے نیٹو سیکرٹری جنرل، جنز سٹولٹن برگ کے نزدیک ’’یہ بات قطعی طورپر ناقابل ِ قبول ہے کہ ایک ملک ایسے دہشت گرد گروہوں کو محفوظ ٹھکانے فراہم کرے جو کسی دوسرے ملک میں حملے کرتے ہوں۔‘‘ سینیٹر جان مکین کو پیش کی جانے والے پنٹاگون کی ایک حالیہ رپورٹ میںبھی پاکستان پر ایسے الزامات ہی عائد کیے گئے جن کی وجہ سے افغانستان میں امریکی پالیسی ناکام ہوئی ۔ بھارت کی طرف جھکائو رکھنے والی ٹرمپ انتظامیہ افغانستان میں کم ہوتے ہوئے آپشنز کو دیکھ کر پاکستان کے ساتھ امریکی تعلقات پر سنجیدگی سے نظر ِ ثانی کررہی ہے ۔
تیسری پیش رفت کا تعلق قومی سیکورٹی کے اندرونی ماڈل پر اسٹیبلشمنٹ کے اثر سے ہے۔ اس کا اظہار حکمران جماعت، پی ایم ایل (ن) کی طرف سے لگائے جانے والے الزامات سے ہوتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نواز شریف سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے ’’سازش‘‘ کر رہی ہے۔ بدھ کو جب آرمی چیف کا چہرہ نصر کے کامیاب تجربے پر خوشی سے تمتما رہا تھا، وزیرِاعظم کی صاحبزادی، مریم نواز جے آئی ٹی کی تفتیش کے پیچھے کارفرما اُن ’’خفیہ ہاتھوں‘‘ پر تنقید کررہی تھیں جو اُن کے والد کے خلاف سازش کررہے ہیں۔
ہمارے ملک میں اسٹیبلشمنٹ تاریخی طور پر ایسے مقبول سویلین حکمرانوں سے مخاصمت رکھتی ہے جو بھارت دشمنی پر مبنی سیکورٹی بیانیے کو تسلیم کرنے میں تامل سے کام لیں۔ نواز شریف نے گزشتہ دومرتبہ اقتدار سنبھالنے پر اس تصورکو سنجیدگی سے چیلنج کرنے کی کوشش کی تھی۔ مسٹر شریف سے چھٹکارا پانے کی کوشش ذوالفقار علی بھٹو سے چھٹکارا پانے سے مختلف نہیں۔ مسٹر بھٹو نے بے نظیر بھٹو کی پرورش اور بے نظیر نے بلاول بھٹو کی ۔ گزشتہ بدھ کو مریم نواز نے ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے گھیرے میں آئے ہوئے والد کی جگہ لینے والی رہنما کے طور پر سیاسی میدان میں قدم رکھ دیا۔ نواز شریف اقتدار میںرہیں یا نہ رہیں، نوا زشریف (اور اگر ضروری ہوا تو مریم ) پی ایم ایل (ن) کے قائد رہیں گے ۔ سندھ میں پی پی پی کی طرح پنجاب میں پی ایم ایل(ن) موجود رہے گی ۔ ملکی سیاست پر علاقائیت کی گہری ہوتی ہوئی چھاپ سے اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے مرکز کو کنٹرول کرنے میں ناکامی کا اظہار ہوتا ہے۔
اسٹیبلشمنٹ کا حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے بھارت سے بات کرنے سے انکار اس کی واشنگٹن اور کابل کے ساتھ ساکھ کے لئے نقصان دہ ہے۔ ایسا ہی رویہ داخلی طور پر سویلین رہنمائوں کےساتھ تنائو کم کرنے کی راہ میں حارج ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی قیادت میں ہونے والی تبدیلی بھی ان محاذوں پرادارے کے موقف کو تبدیل کرنے میں ناکام رہتی ہے۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان داخلی اور خارجی طور پر ٹکرائو کی پالیسی پر گامزن ہے۔ یہ بھارت، افغانستان، طالبان اور داعش کے خلاف حالت ِ جنگ میں ہے تو داخلی طور پر سول ملٹری تعلقات میں تنائو اس وقت ملک کے لئے بے حد نقصان دہ ہے جب پاک چین اقتصادی راہداری ملک کی معاشی ترقی کا پیغام لانے والی ہے۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں ہونے والی یک لخت کمی آنے والے وقتوں کا خوفناک اشارہ ہے۔ یہ جانی پہچانی راہیں تو ایک مدت سے ہمارے لئے حمام گرد باد ثابت ہوئی ہیں۔ فرق صرف نئی راہوں پر قدم رکھنے سے پڑے گا۔