چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے کہا ہے کہ ایک معاہدے کے نتیجے میں وزیر قانون کو مستعفی ہونا پڑا اور وزیراعظم جدہ چلے گئے، انہوں نے استفسار کیا کہ کیا جدہ ملک سے زیادہ اہم ہے ؟
دھرنا قائدین سے معاہدے پر سینیٹ حکومت کا جواب نہ ملنے پر رضا ربانی نے شدید برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ ملک میں 22 دن سے دھرنا تھا،حکومت کو آرٹیکل 245 کے تحت فوج کو بلانا پڑا پھر معاہدہ کیا گیا۔
ان کا مزید کہناتھاکہ اس سے قبل رکن پارلیمنٹ کا سر پھٹا، ان کے گھروں پر حملے کیے گئے، قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کو یرغمال بنا لیا گیا، اتنی اہم بات پر پارلیمنٹ کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔
چیئرمین سینیٹ نے یہ بھی کہا کہ وزیر اعظم کہاں ہیں؟، وزیر اعظم کو ایوان میں آنا چاہیے تھے، ریاض کانفرنس زیادہ اہم ہے یا ملک کے اندر کی صورتحال؟ حکومت بیک فٹ پر ہے، اس میں مزید اضافہ نہیں کرنا چاہتا۔
رضا ربانی نے کہا کہ دھرنے کا نیا رجحان نہ صرف سیاست اور جمہوریت بلکہ ریاست پاکستان کے لیے تباہ کن ہے، اس خطرناک رجحان کو روکنے کے لیے تمام سیاسی قوتوں، دانشوروں، ماہرین کو بیٹھ کر ایک نیا بیانیہ بنانا ہوگا۔
ان کا کہناتھاکہ حکومت کو پارلیمنٹ سے ہی طاقت ملتی ہے، لیکن حکومت اسے اہمیت ہی نہیں دیتی ، وزیر داخلہ اور وزیر اعظم کہاں ہیں؟ ایوان کو بتایا جائے کہ آرمی کو کیوں بلایا گیا؟ کیا حالات تھے جس میں یہ معاہدہ کیا گیا؟
چیئرمین سینیٹ نے یہ بھی کہا کہ اس خطرناک رجحان کو روکنے تمام سیاسی قوتوں ، دانشوروں ، پیشہ ور افراد کو بیٹھ کر ایک نیا بیانیہ بنانا ہو گا، پارلیمنٹ کا عزم ہے کہ ریاست کی جو رٹ متاثر ہوئی ہے ، پارلیمان اسے بحال کرے گی، ملک میں وہی نظام رائج رہے گا جو 1973 کے آئین میں دیا گیا ہے۔
قائد ایوان راجہ ظفر الحق نے کہا کہ بدقسمتی ہے کہ یہ صورتحال پیدا ہوئی، حکومت کو سارے حقائق کے ساتھ ایوان کے سامنے پیش کرنا چاہیے، اس مسئلے پر مکمل اور تفصیلی بحث ہونی چاہیے۔
سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ اگر آرمی چیف نے مشورہ دینا تھا تو بے شک وزیر اعظم سے بات کر لیتے، لیکن بات کرنے کے بعد پریس ریلیز جاری نہیں ہونی چاہیے تھی، پاکستان کی سیاسی تاریخ میں دھرنے حقیقت بن گئی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پہلے 2013, پھر 2014,2016 اور اب 2017 میں دھرنا ہوا،ہر دفعہ کا دھرنا پہلے سے زیادہ پرتشدد اور تباہ کن بن جاتا ہے۔
فرحت اللہ بابر نےکہا کہ دھرنوں کے پیچھے کون تھا ؟ تمام دھرنوں کی جوڈیشل انکوائری ہونی چاہیے۔