ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال بیسوی صدی کے ایک معروف شاعر ، مصنف ، قانون دان، سیاست دان ، مسلم صوفی اور تحریک پاکستان کی نامور شخصیت تھے وہ اردو اور فارسی میں شاعری کرتے تھے ۔ شاعری میں بنیادی رجحان تصوف اور احیائے امتِ اسلام کی طرف تھا۔ علامہ اقبال کو دور جدیدکا صوفی سمجھا جاتا ہے۔ بحیثیت سیاستدان ان کا بنیادی کارنامہ نظریہ پاکستان کی تشکیل ہے جو انہوں نے 1930ء میں الہ آباد کے مقام پر پیش کیایہ نظریہ بعد میں پاکستان کے قیام کی بنیاد بنا۔علامہ اقبال 9 نومبر 1877ء کو سیالکوٹ میں شیخ نور محمد کے گھر پیدا ہوئے ۔ اقبال کے آبائو اجداد قبول ِ اسلام کے بعداٹھارویں صدی کے اختتام یا انیسویں صدی کے اوائل میں کشمیر سے ہجرت کر کے سیالکوٹ آئے۔ میر حسن کے زیر اثر اقبال کے دل میں سر سید کی محبت پیدا ہو گئی جو بعض اختلافات کے با و جود آخر دم تک قائم رہی ۔ مسلمانوں کی خیر خواہی کا جذبہ تو اقبال کے گھر کی چیز تھی۔ مگر میر حسن کی تربیت نے اس جذبے کو ایک علمی اور عملی سمت دی ۔ قدرت نے انہیں صوفی باپ اورعالم استاد عطا کیا جس سے ان کا دل اور عقل یکسُو ہوگئے ، دونوں کاہدف ایک ہی ہو گیا۔ یہ جو اقبال کے یہاں حِس اور فکر کی نادر یکجائی نظر آتی ہے ۔ اس کے پیچھے یہی چیز کا ر فرما ہے۔ 16برس کی عمر میں اقبال نے میٹرک کا امتحان فرست ڈویثرن میں پاس کیا تمغہ اور وظیفہ ملا۔
1899 میں اقبال نے ایف اے کیا اور مزید تعلیم کیلئے لاہورآگئے یہاں گورنمنٹ کالج میں بی اے کی کلاس میں داخلہ لیا انگریزی ، فلسفہ اور عربی کے مضامین منتخب کئے انگریزی اور فلسفہ گورنمنٹ کالج میں پڑھتے اور عربی پڑھنے کیلئے اورینٹل کالج جاتے جہاں مولانا فیض الحسن سہارنپوری جیسے بے مثال استاد موجود تھے ۔اقبال تقریباً 4سال تک اورینٹل کالج میں رہے۔ البتہ بیچ میں 6ماہ کی رخصت لیکر گورنمنٹ کالج میں انگریزی پڑھائی اعلیٰ تعلیم کیلئے کینیڈا یا امریکہ جانا چاہتے تھے۔ مگر آرنلڈ کے کہنے پر اس مقصد کیلئے انگلستان اور جرمنی کا انتخاب کیا۔
1903میں اسسٹنٹ پروفیسر انگریزی کی حیثیت سے اقبال کا گورنمنٹ کالج میں تقرر ہوا ۔ بعد میں فلسفے کے شعبے میں چلے گئے ۔
25دسمبر1905کو علامہ اقبال اعلی تعلیم کے لئے انگلستان چلے گئے۔ ابھی یہاں آئے ہوئے ایک مہینے سے کچھ اوپر ہوا تھا۔ کہ بیرسٹری کے لئے لنکنز ان میں داخلہ لے لیا اور پروفیسر برائون جیسے فاضل استاد سے رہنمائی حاصل کی۔ بعد میں آپ جرمنی چلے گئے جہاں میونخ یونیورسٹی سے آپ نے فلسفہ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ سر عبدالقادر بھی یہیں تھے۔ اسی زمانے میں کیمرج کے استادوں میں وانت ہید، میگ ٹیگرٹ، وارڈ، برائون اور نکلسن جیسی نادر اور شہرہ آفاق ہستیاں بھی شامل تھیں۔ برائون اور نکسن عربی اور فارسی زبانوںکے ماہر تھے آگے چل کے نکلسن نے اقبال کی فارسی مثنوی ’’اسرار خودی‘‘ کا انگریزی ترجمہ بھی کیا جو اگرچہ اقبال کو پوری طرح پسند نہیںآیا مگر اس سے انگریزی خواں یورپ کے شعری اور فکری حلقوں میں اقبال کے نام اور کام کا جزوی تعارف ہو گیا۔ میونخ یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کے لئے رجسٹریشن کروائی تاکہ جرمن زبان سیکھ کر میونخ یونیورسٹی میں اپنے تحقیقی مشاعرے کے بارے میں اس زبان کی تیاری ہو جائے۔ یہاں 4ماہ گزارے تھے کہ ایران میں مابعد الطبیعات کا ارتقا کے عنوان سے اپنا تحقیقی مقالہ جو پہلے ہی داخل کرا چکے تھے ۔ 2نومبر1908کو میونخ یونیورسٹی نے انہیں ڈاکٹریٹ دی۔ ڈاکٹریٹ ملتے ہی لندن واپس چلے آئے بیرسٹر ی کے فائنل امتحانوں کی تیاری شروع کر دی، جولائی 1908 کو نتیجہ نکلا کامیاب قرار دیئے گئے وطن آنے کیلئے روانہ ہوگئے۔ کچھ عرصہ بعد چیف کورٹ پنجاب میں وکالت شروع کردی البتہ بعد میں حکومت پنجاب کی درخواست اور اصرار پر 10مئی 1910 سے گورنمنٹ کالج لاہور میں عارضی طور پر فلسفہ پڑھانا شروع کر دیا۔ لیکن ساتھ وکالت بھی جاری رکھی وقت کے ساتھ مصروفیات بڑھتی گئیں کئی اداروں اور انجمنوں سے تعلق پیدا ہو گیا۔ ایک گورنمنٹ کالج ہی نہیں بلکہ پنجاب اور برصغیر کی کئی جامعات کے ساتھ بھی اقبال کا تعلق پیدا ہو گیا لالہ رام پرشاد پروفیسر تاریخ ، گورنمنٹ کالج لاہور کے ساتھ مل کر نصاب کی ایک کتاب تاریخ ہند مرتب کی آگے مختلف اوقات میں اورینٹل اینڈ آرٹس فیکلٹی اور سنڈیکیٹ کے ممبر بھی رہے۔ 1919کو اورینٹل فکلٹی کے ڈین بھی بنائے گئے 1923میں یونیورسٹی کی تعلیمی کونسل کی رکنیت ملی اس دوران پنجاب ٹیکسٹ بک کمیٹی کے بھی رکن رہے۔ 1923میں انہیں سر کا خطاب ملا۔ پنجاب یونیورسٹی سے اقبال عملاً 1932تک متعلق رہے 1930 میں صدر مسلم لیگ (جناح ) کی عدم موجودگی میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس اِلہ آباد کی صدارت علامہ اقبال نے کی، علامہ اقبال نے اپنے صدارتی خطاب میں ہندوستانی مسلمانوں کے مستقبل کے بارے میں دو ٹوک الفاظ میں فرمایا میں اس بات کا خواہش مند ہوں کہ پنجاب شمالی مغربی سر حدی صوبہ سندھ بلوچستان میں مسلمانوں کی آزاد مملکت قائم کی جائے۔ وہ خواب جسے علامہ اقبال نے دیکھا جو پوری ملت کی امنگوں آرزوں کی علامت بن گیا۔محمد اقبال حساس دل و دماغ کے مالک تھے آپ کی شاعری ہمیشہ بر صغیر کے مسلمانوں کے لئے مشعل راہ بنی رہے گی یہی وجہ ہے کہ کلام اقبال دنیا کے ہر حصے میں پڑھا جاتا ہے۔ اور مسلمانان برصغیر اسے بڑی عقیدت کے ساتھ زیر مطالعہ رکھتے ہیں اور ان کے فلسفے کو سمجھتے ہیں اقبال نے نئی نسل میںانقلابی روح پھونکی اور اسلامی عظمت کو اجاگر کیا ان کے کئی کتب کے انگریزی ، جرمنی ، فرانسیسی ، جاپانی ، چینی اور دوسری زبانوں میں ترجمے ہو چکے ہیں۔ اقبال کے جس خواب کو قائداعظم نے شرمندہ تعبیر کرتے ہوئے پاکستان حاصل کیا اس کی بقا اور ترقی ہماری ذمہ داری ہے۔ جس کے لئے ہمیں اپنی استطاعت کے مطابق کوشش کرنا ہوگی تاکہ وطن عزیز ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکے۔