• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا:’’صحرا میں جڑیں بڑی تیزی سے پھیلتی ہیں‘‘ اور یہاں یاد آتا ہے، پاکستان کے آئینی صحرا میں بھی قوم دشمن جڑوں، واقعات، سانحات اور سازشوں کی تعداد اور مقدار کے تسلسل میں کبھی فرق نہیں پڑا۔
بی بی شہید کا ایک بیان بھی اس لمحے کی صدائے باز گشت کے طور پر پڑھتے جائیں، 18؍اکتوبر 2003ء کی صبح شائع ہوا تھا۔ اخبارات کے مطابق ’’سابق وزیراعظم اور پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمینٹریز کی چیئرپرسن بے نظیر بھٹو نے کہا ہے کہ حکومت کے ساتھ کئی امور پر ہماری مفاہمت ہو چکی تھی لیکن بعض اعلیٰ فوجی افسران نے اس سارے عمل کو سبوتاژ کر دیا۔ آج 2003کے چودھویں برس بعد 2017میں اخبار کے صفحے پر پھر ایک خبر اور تجزیہ ہماری نظر سے گزر رہا ہے!
یہ کہ:’’انتظامی انکوائری کے نتیجے میں یہ بات سامنے آنے کے بعد کہ پنجاب رینجرز نے اسلام آباد میں احتساب عدالت کی حدود کا محاصرہ ضلعی انتظامیہ یا سویلین حکام کی جانب سے درخواست کئے بغیر ہی سنبھال لیا تھا، وفاقی حکومت نے آرمی چیف سے رابطہ کر لیا ہے۔ وزارت داخلہ کے ایک ذریعے نے ’’دی نیوز‘‘ سےبات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ واقعہ کے حوالے سے ایک دستاویز (ڈوسیبر) آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو بھیجا جا رہا ہے۔ ساتھ ہی ڈی جی پنجاب رینجرز سے بھی وضاحت طلب کی جا رہی ہے۔ گزشتہ رات اس واقعہ کے حوالے سے وزارت داخلہ کو رپورٹ پیش کی گئی رپورٹ میں اس بات کی تصدیق کی گئی تھی کہ پنجاب رینجرز نے غیر قانونی طور پر اور سویلین حکام سے اجازت لئے بغیر اقدام کیا ہے، تاہم یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ کس نے رینجرز کو اسلام آباد کی احتساب عدالت کی حدود کا کنٹرول سنبھالنے کی ذمہ داری سونپی تھی۔ ذرائع کے مطابق حکومت کو آرمی چیف سے توقع ہے کہ وہ اس واقعہ کا نوٹس اور ان کے خلاف کارروائی کریں جن کا غیر قانونی اقدام سویلین حکومت اور دفاعی ادارے کے لئے باعث عزیمت بن گیا۔‘‘
جواباً 6؍ اکتوبر 2017کی صبح پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور نے آئی ایس پی آر ڈائریکٹوریٹ کے کانفرنس روم میں میڈیا کو متعدد قومی امور پر دی گئی پریس بریفنگ میں سول ملٹری معاملات اور رینجرز وواقعہ کے تناظر میں بھی چند باتیں کہیں، ان کا کہنا تھا:’’پاک فوج آئینی حکم ماننے کی پابند ہے، اداروں میں کوئی تصادم نہیں، مل کر کام کرنا چاہئے، کوئی فرد یا ادارہ پاکستان سے بالاتر نہیں، پیچھے مڑ کر دیکھا تو پیچھے ہی دیکھتے رہ جائیں گے، احتساب عدالت کے باہر رینجرز تعیناتی کا واقعہ مقامی غلط فہمی کا نتیجہ تھا، سیکورٹی خدشات پر رینجرز لگائی، ضروری نہیں ہر حکم تحریری ہو، قوانین کے مطابق اسپیشل کارڈ کے بغیر آرمی چیف کو بھی سپاہی جانے نہیں دے گا، رینجرز وزارت داخلہ کے ماتحت ہے، خاموشی کی بھی اپنی زبان ہوتی ہے، پاناما جے آئی ٹی میں آئی ایس آئی اور ایم آئی کا کردار آئینی تھا، موجودہ معاملے کے پیچھے فوج ہونے یا مارشل لاء لگنے کی بات کرنا بھی فضول ہے، یاد رہنا چاہئے، خاموشی کی اسی زبان کے اصول کی روشنی میں جے آئی ٹی میں پیشی کے موقع پر حسین نواز کی تصویر کس نے ریلیز کی، اس کا نام سامنے آنا بھی قطعی ضروری نہیں، ہر ادارے کی سروس تہذیب اس کے بیانئے اور اپروچ کی آئینہ دار ہوتی ہے جسے اس ادارے کا اختیاراتی ڈھانچہ تشکیل دیتا ہے، چنانچہ رینجرز کے واقعہ پر ڈی جی آئی ایس پی آر اس کلیئے کا اظہار کرنے میں حق بجانب ہیں اور حسین نواز کی تصویر ریلیز کرنے والے کے نام کا خاموش انتظار بھی پاکستانی قوم پر فرض ہے۔
تو پاکستان کے آئینی صحرا کی کہانی جاری ہے اور کوئی عام پاکستانی بی بی شہید کا بیان مستعار لیتے ہوئے ’’پیچھے مڑ کر کون دیکھتا رہا یا دیکھ رہا ہے‘‘ کا سوال نہیں اٹھا سکتا، چونکہ ’’خاموشی کی بھی اپنی ایک زبان ہوتی ہے!‘‘
چنانچہ اب آپ ’’آئینی بالادستی، ووٹ کی حرمت اور جمہوری تسلسل کے تاریخی رزمیے یا المیے کے آئینے میں نواز شریف کے بیانات، احسن اقبال کے احتجاج، حکومتی بحران کے حل میں اقتدار سنبھالنے کی ایک تجویز، جیسے تین وقوعوں پر غور فرمائیں۔
پاکستان کے تیرہویں (اب غیر فعال) منتخب وزیراعظم نواز شریف کا ن ’’لیگ‘‘ کا صدر منتخب ہونے کے بعد تازہ ترین بیانیہ یہ ہے:’’سقوط ڈھاکہ سے کچھ نہیں سیکھا، ڈکٹیٹرز کی آئین شکنی کو جائز قرار دے کر غیر مشروط وفاداری کے حلف اٹھائے گئے، آئین کی خلاف ورزی کرنے والے صادق بھی رہے، امین بھی، 70برس سے غلطیاں دہرا رہے ہیں، تصادم کا کلچر ختم کرنا ہو گا، ہر قوم اپنا گھر ٹھیک کرتی ہے، مشرف کا قانون اس کے منہ پر مار دیا، تم بے دخل کرو عوام مجھے داخل کرتے جائیں گے، منتخب وزیراعظم کو پھانسی دی گئی، ملک بدر کیا، اقامہ پر نکالا، قوم کو بتائیں نواز شریف نے کرپشن نہیں کی، ہماری تاریخ خود بول رہی ہے، ہمارا مسئلہ کیا ہے۔ میرے دل میں بھی غصہ ہے، اگر میں کہوں کہ نہیں ہے تو یہ منافقت ہے، منافقت مجھے آتی نہیں، منافقت سے نفرت کرتا ہوں۔
’’دل بغض حسد سے رنجور نہ کر
یہ نور خدا ہے اسے بے نور نہ کر،
رذیل کمینے کی خوشامد سے اگر جنت بھی ملے
تجھ کو تو قبول نہ کر‘‘
وکلاء کے کنونشن میں بارہ سوالات کئے تھے ایک کا بھی جواب نہیں ملا، ایک سوال آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں، آپ جانتے ہیں تمیز الدین کیس سے بے نظیر کیس کے فیصلے تک کیسے کیسے فیصلے آئے ان فیصلوں میں میرا عظیم فیصلہ بھی شامل ہے، ان فیصلوں میں ’’نظریہ ضرورت‘‘ ایجاد کیا‘‘، چلتے چلتے ضمناً موجودہ نامزد اور منتخب وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا یہ جملہ بھی ریکارڈ پر رکھ لیں۔ ’’ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے کا فیصلہ بھی عوام نے قبول نہیں کیا‘‘۔
احسن اقبال نے رینجرز کے واقعہ پر اپنے ردعمل میں کہا:
’’یہ بنانا ری پبلک نہیں ہے، ریاست کے اندر ریاست نہیں چل سکتی، گویا احسن اقبال کے کہنے میں ’’آئین کی بالادستی، ووٹ کی حرمت اور جمہوری تسلسل‘‘ کے پس منظر میں بقول نواز شریف’’ہماری تاریخ بول رہی ہے‘‘
تیسرے حوالے میں بھی تاریخ ہی بولی ہے مگر قوم کے سینے پر مونگ دلتے ہوئے۔ انگریزی زبان میں شاعرانہ نثر نگاری کے کالم نویس اور دانشور نے یہ تجویز دی ہے۔ ’’جنرل اشفاق ندیم ریٹائر ہو چکے ہیں۔ تقریباً تما م عسکری حلقے بشمول جنرل قمر باجوہ اس بات پر متفق ہیں کہ جنرل اشفاق ندیم کامیاب جنرل رہے۔ شاید موجودہ بحران کا تقاضا ہو کہ عبوری حکومت کی سربراہی ان کو سونپی جائے، ایسا ہو تو مفلوج زدہ حکومتی مشینری میں ایک دم جان آ جائے اور الیکشنوں تک عبوری حکومت کا دور پاکستان کی تاریخ میں شاید یاد رکھا جائے‘‘۔
اب آپ نواز شریف، احسن اقبال اور قومی سطح کے دانشور کی اس مثلث کے دو ضلعے ’’آئینی بالادستی، ووٹ کی حرمت اور جمہوری تسلسل‘‘ کی زوال پذیری پر آہ و فغاں کرتے نظر آتے ہیں اور قومی دانشور کو ریٹائرڈ جنرل کی سربراہی میں نگران حکومت پر عظمت کا تاج دکھائی دیتا ہے، یہی بحران ہے جسے نواز شریف اپنے تازہ بیانئے میں سامنے لاتے ہیں یعنی ’’ہماری تاریخ خود بول رہی ہے، ہمارا مقصد کیا ہے’‘‘
اور تاریخ کا ایک بولنا، ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے تذکرہ میں پوشیدہ چیخ کی صورت اپنے پورے وجود سمیت قومی افق کے ان تمام مناظر پر چھا گیا ہے، وقت نے جن کی تصویر کشی کا برش نواز شریف کے ہاتھ میں دے دیا ہے، اور نواز شریف برسوں پہلے ذوالفقار علی بھٹو کا مقابلہ کرنے کے لئے دائیں بازو سمیت ان تمام طبقوں کا انتخاب تھے جن سے 4؍اپریل 1979 کی رات سے پیدا شدہ سوالات آج تک نہیں پوچھے جا سکے، اس لئے کہ:’’خاموشی کی بھی اپنی ایک زبان ہوتی ہے!‘‘ مگر عدل کی تاریخی فطری ساخت میں فقہ گری کے مرتکبین ہار گئے، عدل کی فطری تاریخی جبریت ان کے سب سے بڑے لیڈر نواز شریف کو ذوالفقار علی بھٹو کا وکیل بنا کر میدان میں لے آئی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی بے گورو کفن میت آج بھی انصاف کی منتظر ہے دیکھتے ہیں قانونی مکافات عمل کی تکمیل ہوتی ہے یا نہیں؟
سوشل میڈیا مجموعی پیمانے پر ہماری اجتماعی معاشرتی تلپٹ کا ثبوت بن کر سامنے آیا ہے، انسانی ارتقاء کی راہوں پر گامزن افراد کی جدوجہد کے راستے میں بھی یہ ایک بڑی رکاوٹ ہے، ماضی میں ترقی پسندوں کو کم از کم ایسی کسی ٹیکنالوجی سے نبرد آزما نہیں ہونا پڑا تھا، استثنائی وقوعہ اس سلسلے میں نواز شریف کے نظریاتی آغاز کا ہے، پاکستان بھر کے جمہوریت پسند ترقی پسندوں کو، اپنے ماضی کے سارے دکھ جو انہوں نے پاکستان کی دھرتی اور پاکستانی عوام کے لئے برداشت کئے، ایک بار اور بھول کر نواز کی اس ’’نظریاتی جہت‘‘ کی حمایت میں کھڑے ہو جانا چاہئے۔
پاکستان پیپلز پارٹی اپنے مصائب کی یادوں اور عدم اعتماد کے ثبوتوں کی بنا پر حق بجانب ہے، سوال محض ذات اور ملک میں سے انتخاب کا ہے، کیا آپ کے میدان کارزار میں ایک ’’اضافے‘‘ سے آپ کو تقویت ملی ہے یا آپ کو ضعف پہنچا ہے؟ شریف سیریز ابھی جاری ہے!

تازہ ترین