• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

اشاعتِ خصوصی: جاپان میں جا بہ جا بودھ مَت سے وابستگی کے نمونے موجود ہیں

اشاعتِ خصوصی: جاپان میں جا بہ جا بودھ مَت سے وابستگی کے نمونے موجود ہیں

’’Yomiuri Shimbun نامی اخبار، جو ٹوکیو، اوساکا اور فوکیوکا جیسے بڑے شہروں سمیت جاپان کے دوسرے شہروں سے بھی شایع ہوتا ہے، Yomiuri Group کی زیرِ ملکیت ہے، جو جاپان کا ایک بڑا میڈیا گروپ ہے اور اس گروپ کے بینر تلے دیگر کاروبار بھی جاری ہیں۔

یہ اخبار جاپان کے 5بڑے اخبارات میں سے ایک ہے۔ اس کا آغازتو 1874ء میں ہوا ،لیکن 1890ء میں باضابطہ طور پر محدود اشاعت کے بعد ہی یہ صحیح معنوں میں جاپانی عوام میں متعارف ہوا۔

ابتدا میں اس اخبار میں فنونِ لطیفہ ،بالخصوص ادب کا حصّہ بہت زیادہ تھا اور اسے اُس وقت کے معروف ادیبوں کی معاونت بھی حاصل تھی، لیکن تب اس کی اشاعت ایک محدود طبقے ہی کے لیے ہوتی تھی۔

1924ء میں اخبار کی انتظامیہ تبدیل ہوئی، تو اُس نے اخبار کے سائز میں تبدیلی سے لے کر ریڈیو پروگرامز اور کھیلوں کی خبروں سمیت اخبار کی اشاعت اور دائرۂ کار کو وُسعت دی ، ٹوکیو کی خبروں کو نمایاں اور تفصیلاً شایع کرنا شروع کیا۔

نیز، حالاتِ حاضرہ کوبھی اہمیت دی۔ اس کے ساتھ ہی اخبار کی انتظامیہ نے دیگر اہم اقدامات اور بعض بڑے انتظامی فیصلے بھی کیے، جس کے نتیجے میں 1941ء میں یعنی نئی انتظامیہ کی جانب سے اخبار کا نظم و نسق سنبھالنے کے17سال کے طویل عرصے بعد، یہ اخبار اشاعت کے اعتبار سے ٹوکیو کا سب سے بڑا اخبار بن گیا اور یہ اعزاز آج بھی اسے حاصل ہے۔

اس کے علاوہ Yomiuri Shimbunکو دُنیا بَھر میں سب سے زیادہ شایع ہونے والے اخبار کا اعزاز بھی حاصل رہا ہے۔ یہ اخبار آج بھی روزانہ صبح و شام دو خصوصی ایڈیشنز شایع کرنے کے علاوہ مختلف حالات و واقعات اور موضوعات پر خصوصی ایڈیشنز شایع کرتا ہے اور اس کی یومیہ اشاعت 15لاکھ سے بھی زیادہ ہے۔‘‘

اشاعتِ خصوصی: جاپان میں جا بہ جا بودھ مَت سے وابستگی کے نمونے موجود ہیں

بڑے میاں ایک کاغذ پر اپنے ہاتھ سے تحریر کردہ یہ معلومات خاصی دِقت کے ساتھ پڑھ رہے تھے، جو ہم تک انگریزی ترجمے کے ساتھ پہنچ رہی تھیں۔

بہ مشکل تمام موضوع تبدیل ہوا، تو ہم نے بھی اپنی تازہ یادداشت کی بنیاد پر معلومات فراہم کرتے ہوئے اُنہیں بتایا کہ ’’دُنیا کے پہلے ناول، ’’دی ٹیل آف گینجی‘‘ کا، جو 11ویں صدی میں شایع ہوا تھا، پاکستان میں اُردو ترجمہ ہو رہا ہے، جو ناول ہی کی شکل میں رواں برس منظرِ عام پر آ جائے گا۔

اس شاہ کار اور دُنیا کے پہلے ناول کا اعزاز حاصل کرنے والی تخلیق کے متعدد زبانوں میں ترجمے ہو چُکے ہیں اور اس پر کئی فلمز بھی بنائی جا چُکی ہیں۔

یہ ناول 11ویں صدی کی جاپانی شہزادی، موراساکی شکیبو نے تحریر کیا تھا۔‘‘

ہماری اس تازہ یادداشت کو جاپانی جوڑے نے ہماری ’’علمیت‘‘ سے تعبیر کرتے ہوئے ہم سے متاثر ہونے کا اظہار کیا۔

رُخصت ہونے کا وقت آیا، تو بڑی بی نے ہمارے مزید ٹھہرنے کی خواہش کا اظہار کیا اور ہماری اسکارٹ سے بھی یہ استفسار کیا کہ ’’کیا ایسا ممکن ہے؟‘‘

اس کے جواب میں اسکارٹ نے ہمارا شیڈول اُن کے سامنے رکھ دیا، جس پر دونوں نے بے بسی سے ہماری طرف دیکھا۔ جاتے جاتے بڑی بی نے مالٹے اور سیب سے بھرا ایک تھیلا یہ کہتے ہوئے تھما دیا کہ ’’راستے میں یہ پھل کھاتے جانا۔‘‘

بڑے میاں ہمیں دروازے تک چھوڑنے آئے، جب کہ بڑی بی گلی کے اُسی جوار تک ہمیں الوداع کہنے آئیں، جہاں انہوں نے ہمارا استقبال کیا تھا۔

ہم نے گھڑی پر نظر ڈالی، تو رات کے8بجنے میں چند منٹ باقی تھے۔ لمبے لمبے ڈگ بھرنا شروع کیے، تاکہ آتے وقت دُکان پر جو چیزیں پسند آئی تھیں، انہیں خریدلیا جائے، لیکن وہاں پہنچے، تو دُکان بندہو چُکی تھی۔ دوبارہ گھڑی پر نظر ڈالی، تو 8بج کر دو منٹ ہو چُکے تھے۔

ہمارے شیڈول میں جاپانی شہر،’’ ناران‘‘ کی سیر بھی شامل تھی۔ یہاں اسی شہر کے نام سے موسوم ’’ناران پارک‘‘ بھی واقع ہے۔

یہ پارک حکومتی تحفّظ میں آزادانہ طور پر گھومتے پھرتے اُن ہرنوں کی وجہ سے، جنہیں ’’مقدّس ہرن‘‘ قرار دیا جاتا ہے، سیّاحوں میں خاصا مقبول ہے۔

نیز،اس وسیع و عریض پارک سے متصل ایک ’’کساگا تشہیر مزار‘‘ ہے، جن سے ان ہرنوں کی خصوصی نسبت ہے اور انہیں دیوتاؤں کا مدد گار مانا جاتا ہے۔ ان ہرنوں کی آماج گاہ وسیع و عریض ’’ناران پارک‘‘ کے علاوہ ایک جنگل بھی ہے، جہاں سے یہ سارا سال اپنی خوراک حاصل کرتے ہیں۔

جنگل میں رہنے والے ہرنوں سے تو ہمارا واسطہ نہیں پڑا، البتہ ’’کساگا تشہیر مزار‘‘ کے اطراف گھومتے ہرنوں کی عادات، مشاہدے میں ضرور آئیں۔

یہ ہرن اس اعتبار سے انتہائی خود غرض اور مطلب پرست ہیں کہ ہر سیّاح سے اُن کی مانوسیت کا سبب محض اُس کے ہاتھ میں موجود بسکٹ یا کوئی دوسری خوراک ہوتی ہے اور جیسے ہی یہ ختم ہوتی ہے، ہرن اگلے ہی لمحے اُس سیّاح سے لا تعلق ہو جاتا ہے۔

چُوں کہ مقامی سیّاح ان ہرنوں کو مقدّس مزار سے منسوب کرتے ہیں، لہٰذا اسی باعث انہیں اہمیت بھی دیتے ہیں اور ان کا خیال بھی رکھتے ہیں، جس کی وجہ سے یہ کافی نخریلے ہو گئے ہیں۔

اگر کوئی شخص ان سے مانوسیت یا ان پر ہاتھ پھیر کر پیار کا اظہار کرے، تو ضروری نہیں کہ یہ بھی اس کے جواب میں کسی ردّ عمل کا اظہار کریں، بلکہ یہ سیّاحوں کو اپنے ساتھ تصویر بنوانے کا موقع بھی صرف اُسی صورت فراہم کرتے ہیں کہ جب انہیں کوئی چیز کھانے کی ترغیب دی جائے اور اگر آپ کے پاس انہیں کھلانے کے لیے کوئی شئے نہیں ہے، تو پھر یہ ہرن آپ کے ساتھ تصویر بھی ہرگز نہیں بنوائیں گے۔

دوسرے الفاظ میں کہا جا سکتا ہے کہ یہ ’’مقدّس ہرن‘‘ اپنے ساتھ تصویر بنوانے کا معاوضہ کھانے کی شکل میں وصول کرتے ہیں، جو عام طور پر اُن کے پسندیدہ بسکٹ ہوتے ہیں، جن کی پارک میں دُکانیں بھی موجود ہیں۔

ان ہرنوں کے تحفّظ کے لیے پارک میں جو خصوصی اقدامات کیے گئے ہیں، اُن میں جا بہ جا نصب سی سی ٹی وی کیمرے بھی شامل ہیں، تاکہ اُنہیں کوئی سیّاح نقصان پہنچانے کی کوشش نہ کرے۔ پھر ہرنوں کو نقصان پہنچنے کے ڈر سے انہیں باہر سے لائی گئی کوئی چیز کھلانے پر بھی پابندی عاید ہے۔

جاپانی قوم اپنے مذہبی عقاید اور رسومات سے گہری وابستگی رکھتی ہے اور ان کے مذہبی رُجحانات کا عکس جا بہ جا دیکھنے میں آتا ہے، لیکن یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ جاپان میں مذہب اور سیاست کو بالکل الگ الگ رکھا گیا ہے اور انتظامی، سیاسی اور ریاستی اُمور میں مذہب کا کوئی عمل دخل نہیں ہے ۔

اسی طرح مذہبی معاملات سے حکومت اور ریاست بھی کوئی سروکار نہیں رکھتی۔ یہ تجربہ یا نظام جاپان میں انتہائی کام یاب رہا ہے اور فریقین کو اس حوالے سے کوئی شکایت نہیں ہوتی اور نہ ہی کسی قسم کے مسائل جنم لیتے ہیں۔

سیّاحتی، تاریخی اور دیگر حوالوں سے قابلِ ذکر مقامات کی طرح ناران پارک میں بھی غیر محسوس انداز میں بودھ مت کی اقدار یاد رکھنے اور مختصر دورانیے کی رسوم ادا کرنے کے مواقع موجود ہیں، جن میں جاپان کا ثقافتی پس منظر بھی شامل ہے۔

’’ناران پارک‘‘ کے داخلی راستے پر ایک مخصوص مقام پر اسٹال کی شکل میں تازہ پانی کی فراہمی کا اہتمام کیا گیا ہے۔ یہاں لکڑی کی ڈوئیوں کے طرز پر بنی 12پیالیاں ایک قطار میں رکھی ہیں۔ سیّاح اسٹال سے صاف و شفّاف پانی ان پیالیوں میں بَھرتے ہیں اور پھر ایک خاص انداز ، اپنے ہاتھوں پر انڈیل کر، جسم کے مختلف حصّوں پر اس کا ہلکا سا چِھڑکائو کرتے اور چند گھونٹ بھی بَھرتے ہیں۔

اس عمل کے بارے میں ہمیں یہی بتایا گیا کہ تحقیق کے مطابق، اس کے نتیجے میں نہ صرف تمام جسمانی بیماریاں ختم ہوتی ہیں، بلکہ روحانی پاکیزگی بھی حاصل ہوتی ہے۔

طہارت و پاکیزگی حاصل کرنے کے اس عمل کے دوران بعض خواتین کچھ زیرِ لب پڑھتی بھی دِکھائی دیں۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ اس عمل میں زیادہ تر لڑکیاں ہی مصروف تھیں، جس سے گمان پیدا ہوا کہ ’’مقدّس پانی‘‘ کے چِھڑکائو اور اسے پینے کے دوران یہ اپنی خواہشات ہی کو یاد کرتی اور دُہراتی ہیں۔

اسی طرح جاپان میں مختلف مزاروں پر عبادت کا ایک انداز یہ بھی ہے کہ وہاں نصب مجسّموں سے عقیدت کے اظہار کے لیے ایک مخصوص مقام پر کھڑے ہو کر تین بار سَر جُھکایا جاتا ہے،پھر تالی بجانے کے انداز میں دونوں ہاتھوں کو جوڑا جاتا ہے اور اس کے بعد دوبارہ جُھک کر چند سکّے ایک بکس میں ڈال دیے ہیں۔

جاپان میں جابہ جا جدید ٹیکنالوجی کے بھی نہایت حیران کُن مناظر دیکھنے میں آتے ہیں، جس کی ایک مثال بُلٹ ٹرین ہے۔

ٹوکیو، اوساکا اور نارا سمیت جاپان کے دیگر شہروں میں آمدورفت کے لیے ہم نے کسی جہاز میں سفر نہیں کیا، بلکہ اس مقصد کے لیے بُلٹ ٹرین ہی ہمارا وسیلۂ سفر بنی۔ 320

کلو میٹر یعنی تقریباً 200میل فی گھنٹا کی رفتار سے چلنے والی اس بُلٹ ٹرین میں انتہائی آرام دہ نشستوں، نقل وحرکت کے لیے کُشادہ راستوں اور وائی فائی کی سہولت کے ساتھ ٹکٹ کے حصول سے لے کر سامان کے تحفّظ تک کے لیے نہایت شان دار انتظامات موجود نظر آئے۔

ہر ٹرین میں اس پہلو کا بھی بہ طور خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ کوئی مسافر اپنے ہم سفر کی وجہ سے پریشان نہ ہو۔

یہی وجہ ہے کہ ایک ساتھ سفر کرنے والے دوست حتیٰ کہ میاں بیوی بھی بلند آواز میں گپ شپ نہیں کر سکتے اور سرگوشی کی حد تک دھیمی آواز میں بات چیت ہی پراکتفا کیا جاتا ہے۔

ہر چند کہ ریلوے اسٹیشنز اور ٹرینز میں خاصا رش ہوتا ہے، لیکن شور شرابے، ہنگامہ آرائی اور افراتفری کا تصوّر تک نہیں۔ چُوں کہ ہر فرد کو اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ اگر ایک منٹ کی بھی تاخیر ہو گئی، تو اُسے پریشانی کا سامنا کرنا پڑے گا ،اس لیے ٹرین کی آمد سے محض چند منٹ قبل مسافروں کی قطاریں بن جاتی ہیں اور پھر چند ہی لمحوں میں تمام مسافر ٹرین کی نشستوں پر براجمان ہوتے ہیں۔ (جاری ہے)

اشاعتِ خصوصی: جاپان میں جا بہ جا بودھ مَت سے وابستگی کے نمونے موجود ہیں

اس وقت جاپان میں بُلٹ ٹرین کی رفتار 603کلو میٹر یعنی 375میل فی گھنٹا تک بڑھانے کا تجربہ کام یابی سے جاری ہے۔ تاہم، اس بارے میں حیران کُن تفصیلات کا تذکرہ پھر کبھی سہی…

سرِدست ہم واقعتاً پریشان کُن حد تک حیران کر دینے والی ایک ایسی ٹیکنالوجی کا ذکر کریں گے کہ جس کا سامنا نہ صرف غیر ترقّی یافتہ ممالک بلکہ بعض ترقّی یافتہ ممالک کے شہریوں کو بھی جاپان میں ایک مرتبہ تو کرنا ہی پڑتا ہے، کیوں کہ یہ ٹیکنالوجی امریکا، فرانس، اٹلی، برطانیہ اور چین جیسے ترقّی یافتہ ممالک میں بھی موجود نہیں ہے اور یہ ٹیکنالوجی ہے، ’’الیکٹرانک کموڈ‘‘۔

جب کسی غیر ترقّی یافتہ یا ترقّی پزیر مُلک کا کوئی شہری جاپان کے کسی پُر تعیّش یا عام سے ہوٹل میں بھی قیام کرتا ہے، تو اس کے لیے ایک کُشادہ واش رُوم میں حوائجِ ضروریہ کی تمام مطلوبہ سہولتیں موجود ہوتی ہیں.

لیکن خود کار نظام سے آراستہ کموڈ استعمال کرنے کے بعد اُسے نہ تو وہاں فلش کا کوئی ذریعہ نظر آتا ہے اور نہ ہی ٹوائلٹ پیپرز، جو یقیناً پہلی مرتبہ اس مرحلے سے گزرنے والے فرد کوتو کچھ لمحوں کے لیے پریشانی میں ضرور مبتلا کر دیتا ہے۔

تاہم، اضطراب اور تجسّس کے عالم میں، وہ کموڈ کی ایک جانب موجود اُس خود کار نظام کے ’’ہدایت نامے‘‘ کو پا ہی لیتا ہے، جس میں جاپانی زبان کے ساتھ تصویروں کی مدد سے رہنمائی کی گئی ہے۔

اس ہدایت نامے کے مطابق، حوائجِ ضروریہ سے فراغت کے بعد آپ ایک بٹن دبائیں گے، تو نیم گرم پانی کی ایک تیز دھار اپنے مطلوبہ ہدف کا تعیّن کر کے آلائش صاف کر دے گی۔ دوسرا بٹن ایک پھوار کی شکل میں مزید صفائی کا احساس دِلائے گا۔

تیسرا بٹن گرم یا ٹھنڈی ہوا کا ہے، جس کا انتخاب آپ نے خود کرنا ہے اور یہ مطلوبہ مقام کو خُشک کرنے کے لیے تولیے کا کام انجام دے گی، جب کہ چوتھا بٹن دباتے ہی ایک خوش بُو دار اسپرے اس سارے عمل میں ایک خوش گوار احساس پیدا کر دے گا۔

تازہ ترین
تازہ ترین