کراچی (اسٹاف رپورٹر) سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے اربوں روپے خورد برد کرنے میں ملوث سابق صوبائی وزیراطلاعات ونشریات اور پیپلز پارٹی کے رہنما شرجیل انعام میمن کو بیماری کی آڑ میں اسپتال منتقل کرنے پر شدید برہمی کا اظہارکرتے ہوئے ریمارکس میں کہاکہ سندھ میں امیر اور غریب کیلئے امتیازی قانون بنا رکھا ہے اگر ایسا ہی ہے تو پھر ہم اپنا اختیاراستعمال کرتےہوئے شرجیل انعام کا ٹرائل پنجاب میں منتقل کردیتے ہیں، ازخود نوٹس لینے پر مجھے تنقید کا نشانہ بنایا جارہاہے ،سوموٹو لینے سے ہی لوگوں نے ایف بی آر میں 6.2بلین روپے رضاکارانہ طورپرجمع کرائے، ایک سال تک خاموش رہا ،تعلیم ،لیڈرشپ اور آزاد عدلیہ سے کوئی بھی ملک دنیا میں ترقی کرسکتا ہے، ہمارے ہاں تعلیم کی پالیسی وہ بناتے ہیں جن کے اپنے بچے باہر ملک تعلیم حاصل کرتےہیں ،سندھ کے 4530اسکولوں میں پینے کا پانی دستیاب نہیں ہے، میرے خواب پورے ہوں نہ ہوں کوئی پروا نہیں، فائٹرہوں لڑتا رہوں گا، اب کوئی معافی نہیں ہوگی، غیر مشروط معافی پر معافی دینا سپریم کورٹ نے بند کردی، جانتا ہوں ، اقدامات کا کیا نتیجہ ہوگا۔ سپریم کورٹ کے حکم پر شرجیل انعام میمن کو اسپتال سے جیل منتقل کرکے سپریم کورٹ کو آگاہ کردیا،چیف جسٹس نے بیماری کی آڑ میں اسپتالوں میں زیرعلاج تمام قیدیوں کی تفصیلات طلب کرلی ہیں، فٹ پاتھ اسکول کو متبادل جگہ فراہم کرنے تک نہ ہٹانے کا حکم ،سپریم کورٹ نے آصف حیدر علی شاہ کو سیکرٹری پبلک ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ تعینات کرنے کا حکم دے دیا۔چیف جسٹس نے جناح اسپتال کا اچانک دورہ کیا اس موقع پر اسپتال کی ڈائریکٹر سیمی جمالی سے کہا کہ مجھے اسپتال میں ہر مشین اور ٹیسٹ چاہیے، حلف نامہ لکھ کر دیں ساری سہولتیں موجود ہیں،اگر آپکے عزیز حق نہیں دے رہے تو ہم دلواتے ہیں۔سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ واٹر کمیشن درست سمت میں جارہا ہے، کراچی میں بہتری لائینگے۔ عدالت نے شاہ رخ جتوئی کو جیل بھیجنے کا حکم اور ٹیٹرا پیک دودھ والی دو کمپنیوں سے پابندی اٹھا لی۔ تفصیلات کے مطابق ہفتہ کو چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں لارجر بینچ کے روبرو فراہمی ونکاسی آب ،شرجیل انعام میمن اور شارخ جتوئی کی جیل سے اسپتال منتقلی، کلفٹن فٹ پاتھ اسکول، سرکاری اسپتالوں کی ابتر صورتحال، ائیرپورٹس سے سامان غائب ہونے،بل بورڈز اور ڈبے والے دودھ سے متعلق اہم مقدمات کی سماعت ہوئیں۔ لارجر بینچ میں جسٹس فیصل عرب اور جسٹس سجاد علی شاہ بھی شامل تھے۔ سماعت کے دوران چیف سیکرٹری سندھ، سیکرٹری صحت فضل اللہ پیچوہو،سیکرٹری تعلیم ڈاکٹر اقبال درانی ،جناح اسپتال کی ڈائریکٹر سیمی جمالی ،آئی جی جیل خانہ جات نصرت مگھن سمیت دیگر درخواست گزار بھی موجود تھے، سماعت کا آغاز فراہمی ونکاسی آب کیس سے ہوا۔ اس موقع پر درخواست گزار شہاب اوستو نے کہا کہ واٹر کمیشن کی کارروائی کے نتیجےمیں بڑی پیش رفت سامنے آئی ہیں۔ چیف جسٹس نے پبلک پبلک ہیلتھ سیکرٹری کسے بنایا گیا ہے ،آصف حیدر شاہ کون ہیں ان کی بڑی تعریفیں ہم نے سنی ہیں انہیں کیوں نہیں تعینات کیا جارہا؟ چیف سیکرٹری نے کہاکہ جی ہاں یہ واقعی اچھی شہرت کے حامل ہیں ،آصف حیدر شاہ وزیراعلیٰ سندھ کے بہنوئی ہیں۔ چیف جسٹس نے کہاہم آپ کو آپ کا اپنا ہی بندہ دے رہے ہیں آج ہی تعینات کریں،ہم چاہتے ہیں کہ اس اسامی پر ایک متحرک اور بااختیار افسرتعینات ہو، چیف جسٹس نے ریماکس دیئے آج بھی شہر میں کچرا موجود ہے، 4 ہزار سے 7 ہزار ٹن کچرا بڑھ گیا۔ چیف سیکرٹری نے کہا کہ کراچی میں روز کچرے کی مقدار بڑھ رہی ہے۔ چیف جسٹس نے ریماکس دیئے کراچی میں بہتری لائیں گے۔ چیف سیکرٹری نے کہا یہ آپ کی طرف سے کراچی والوں کے لیے تحفہ ہوگا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم معاملات میں زیادہ مداخلت نہیں کریں گے، سندھ حکومت صورتحال کو خود سے بہتر بنائے۔ چیف جسٹس نے ریماکس دیئے ہوئے کہا کہ واٹر کمیشن درست سمت میں جا رہا ہے۔ پبلک ہیلتھ انجینیرنگ کی کارکردگی اچھی نہیں سپریم کورٹ نے آصف حیدر علی شاہ کو ڈائریکٹر پبلک ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ تعینات کرنے کا حکم دیتے ہوئے واٹر کمیشن کی سماعت 2 ہفتے کے لیے ملتوی کردی۔اس کے بعد سپریم کورٹ نے پی آئی اے میں مسافروں کے سامان کے غائب ہونے سےمتعلق ڈائریکٹر جنرل ہیومن رائٹس کومعاون مقرر کرتے ہوئے 3 دن میں رپورٹ پیش کرنے کا حکم دے دیا ،اس موقع پرسول ایوی ایشن کے ایڈیشنل ڈائریکٹر پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے ریماکس دیئے آپ مسافروں کا سامان غائب کردیتے ہیں،بتائیں پی آئی اے میں کیا بہتری لائی گئی۔ بیرون ملک سے لوگوں ائیرپورٹ پہنچتے ہیں تو ان کا سامان غائب ہوجاتا ہے۔ معاملات کو بہتر بنانے کے کیے ریگولیٹری باڈی بنائی جائے۔ عدالت نے ڈائریکٹر جنرل ہیومن رائٹس کومعاون مقرر کردیا۔ چیف جسٹس نے ریماکس دیئے کارکردگی کیسے بہتر بنائی جا سکتی؟ ہمیں روز روز آپ کو عدالت بلانا اچھا نہیں لگتا۔اس کے بعد شاہ ذیب قتل کیس میں سزائے موت پانے والے شاہ رخ جتوئی اور سابق وزیر شرجیل میمن کی جیل سے اسپتال منتقلی سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت کی۔ چیف جسٹس کے حکم پر نصرت مگن نے شاہ رخ جتوئی کی میڈیکل رپورٹ پڑھ کر سنائی۔ آئی جی جیل نصرت مگن نے کہا کہ شاہ رخ جتوئی کو سینے میں تکلیف کی وجہ سے جیل منتقل کیا گیا تھا۔ ڈاکٹرز نے دل اور بلڈ پریشر بھی ڈائگنوز کیا تھا۔ چیف جسٹس نے نصرت مگن سے میڈیکل رپورٹ طلب کی جس کا جائزہ لینے کے بعد چیف جسٹس نے استفسار کیا مگر شاہ رخ جتوئی کو دل کا مسئلہ تو نہیں نکلا نا ؟ سینے میں تکلیف تھی مگر اسے تو بواسیر نکل آیا۔ چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جناح اسپتال کے ڈاکٹر شاہد رسول کہاں ہیں میں نے کل رات سات بجے اپنے اسٹاف کے زریعے آج بلایا تھا، چیف جسٹس نے ریماکس میں کہا کہ جب سرجری کا کیس نہیں تھا تو 2 ہفتے اسپتال میں رکھنے کی تجویز کس نے دی ؟ نصرت مگن نے بتایاکہ شارخ جتوئی اس وقت اسپتال میں نہیں اسے کل رات ہی جیل منتقل کردیاگیاہے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر کل رات کو واپس جیل منتقل کیا تو کس کے کہنے پر کیا ؟ چیف جسٹس نے ریماکس دیئےکہ سندھ غریب کیلئے دوسرا قانون اور امیر کیلئے کچھ اور قانون نہیں چلے گا۔ چیف جسٹس نے نصرت مگن سے استفسار کیا کہ کہاں رکھا ہے شاہ رخ جتوئی کو ؟ کال کوٹھری میں رکھا ہے ؟ نصرت مگن نے کہا کہ سی کلاس میں رکھا گیا ہے، چیف جسٹس نے کہاکہ سی کلاس میں کیوں رکھا ہے قتل کے مقدمے میں سزائے موت والے قیدی کو؟ نصرت مگن نے کہاکہ نئے وارنٹ میں صرف ملزم لکھا ہے جس پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے آئی جی جیل خانہ جات سے استفسار کیا کہ آپ کب سے آئی جی جیل ہو ؟ تمہیں معلوم نہیں وہ سزائےموت کا قیدی ہے۔ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ سزائےموت کا مجرم ہے وہ ؟ چیف جسٹس نے ریماکس دیئے شاہ رخ جتوئی تو جیل میں کبھی نہیں رہا وہ مسلسل اسپتال میں ہی رہا ہے۔ سپریم کورٹ نے اسپتالوں میں داخل سندھ بھر کے قیدیوں کی فہرست طلب کرلی۔ عدالت نے آئی جی جیل خانہ جات کو حکم دیا کہ ایسے قیدیوں کی مکمل تفصیل پیش کریں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا ڈاکڑ شاہد رسول کہاں ہیں۔ نصرت مگن نے کہا کہ ڈاکڑ شاہد رسول سیمی جمالی کے اسسٹنٹ ہیں۔ چیف جسٹس نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے اسے بلایا کیوں نہیں آیا۔ نصرت مگن نے کہا کہ میں غیر مشروط معافی مانگتا ہوں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اب کوئی معافی نہیں ہوگی۔ غیر مشروط معافی پر معافی دینا سپریم کورٹ نے بند کردی۔ اب سپریم کورٹ نے غیر مشروط معافی پر پالیسی ترتیب دے دی ہے۔ چیف جسٹس نے سخت ریماکس دیتے ہوئے کہا کہ جتنے ملزمان اسپتال میں رکھے ہیں 4 سے 5 دن میں واپس کردو ورنہ سخت کارروائی کریں گے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا شرجیل میمن کب سے اسپتال میں ہے۔ نصرت مگن نے کہا کہ شرجیل میمن کو ڈاکڑز کی سفارش پر منتقل کیا۔ 24 اکتوبر 2017 کو شرجیل کو جیل بھیجا گیا،سندھ ہائی کورٹ نے ضمانت مسترد کی تھی، چیف جسٹس نے استفسار کیا، کیا دو دن بعد ہی شرجیل کو جیل سے اسپتال منتقل کردیا گیا۔ نصرت مگن نے کہا کہ نیب کورٹ نے میڈیکل بورڈ بنانے کی ہدایت دی۔ چیف جسٹس نے ریماکس دیئے کہ نیب کورٹ نے لکھا کہ جیل میں علاج کرائیں،نیب کورٹ کے آرڈرمیں کہاں لکھا ہے کہ اسپتال منتقل کریں۔ آپ کو کہاں سے اتھارٹی ملی اسپتال بھیجنے کی۔ نیب کورٹ نے صرف ٹیسٹ کرانے کا کہا تھا۔ چیف جسٹس نے حکم دیا کہ شرجیل میمن کو آج ہی بھیجو۔ یہ خود ساختہ رپورٹس ہیں۔ چیف جسٹس نے ریماکس دیئے کہ شرجیل میمن کو کسی عدالت نے اسپتال بھیجنے کا نہیں کہا۔ اگر صورتحال ایسی ہی تو پھرہم اپنے اختیاراستعمال کرکے شرجیل میمن کا ٹرائل پنجاب منتقل کردیتےہیں۔ اس موقع پر موجود بیرسٹر فیصل صدیقی نے کہا کہ سپریم کورٹ کے پاس اختیار موجود ہے،قانون بھی موجود ہے۔ چیف جسٹس نے ریماکس دیئے ہم میڈیکل بورڈ کو بھی طلب کرلیتے ہیں، خود ساختہ بورڈ بنا۔ چیف جسٹس نے نصرت مگن کو حکم دیا کہ سب کو واپس جیل میں ڈالیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جہاں بااثر ملزمان کو رکھا ہوا ہے وہاں نوگو ایریا بنایا ہوا ہے۔ باڑ لگا کر راستہ بند کر رکھا ہے۔ بعدازاں عدالتی حکم پر شرجیل میمن کو جیل منتقل کرکے آئی جی جیل خانہ جات سپریم کورٹ پہنچے اور عدالت کو آگاہ کیا ۔کمرہ عدالت سے باہر نکل کرنصرت مگن نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا شرجیل میمن کوخود جی منتقل کیا۔اب جیل میں شرجیل کو کہاں رکھا جائے گایہ جیلر بتائے گا۔اس کے بعد اسپتالوں کی ابتر صورتحال سے متعلق سماعت کی۔ چیف جسٹس نے سیکرٹری صحت سے مکالمہ میں کہا کہ سنا ہے سارا بجٹ آپ نے رکھا ہوا ہے۔ چیف جسٹس نے ریماکس میں کہا کہ جو رپورٹ آرہی ہے وہ بہتر نہیں۔ دیگ میں سے ایک چاول کا دانا چیک کرلیا ہے،یہ بتائیںسرکاری اسپتالوں کی حالت کب بہتر ہوگی۔ فضل اللہ پیچوہو نے کہا کہ ٹائم لائن دے دی ہے بہتری آئے گی۔ چیف جسٹس نے ریماکس دیئے کیا سرکاری اسپتالوں کو فنڈز مل رہا ہے۔ سیکرٹری صحت نے کہا کہ سرکاری اسپتالوں کو فنڈز فراہم کر رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے ریماکس دیئے کیا سرکاری اسپتالوں کا بجٹ سینٹرلایزڈ ہوچکا۔ جس پر سیکرٹری صحت بولے جی نہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ جناح اسپتال سے کون آیا ہے۔ جناح میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالجز کی رپورٹ آئی ہے ان کا کون ذمہ دار ہے، جناح میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالجز کے زمہ داروں کو نوٹس کرتے ہیں۔ چیف جسٹس نے جناح میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج کی کارکردگی غیر تسلی بخش قرار دے دی۔ سپریم کورٹ نے جناح میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج کے نمائندوں کو نوٹس جاری کردیئے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا بتائیں ڈینٹل کالجز کے پروفارمے کب تک مکمل ہوں گے، تین دن میں پرفامے مکمل کریں۔ سیکرٹری صحت نے کہا کہ اگلا معائنہ سرسید کالج کا کریں گے۔ سرکاری اسپتالوں میں ادویات کی عدم فراہمی سے متعلق چیف جسٹس نے کہا کہ جناح اسپتال کی مجھے بڑی بری رپورٹس آرہی ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ وہ جناح اسپتال تو نہیں جہاں جیل سے خاص ملزمان کو رکھا جاتا ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ بتائیں اتنی بری رپورٹس کیوں ہیں۔ سیمی جمالی نے کہا کہ جناح اسپتال کا معاملہ 18 ویں ترمیم کے بعد سے عدالت میں زیر التوا رہا۔ ہم نے وفاق سے صوبے کو منتقلی کو چینلج کر رکھا ہے۔ معاملہ زیر سماعت ہونے کے باعث بھرتیاں نہیں ہو پا رہی ہیں۔ سیمی جمالی نے کہا کہ کچھ ڈاکڑز ریٹائرڈ ہوچکے کچھ کا انتقال ہوچکا۔ پروفیسرز کی تعداد بھی کم ہے۔ جناح اسپتال میں پروفیسرز کی مجموعی طورپر 28 میں سے صرف 4 پروفیسرز ہیں۔ اسٹاف کی شدید کمی ہے۔ ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چینلج کر رکھا ہے۔ چیف جسٹس نے ریماکس دیئے جناح اسپتال کی فائل ابھی منگوا لیتے ہیں۔ عدالت نے جناح اسپتال کی فائل طلب کرلی۔ چیف جسٹس نے ریماکس دیئے کہ اسٹاف کے علاوہ دیگر آلات اور مشینیں کیوں نہیں۔ سیمی جمالی نے کہا کہ یہ بہت بڑا اسپتال ہے ہزاروں مریض آتے ہیں۔ 4 لاکھ 50 ہزار مریض صرف ایمرجنسی میں آتے ہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ہر ٹیسٹ جناح میں دستیاب ہے۔ کیا کوئی ٹیسٹ باہر سے تو نہیں ہوتا۔ جس پر سیمی جمالی نے کہا کہ اگر ایک دو مشینیں خراب ہوجائیں تو پھر ٹیسٹ باہر سے کرائے جاتے ہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا دوائیں دستیاب ہیں۔ سیمی جمالی نے کہا جی ہاں تمام دوائیں دستیاب ہیں لیکن چیف جسٹس نے حکم دیا کہ آپ لکھ کر دیں حلف نامہ دیں کہ ساری سہولتیں موجود ہیں۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کا اسپتال کتنے دور ہے۔ سیمی جمالی نے بتایا کہ 20 منٹ کے فاصلے پرہے۔ اگر آپ کے عزیز حق نہیں دے رہے تو ہم دلواتے ہیں، لیکن آپ کچھ کرکے دکھائیں، مجھے ہر اسپتال میں ہر مشین اور ٹیسٹ چاہیئے، کون ذمہ دار ہے، آپ اسکولوں اور اسپتالوں میں سہولتیں تک نہیں دے سکتے، صحت کے شعبے میں سب سے بڑا ہتھیار ڈاکڑز ہیں۔ چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ آئندہ معائنہ کےلیے جب جائیں تو اچانک جائیں ،سرپرائیز دورے کریں تاکہ حقائق سامنے آسکیں، سر سید میڈیکل کالج کا اچانک معائنہ کرکے رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیتے ہوے سماعت 2 ہفتہ کے لیے ملتوی کردی۔ علاوہ ازیں سپریم کورٹ نےڈے والے دودھ کی دو نجی کمپنیوں (ڈے فریش اور نور پور) ٹیٹراپیک کی فروخت سے پابندی اٹھاتے ہوئے حکم دیا کہ 4 جنوری سے پہلے جاری ہونے والی پروڈکٹ فروخت نہیں کی جائیگی۔ سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں لاجر بینچ نے غیر معیاری مضر صحت دودھ کی فروخت سے متعلق سماعت کی۔ اس موقع پر مارکیٹنگ ٹیم عدالت کے روبرو پیش ہوئی۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سی ای او کہاں ہے۔ کیا آپ قانون سے بالا ہیں۔ چیف جسٹس سی ای او پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ آرمی کی سفارش کرائیں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی جرات کیسے ہوئی چیمبر میں اپروچ کرنے کی، مجھے کوئی فکر نہیں۔ چیف جسٹس نے ریماکس دیئے مجھے اپنے قوم کے بچوں کو ایسا دودھ نہیں پلانا۔ اگر دودھ ٹھیک کرلیں تو پابندی اٹھا لیں گے۔ چیف جسٹس نے سوال کیا آپ کون ہیں۔ کمپنی ملازم نے کہاکہ میں چیف آپریٹنگ آفیسر ہوں۔ نور پور کمپنی کے اسٹاف نے کہا کہ ہمارا مستقبل مشکل میں ہے۔ چیف جسٹس نے ریماکس دیئے کہ آپ کے مالکان میں اتنی ہمت نہیں کہ وہ خود آتے، مالکان نے اسٹاف کو آگے کردیا،آپ کو کیا مشکلات ہیں جس پر انہوں نے کہاکہ ہماری تنخواہوں کا مسئلہ ہوگیاہے۔چیف جسٹس نے ریماکس میں کہا کہ آپ کی نوکریاں جاتی ہیں تو جائیں۔ آپ کا ادارہ آرمی والوں کا ہے تو ہم کیا کریں۔ اپنے وکیل راجہ سلمان سے پوچھیں کہ وہ کیوں پیچھے ہٹا۔ چیف جسٹس نے کہا ہم کسی سے نہیں ڈرتے۔ یہ سوچ کر آئی ہو کہ سفارش کراؤ گی تو فیصلہ حق میں آئے گا۔ نور پور کون چلاتا ہے۔ چیف آپریٹنگ آفیسر نے بتایا کہ یہ فوجی فاونڈیشن کا ہے۔ چیف جسٹس نے ریماکس دیئے چیئرمین فوجی فاونڈیشن خود پیش ہوں تو نظر ثانی کریں گے۔ عدالتی معاون محمد واوڈا ایڈووکیٹ نے کہا کہ ڈے فریش اور نورپور کی دوبارہ ٹیسٹ میں نمونے کلئیر قرار دیئے گئے ہیں۔ سپریم کورٹ نے ڈے فریش اور نور پور کی فروخت پر پابندی اٹھا دی۔ عدالت نے حکم دیا کہ 3 ماہ تک ان پراڈکٹس کی ماہانہ ٹیسٹنگ رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائی جائے۔علاوہ ازیں شاہ زیب قتل کیس کے مرکزی ملزم شاہ رخ جتوئی کی حمایت میں نجی ٹی وی کارپورٹر چیف جسٹس سپریم کورٹ کے روبرو آگیا۔ مقدمے کی سماعت شروع کی تو رپورٹر شاہد جتوئی فاضل بینچ کے روبرو روسٹرم پر آگئے اور کہا کہ مقدمے میں انسداد دہشت گردی کی دفعہ شامل ہونے کی وجہ سے میڈیا ملزم شاہ رخ جتوئی کو دہشت گرد ظاہر کررہا ہے نتیجے میں اسکول میں میرے بچوں کو جتوئی ہونے کی نسبت سے دہشت گرد کہا جارہاہے۔ رپورٹر نے مزید کہاکہ شاہ رخ جتوئی کے خلاف حقائق کے برعکس میڈیا ٹرائل کیا جا رہا ہے۔ اس سے قبل چیف جسٹس سے چیمبر میں ملاقات کی کوشش کی اور اجازت نہ ملنے پر اوپن کورٹ میں رپورٹر نے چیف جسٹس سے مکالمہ کیا اور کہا کہ شاہ رخ جتوئی کا میڈیا ٹرائل بند کیا جائے۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہاکہ آپ کون سی منطق بیان کررہے ہیں جتوئی ہونے کی وجہ سے ملزم کے خلاف ٹرائل نہیں ہورہا، آپ 30؍ سال سے صحافت سے ضروروابستہ ہونگے لیکن کیا آپ قانون سے واقف ہیں ؟ عدالت قانونی کارروائی کررہی ہے۔ چیف جسٹس کے ٹوکنے کے رپورٹر نے بات کرنے پر اصرارکیا جس پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ عدالت کی توجہ اِدھر ُادھر نہ کریں، بلاوجہ عدالت کا وقت ضائع کررہے ہیں۔ چیف جسٹس نے رپورٹر کو روسٹر م سے ہٹنے کا حکم دیا لیکن وہ پھر بھی کھڑے تھے جس پر کورٹ اسٹاف نے انہیں روسٹرم سے پیچھے ہٹایا۔