سب سے بڑا حاکم، جس کا کلام سب سے بہترین۔ وہ فرماتا ہے کہ ’’ اور ہم نے تمہیں تمام جہان کے لوگوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے‘‘ ۔آپ ﷺ سراپا رحمت تھے۔ آپ ؐ کی اس خوبی کو قرآن عظیم الشان میں بیان کرتے ہوئے ہمارے رب نے کہا کہ ’’ اے پیغمبر ؐ یہ اﷲ کی بڑی رحمت ہے کہ تم اِن لوگوں کے لئے بہت نرم مزاج واقع ہوئے ہو ورنہ اگر کہیں تم سنگ دل ہوتے تو یہ سب تمہارے گردو پیش سے چھٹ جاتے‘‘ ۔
ایسی رحمت جسکے سائے میں اپنے ہی نہیں غیر بھی پناہ لے کے عافیت محسوس کرتے تھے۔کفار و مشرکین ہی نہیں چرند و پرند کیلئے بھی وہؐ سراپا رحمت تھے۔ خود پر کوڑا کرکٹ پھینکنے والی کے وہ ؐتیمار دار تھے۔ طائف میں پتھر مار کر لہو لہان کر دینے والوں کے لئے وہ ؐسراپا خیر تھے۔ اپنے محبوب ترین چچا حضرت حمزہ ؓ کے قاتلوں کو جس نے معاف کردیا تھا۔شعب ابی طالب میں آپ کو محصور رکھا گیا۔ آزمائش کے ان دنوں کو آپؐ نے مشکل ترین قرار دیا۔ انھی لوگوں نے آپ اور آپ کے جانثاران کا مکہ میں جینا محال بنا دیا تو آپ نے مدینہ ہجرت کر لی۔ مسلسل عذاب میں مبتلا کرنیوالوں پر آپ ؐ نے جب فتح پائی تو ان ظالم مشرکین کو امان دی اور اپنی رحمت کی آغوش میں لے لیا۔ اپنے بدترین دشمن ابوسفیان کے گھر پناہ لینے والوں کیلئے معافی کا اعلان فرمایا۔ہم اس نبیؐ کے امتی ہیں جو رحمت اللعالمین کہلاتے ہیں۔سارے جہانوں کیلئے رحمت۔
آپؐ کی صفات کو مولانا حالی نے کیا خوبصورتی سے رقم کیا۔
وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
مرادیں غریبوں کی بر لانے والا
مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا
وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا
فقیروں کا ملجا ضعیفوں کا ماوی
یتیموں کا والی غلاموں کا مولا
خطا کار سے درگزر کرنے والا
بد اندیش کے دل میں گھر کرنے والا
مفاسد کو زیر و زبر کرنے والا
قبائل کو شیر و شکر کرنے والا
اتر کر حِرا سے سوئے قوم آیا
اور اک نسخہ کیمیا ساتھ لایا
مسِ خام کو جس نے کندن بنایا
کھرا اور کھوٹا الگ کر دکھایا
عرب جس پہ قرنوں سے تھا جہل چھایا
پلٹ دی بس اک آن میں اس کی کایا
رہا ڈر نہ بیڑے کو موجِ بلا کا
اِدھر سے اُدھر پھر گیا رخ ہوا کا
آپؐ نے فرمایاکہ ’’ تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کے باپ ، اس کے بیٹے اور دوسرے تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں‘‘ ۔ اس حدیث میں واضح کر دیا گیا کہ ایمان کا معیار اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ دنیا و مافیہا کی ہر شے سے بڑھ کر حضورؐ کی ذات سے محبت ہے اور جب تک یہ کیفیت پیدا نہ ہو کوئی شخص نام کا مسلمان تو ہو سکتا ہے مومن نہیں ہو سکتا۔ایک دفعہ حضور نبی اکرم ؐکی بارگاہ میں سیدنا عمر فاروق ؓبیٹھے ہوئے تھے کہ آپ ؐنے پوچھا : اے عمر ! تمہیں مجھ سے کتنی محبت ہے؟ حضرت عمر جو ابھی مرحلہ تربیت سے گزر رہے تھے نے جواب دیا حضور ! مجھے سب سے بڑھ کر آپ کی ذات سے محبت ہے مگر بعض اوقات محسوس ہوتا ہے کہ اولاد کی محبت آپ کی محبت سے قدرے زیادہ ہے۔ حضورؐ نے فرمایا اے عمر ! اگر یہ بات ہے تو تمہارا ایمان ابھی مکمل نہیں ہوا۔ اس فرمان کے بعد حضرت عمر ؓ کے دل کی کایا پلٹ گئی، یہاں تک کہ ان کے دل میں حضور ؐ کی محبت دیگر تمام محبتوں پر غالب آ گئی اور وہ بے ساختہ پکار اٹھے رب ذوالجلال کی قسم ! اب آپؐ کی محبت مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ ہے اور مرتے دم تک کبھی کم نہیں ہو گی۔اس پر آپ ؐ نے حضرت عمرکا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : اب تمہارا ایمان مکمل ہوا۔یہ بات ہمیں اچھی طرح معلوم ہونی چاہئے کہ رسولؐ کے ساتھ جس محبت کا تذکرہ کیا گیا ہے، اس سے مقصود محض جذباتی محبت نہیں ہے جیسی انسان کو فطری طور پر اپنے بیوی بچوں یا اپنے دیگر اقرباکے ساتھ ہوتی ہے۔ بلکہ یہ وہ عقلی اور اصولی محبت ہے جو ایک شخص کو نہ صرف کسی اصول اور مسلک کے ساتھ ہوا کرتی ہے، بلکہ یہ جزو ایمان بھی ہے۔ جس کی بنا پر وہ اپنی زندگی میں ہر جگہ اسی اصول اور اسی مسلک کو مقدم رکھتا ہے، اس محبت پروہ ہرچیز ،اصول،خواہش اور حکم کو قربان کر دیتا ہے ۔ محبت رسول میں وہ کسی ڈر، خوف اور لالچ کا شکار نہیں ہوتا۔سچا مسلمان سب چیزوں کو پس پشت ڈال دیتا ہے مگر محبت و احکامات رسولؐ کو کسی حالت میں بھی پست دیکھنا گوارا نہیں کرتا۔ اگر اس راہ میں خود اس کا اپنا نفس مزاحم ہوتا ہے تو وہ اس سے بھی لڑتا ہے، اگر دوسرے اس سے مزاحم ہوتے ہیں تو ان کا بھی وہ مقابلہ کرتا ہے، اس محبت کی راہ میں وہ بڑی سے بڑی قربانی دینے کے لئے تیار رہتا ہے، حتی کے جان کی قربانی کو بھی اپنے لئے اعزاز ہی نہیں دنیا و آخرت کی کامیابی کا ذریعہ سمجھتا ہے۔کس شاندار کردار کے ساتھی آپؐ کو میسر آئے تھے، کیسا عشق رسولؐ تھا ان لوگوں کو۔؟غزوہ احد میں مسلمان تیر اندازوں کے اپنے مقام سے ہٹ جانے کے سبب جب خالد بن ولید کے دستے نے عقب سے حملہ کرکے بہت نازک صورت حال پیدا کر دی تو آپؐ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کو تیر دیتے جاتے اور فرماتے اے سعد تجھ پر میرے ماں باپ قربان تیر چلاتے جا۔ حضرت علی کہتے ہیں حضور ؐ نے کسی اور صحابی کو کبھی اس طرح مخاطب نہیں کیا۔مدینہ سے دور وادی قرن میں اویس قرنی کو آپؐ کے ایک دانت مبارک کی شہادت کی اطلاع ملتی ہے تو صحیح معلوم نہ ہونے کی وجہ سے کہ کونسا دانت شہید ہوا ہے ، اویس اپنے سب دانت شہید کر دیتے ہیں۔ ان عاشقان پاک طینت ساکوئی مائی کا لعل تاریخ نے پھر نہ دیکھا۔ کہاں وہ اور کہاں ہم ۔؟آپؐ کے واضح فرمان کہ ’’ مسلمان وہ جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں ‘‘ ۔ ہم نے عشق رسول کے نام پر اسلام کے نام پر قائم ملک میں دھرنا دیکر لوگوں کی زندگی اجیرن بنا کر رکھ دی اور گالم گلوچ کا ایسا بازار گرم کیا کہ الامان الحفیظ ۔ مگر سچ تو یہ کہ دوش ان ہی کو کیوں دیا جائے ریڑھی بان تک یہ سمجھتا ہے کہ یہ سب اداروں کی باہمی چپقلش کا کیا دھرا ہے۔آپ جب یہ مانتے ہیں کہ ختم نبوت کے حوالے سے حلف نامے میں تبدیلی کا جرم سرذد ہوا تو اپنی پارٹی کے چئیرمین راجہ ظفرالحق کی تحقیقی رپورٹ کو سامنے لانا چاہئے تھا۔ اس دانستہ یا نادانستہ جرم کے حامل ذمہ دار، وزیر ہو یا کوئی اور اس کو کیفر کردار تک کیوں نہیں پہنچایا گیا۔؟ ان ہی وجوہات کی وجہ سے اسلام آباد میں موجود شورش پورے ملک میں پھیل گئی۔