پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا دورئہ پنجاب بنیادی تبدیلیوں کا محرک ثابت ہوا ہے۔ لاہور میں چند روز قیام کے دوران انہوں نے مصروف دن گزارا۔ اس کا سب سے زیادہ سیاسی مظاہرہ لاہور ہائیکورٹ میں ان کاخطاب تھا۔ وکلا نے اس خطاب میں ذوالفقار علی بھٹو اور بی بی شہید کی شخصیات اور انداز کو بولتے دیکھااور بلاول کے اندازِ خطاب کو ان کی یادوں کا اظہار قرار دیا۔ انہیں مکمل خاموشی اور نظم و ضبط کے ساتھ سنا۔ ایسا لگتا تھا جیسے ماضی بلاول کے پیکر کی شکل میں ان کے سامنے کھڑا ہے۔ انہوں نے اپنی تقریر میں پاکستان میں دہشت گردی کے سنگین مسئلے پر اپنے موقف کا بڑی جرأت سے ذکر کیا۔ اس خطاب کے بارے میں کہنا درست ہوگا کہ یہ ’’تھری ان ون‘ یعنی قائدعوام ذوالفقار علی بھٹو، محترمہ بے نظیر بھٹو شہید اور خود ان کے اپنےاسٹائل کا امتزاج تھا۔دورئہ پنجاب کے دوران انہوں نے وسطی اور جنوبی پنجاب کی تنظیموں کے اجلاس کی صدارت کی۔ جو اس لحاظ سے بے حد اہم تھا کہ اس سے انہیں براہ راست پنجاب میں پی پی پی کی دگرگوں صورت حال کا علم ہوا۔ پارٹی عہدیداروں سے بالمشافہ ملاقات میں پارٹی امور کے بارے میں تمام پہلوئوں سے آگہی ہوئی۔ اس کا اہم ترین پہلو یہ بھی ہے کہ تنظیمی ڈھانچےکو ازسرنو استوار کرنے میں یہ ملاقاتیں مفید ثابت ہوئیں۔ جن کے تناظر میں اہم تبدیلیوں کے رونما ہونے کا امکان ہے۔بلاول بھٹو زرداری نے بعض لیڈروںکی اس بات پر ناراضی کا اظہار کیا کہ تیر کے نشان پر کوئی الیکشن لڑنے کو تیار نہیں اور اس کی بجائے آزاد امیدوار کے طور پر بلدیاتی الیکشن میں حصہ لینے کو ترجیح دی۔یہ صورتِ حال ان کے لئے کافی حیران کن تھی۔ انہوں نے پنجاب قیادت اور دیگر رہنمائوں پر یہ واضح کیا کہ تیر پارٹی کا انتخابی نشان ہے، اس استدلال سے انہیں یہ اندازہ ہوا کہ آزاد امیدواروں کے الیکشن میں حصہ لینے کی وضاحت دراصل ان کی شکست کا اعتراف ہے۔ اس کے علاوہ پورس کے ہاتھیوں کی صدائے بازگشت بھی سنی گئی۔ جو اپنی ناکامی کے زخم چاٹ رہے ہیں۔ چیئرمین نے کارکنوں سے براہِ راست رابطے کے تحت ملاقاتیں کیں۔ بہت حد تک کارکنوں کے شکوے اور شکایت ختم کرنے کی کوشش کی کہ قیادت انہیں بھول چکی ہے۔ کارکنوں کے ساتھ میل جول کے نتیجہ میں چیئرمین کی گفتگو اور مختلف مواقع پر بات چیت سے پارٹی میں امید و امنگ کا نیا عنصر شامل ہو گیا ہے۔ جس کے اثرات قومی پریس سے لے کر عوام تک آنے والے دنوں میں پیپلزپارٹی کے ماضی کی واپسی کا عندیہ دے رہے ہیں۔چیئرمین بلاول نے پنجاب کے سابق صدور، قاسم ضیاء، رانا آفتاب اور صفدر وڑائچ سے علیحدگی میں ملاقات کی۔ ان کے ساتھ پارٹی امور پر تبادلہ خیال کیا۔ اور تنظیمی اقدامات کے بارے میں ان کے مشوروں اور آرا سے آئندہ لائحہ عمل کے لئے غور کیا گیا۔ ان سینئر رہنمائوں کے تجربات کی روشنی میں پارٹی کی تنظیم نو میں کئی اہم پہلو سامنے آ سکتے ہیں۔چیئرمین کے دورہ پنجاب سے قبل میڈیا میں قیاس آرائیوں کی دھند چھائی ہوئی تھی اور پنجاب کی صدارت اور دیگر حوالوں سے غیرمصدقہ خبریں شائع ہو رہی تھیں۔ اور صدارت کے امیدوار اخباری خبروں سے اپنے لئے لابنگ کر رہے تھے۔ بظاہر ان کے ساتھی ہی ایک دوسرے کے خلاف خفیہ انداز میں صدارت کے لئے کوشاں تھے۔ چیئرمین کے دورے کے نتیجے میں یہ مفروضے، اندازے اور قیاس آرائیاں دم توڑ گئی ہیں۔ بلکہ عوام میں پیپلزپارٹی کے بارے میں ہر قسم کی غلط فہمیوں اور بدگمانیوں کا کافی حد تک ازالہ ہو گیا ہے۔ اخبارات میں نہ صرف ان خبروں کا سلسلہ رک گیا۔ بلکہ غیرجانبدار صحافتی اہل فکر نے ایک قومی سیاسی جماعت کے خلفشار کو ختم کرنے میں بلاول بھٹو زرداری کی کوششوں کو سراہا اور مثبت قرار دیا ہے۔اسی دورے کا خوشگوار پہلو یہ بھی ہے کہ چیئرمین نے پارٹی کے پرانے کارکنوں اور رہنمائوں سے ملاقات کرکے ان کے یہ گلے شکوے دور کرنے کی کوشش کی ہے کہ پارٹی کے 5سالہ دورِاقتدار میں وزرا نے انہیں نظرانداز کیا۔ چہ جائیکہ ان کے مسائل حل کرنے میں مدد کرتے۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے پارٹی کے پرانے رہنمائوں اور کارکنوں، جو مختلف تنظیمی عہدوں پر فائز رہے ہیں،کے ساتھ بطور خاص ملاقات کی جس میں انہوں نے چیئرمین کو اپنی ماضی کی خدمات اور قربانیوں سے آگاہ کیا اور ان کے تجربےسے مستفید ہونے کا اشارہ دیا۔ چیئرمین بلاول بھٹو نے اسلام آباد میں پیپلزپارٹی آزاد کشمیر،پختونخوا، فاٹا اور ذیلی تنظیموں کے کارکنوں سے طویل ملاقاتیں اور مشاورت کی۔ ان کی سب سے اہم ملاقات آزاد کشمیر پیپلزپارٹی کے رہنمائوں کے ساتھ تھی، اس طویل اجلاس میں آزاد کشمیر میں آئندہ انتخابات کے بارے میں اہم صلاح مشورے کئے گئے اور پالیسی لائن کو پوری شدت سے برقرار رکھنے کا عہد کیا گیا۔بلاول بھٹو نے یہ بروقت اعلان کیا کہ وہ اپنے نانا ذوالفقار علی بھٹو اور والدہ محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی کشمیر پالیسی اور موقف کی بھرپور انداز میں حمایت جاری رکھیں گے۔ اور کشمیریوں کے حق خودارادیت کے تاریخی موقف سے انحراف نہیں کریں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ کشمیری عوام اپنی جدوجہد کی راہ پر گامزن رہیں۔ قائدعوام اور بی بی شہید نے جس طرح کشمیر کو عالمی سطح پر اجاگر کیا ہے وہ اسی طرح ان کے نقش قدم پر چل کر اہل کشمیر کی آواز بن کر ان کا ساتھ دیں گے۔ یاد رہے قائدعوام نے 5فروری کو کشمیر ڈے منانے کا جو اعلان کیا تھا۔ کشمیری عوام آج تک دنیا بھر میں 5فروری کو اس عہد کی تجدید کرتے ہیں۔ بی بی شہید نے 1994ء میں کشمیریوں کی نمائندہ تنظیم آل حریت کانفرنس کو OIC کا رکن نامزد کروایا تھا۔چیئرمین بھٹو کا کشمیر کاز کے لئے یہ اعلان اس لحاظ سے اہم ہے کہ پچھلے دنوں پی پی سینٹرل سیکرٹریٹ اسلام آباد میں میڈیا سیل کے ایک رکن نے بلاول بھٹو کو یہ احمقانہ مشورہ دیا تھا کہ وہ اپنی تقریروں میں کشمیر کا ذکر نہ کیا کریں کیونکہ یہ مسئلہ اپنی موت مر چکا ہے۔ یہ مشورہ باز ایک این جی او چلاتا ہے اور فاروق لغاری کے دورِ صدارت میں ایوانِ صدر میں ان کے ساتھ کام کرتا تھا۔ جنہوں نے غداری کرکے بی بی شہید کی حکومت کو معزول کر دیا تھا۔ بلاول بھٹو زرداری نے دورے کے اختتام پر چین ، جاپان، یو کے، فرانس، جرمنی، نیدرلینڈ، آسٹریا اور رومانیہ کے سفیروں کے ساتھ ظہرانے میں ملاقات کی اور ملکی سیاسی امور پر تبادلہ خیال کیا۔ ان اہم ملکوں کے سفیروں کے ساتھ ان کی یہ ملاقات اس امر کی غماز ہے کہ غیرملکی سفارت کاروں نے بلاول بھٹو زرداری میں دلچسپی لینا شروع کر دی ہے۔ جو کہ پی پی پی کے لئے نیک فال ہے۔ اسی طرح چیئرمین بلاول بھٹو کے حالیہ دورہ پنجاب کے بارے میں یہ کہنا بجا ہے کہ ان کا یہ دورہ دراصل مستقبل قریب اور بعید میں پارٹی کے احیا اور مستقبل کے کردار کا پیشہ خیمہ ہے۔