• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملکی سطح پر تکنیکی ماہرین پر مشتمل حکومت کے فوائد ان دنوں کافی زیر بحث ہیں ۔ بہت سےلوگوں کا یہ خیال ہے کہ تکنیکی ماہرین کی حکومت کے قیام کیلئے جمہوریت کو کالعدم قرار دینا ضروری ہےجبکہ یہ درست نہیں ہے ۔ مثلاً ہمارے موجودہ وزیراعظم بھی زراعت، انجینئرنگ، صحت، سائنس ، معاشیات اور دیگر شعبوں میں ملک کے ممتاز ماہرین کو کا بینہ میں وزیر بنا سکتے ہیں اور اس طرح تکنیکی حکومت تشکیل دے سکتےہیں۔ یہ موجودہ رائج پارلیمانی نظا م جمہوریت میں موجود ہ آئین کے تحت بھی یہ کیا جا سکتا ہے اور صدارتی نظام جمہوریت کے تحت بھی کیا جاسکتا ہے ، صدارتی نظام جمہوریت کیلئے صدر کے انتخاب کی ضرورت ہو گی جو کہ براہ راست عوامی ووٹ سے بنایا جا سکتا ہے پھرصدر اپنی کابینہ کے اراکین کا انتخاب کرے گا اس کیلئے ضروری نہیں ہوگا کہ یہ وزیر پہلے سینیٹ یا پارلیمنٹ کیلئے منتخب ہوں۔ یہ صدارتی نظام کی بہت بڑی خوبی ہے کیونکہ پاکستا ن میں قابل اور نیک افراد کی کمی نہیں لیکن وہ موجودہ کرپٹ الیکشن کے نظام کو ناپسند کرتے ہیں۔اس طرح کے عمل کو ایک آئینی ترمیم کی ضرورت پڑے گی، لیکن یہ عمل تب بھی مکمل طور پر جمہوری ہو گا ۔
اس طرح کی تبدیلی فوری اور ضروری کیوں ہے؟ اسلئے کہ اب سماجی و اقتصادی ترقی کے لئےماہرین کا وزیر اور سکریٹری ہونا بہت اہم ہوگیا ہے۔ ایک علم پر مبنی معیشت میں منتقلی کےلئے ہمیں کابینہ میں بہترین ماہرین کی ضرورت ہے نہ کہ بدعنوان سیاست دانوں کی علم پر مبنی معیشت میں منتقلی ایک بہت ہی پیچیدہ عمل ہے جس کیلئے تقریبا ًہر قومی سرگرمی میں بنیا دی پالیسی تبدیلیوں کی ضرورت ہوتی ہے جس کیلئے تعلیم، سائنس، ٹیکنالوجی،جدت طرازی اور تجارتی مہم جوئی میں تبد یلیاں سر فہرست ہیں ۔ ہم سنگاپور، کوریا، تائیوان اور فن لینڈ سے سیکھ سکتے ہیں ۔ چھوٹے سے سنگاپور ہی کو لے لیں جہاں کوئی قدرتی وسائل نہیں لیکن انہوں نےاعلی تکنیکی مصنوعات کی برآمد پر اور خصوصی طور پر انسانی وسائل کی ترقی پر توجہ مرکوز کی اور نتیجہ حیران کن ہے یعنی ، 330 ارب ڈالرسالانہ مالیت کی برآمدات ایک ایسے ملک سے جس کی آبادی کراچی کی آبادی سے تقریباً ایک چوتھائی ہے ۔ اس کے مقابلے میں پورے پاکستان کی برآمدات صرف 21ارب ڈالر تک ہی محدود ہیں ۔ ہماری موجودہ قیادت عمومی طور موجود قدرتی وسائل پر مبنی معیشت سے ایک علم پر مبنی معیشت میں منتقلی کو سمجھنے سے بالکل قاصرہے ۔ دراصل تحقیقی ادارے، نجی شعبے اورحکومت تین اہم ستون ہیں اور انکے متحرک ہونے سے ہی غربت کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔لیکن اس نظام کو چلانے کیلئے بہترین ماہرین کی قیادت بطور ، وزراء سیکریٹری اور قومی اداروں کے سربراہ کی ضرورت ہے ۔
پاکستان کی متعدد حکومتیں دور حاضر کے مطابق سماجی و اقتصادی ترقی کے عمل میں جدت طرازی کے کلیدی کردار کا ادراک کرنے میں ناکام رہی ہیں ۔ قومی ترقیاتی بجٹ برائے سائنس اور ٹیکنالوجی کی قلیل ترین مختص کردہ رقم (صرف دو ارب روپیہ) اس حقیقت کی بھر پور عکاسی کرتی ہے۔ جبکہ ہم اس سے سو گنا سے زیادہ رقم بسوں کی اسکیموں میں خرچ کر رہے ہیں ۔ دوسری طرف دنیا میں اعلیٰ درجے کی جامعات اور تحقیقی مراکز میں تحقیق اعلیٰ پیمانے پر کی جارہی ہے اوران سے حاصل کردہ مصنوعات ملکی برآمدات کو فروغ دے رہی ہیں ۔ جبکہ ہم اپنے ملک کی جانب دیکھتے ہیں تو معلوم ہو تا ہے پاکستان ا ب تک چاول یا سبزیوں کی پیداوار کیلئے بھی با ہر کے ممالک سے بیج درآمد کرتا ہے ۔ موٹر گاڑیوں کے انجن مغرب میں گذشتہ صدی کے ابتدائی دورسےتیار کئے جا رہے ہیں لیکن ہم اب بھی ایک چھوٹا سا ابتدائی زمانے کا انجن بھی تیار کرنے کے کے قابل نہیں ہیں ۔ انجینئرنگ کے میدان میں خصوصی دھاتوں کی ضرورت ہے لیکن ہم انہیں بھی تیار کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے اسی طرح دواسازی کی صنعت کو لے لیجئے ہم دواؤں کا کوئی بھی بنیادی جزوبھی خود تیار نہیں کر سکتے۔ ہم ہر جز درآمد کر کے پیک کرکے فروخت کر تے ہیں جبکہ ہندوستان نے اس میدان میں بہت ترقی کرلی ہے۔ہماری زرعی پیداوار بھارت اور مصر ی فصلوں کی پیداوار سےصرف نصف یا ایک تہائی ہے ۔ ہمارے ملک میں گائے اور بھینسوں سے دودھ کی پیداوار اسرائیل یا آسڑیلیاکی پیداوارسے آدھی یا ایک چوتھائی ہے ۔ میں ایک ہزار مثالیں دے سکتا ہوںکہ ہماری پسماندہ معیشت کوتبدیل کرکےایک علم پر مبنی معیشت کی تعمیر کیلئے پاکستان مختلف شعبوں میں کیا کچھ کر سکتاہے ، مثلاً مصنوعی ذہانت لے لیجئے ۔
اب مصنوعی ذہانت صنعتی سامان سازی کے عمل، طب، صحت عامہ، ذرائع آمدورفت، مواصلات، زراعت اور جنگ وجدل سمیت انسانی سرگرمیوں کے ہر دائرے کا ر پر اثر انداز ہو رہی ہے ۔
مصنوعی ذہانت کے ذریعے ماحولیات ، کاروبار یا دیگر شعبوں سے متعلق اعدادوشمار، ا ان کے منطقی نتائج اور مستقبل کی حکمت عملی کے بارے میں فوری طور تجزیہ کیا جا سکتا ہے ۔ دنیا بھر میں ادراک کا نظام بہت تیز شرح سے بڑھ رہا ہےاور اس بڑھتی ہوئی کاروباری و حکومتی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے نئےسافٹ ویئر پلیٹ فارم اپنانے کی ضرورت ہے۔ ایک شعبہ جس میں ہم جلد ہی مصنوعی ذہانت کے اثرات کا مشاہدہ کریں گے وہ ہےخود کار موٹر گاڑیوں کا میدان ۔ تمام بڑی گاڑیاں بنانے والی کمپنیاں اس میدان میں کام کر رہی ہیں کیونکہ وہ یہ جانتی ہیں کہ جس برق رفتاری سے اس شعبے میں ترقی ہو رہی ہے اس کے پیش نظر جلد ہی روایتی گاڑیاں تیار کرنے والی کمپنیاں زوال پذیر ہو جائیں گی ان کی جگہ خود مختار ٹیکسی کمپنیاں مثلاً اوبر (Uber) وغیرہ کی جانب سے نہایت کم نرخوں میں دستیاب ہونگی ۔ گوگل، ٹیسلا (tesla)اور دیگر کمپنیاں بڑے پیمانے پر اس میدان میں سرمایہ کاری کر رہی ہیں یہ پیش گوئی کی جارہی ہے کہ پٹرول یا ڈیزل والی گاڑیاں 2 دہائیوں کے اندر اندر غائب ہو جائیں گی اور خود مختار برقی گاڑیاں ان کی جگہ لے لیں گی ۔
اب ا سکائپ نے ایک مصنوعی ذہانت پر مبنی مترجم تیار کیا ہے جس کے ذریعے کسی بھی زبان میں کسی بھی شخص سے بات کی جا سکتی ہے۔ یہ از خود سیکھنے کا آلہ ہےجو کہ ’’مشین لرننگ الگورتھم‘‘استعمال کرتا ہے ۔ یہ’’چیٹ بوٹ‘‘ کے ذریعے صارفین کو بروقت ترجمہ کرنے کی سہولت فراہم کرتا ہے۔ مصنوعی ذہانت استعمال کرتے ہوئے اب ہم انٹرنیٹ پر دوسری زبانوں کے حامل صارفین سے بات چیت کر سکتے ہیں اور سمجھداری سے ان کےتمام سوالات کے جواب اپنی زبان میں دے سکتے ہیں۔اب بڑی کمپنیاں بھی ’’چیٹ بوٹ ‘‘کی خدمات حاصل کررہی ہیں ۔ ’’چیٹ بوٹ ‘‘کا استعمال ٹکٹ کی بکنگ، ہوٹل اور ایئر لائن خدمات، طبی اور قانونی خدمات فراہم کرنے والی کمپنیاں کر یں گی کیونکہ جب صارفین کو ڈیجیٹل معاونت اور فوری خدمات پیش کی جائیں گی تو گاہکوں کے اطمینان میں اضافہ ہوگا جس کی وجہ سے فروخت بڑھے گی ۔مصنوعی ذہانت کی موجودگی میں مستعد اور سستی خدمات کی دستیابی کی وجہ سے اچھے پیشہ ور ڈاکٹروں، وکیلوں اور اکاؤنٹنٹس کو اپنی نوکریوں کاخطرہ لاحق ہو جائے گا۔ IBM نے پہلے ہی ایک طاقتور، ذہین کمپیوٹر ’’واٹسن‘‘تیار کر لیا ہے جو طبی اور قانونی خدمات پیش کرہا ہے ۔ مثال کے طور پر، سر طان ایک تباہ کن مرض ہے، اور سرطان کے ماہر ڈاکٹروں نے اکثر مریضوں میں یہ پایا ہے کہ مخصوص علاج کے بعد بہت سے صحت یا ب نہیں ہوتے اور بہت سے صحت یا ب ہوجاتے ہیں ۔ یہ اس لئے ہوتا ہے کہ ہم مختلف جینیاتی تانے بانے سے بنے ہوئے ہیں اور انفرادی ادویات کا ردعمل مختلف طریقے سے کرتے ہیں ۔ سرطان کے ماہرین اکثر صحیح علاج کو منتخب کرنے کیلئے مریض کی جینیاتی تشخیص پر بھروسہ کرتے ہیں ۔ IBM کا واٹسن یہ کام نہایت تیزی اور درستگی سے کر سکتا ہے اوراس طرح مختلف ادویات کو بار بار آزمانے کی ضرورت نہیں پڑتی اور قیمتی وقت کی بھی بچت ہو جاتی ہے۔
او آئی سی رکن ممالک میں صرف ترکی، ایران اور ملائیشیا نے تعلیم میں بھاری سرمایہ کاری کی وجہ سے تیزی سے ترقی کی ہے ۔اس تفریق کا اندازہ اس طرح بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک اپنی جی ڈی پی کا ، 2 سے 4 فیصد حصہ سائنس اور ٹیکنالوجی پر خرچ کرتے ہیں اس کے مقابلے میں اوسطاً او آئی سی کے رکن ممالک اپنے GDPکا0.46فیصد حصہ خرچ کرتے ہیں ۔ عالم اسلام کی ایک بھی جامعہ کا شمار دنیا کی چوٹی کی 100 جامعات میں نہیں ہوتا۔ او آئی سی کے رکن ممالک میں سائنسدانوں کی افرادی قوت فی ملین آبادی صرف صرف 649 افراد فی ملین ہے جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں یہ آبادی 3,780 افراد فی ملین ہے (دنیااوسط شر ح 2,53 2 فی ملین ہے) ۔ اسلامی دنیا کی بیشتر پیٹنٹ کی درخواستیں ، ایران، ملائیشیا، ترکی اور انڈونیشیا سے آتی ہیں۔ ہماری حکومت کو جاگنے اور اپنے متعلقہ شعبوں میں بہترین ذہنوں اور ملک کے سب سے بہترین ماہرین کے تقرر کی ضرورت ہے تاکہ وہ ایک مضبوط علم پرمبنی معیشت قائم کر سکیں ۔ غرض تکنیکی ماہرین کی حکومت وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ ہمیں اب فوری عمل کرنا ہے اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔

تازہ ترین