جب ہر چھوٹے بڑے شہر میں ادب کے جشن منائے جا رہے ہیں تو بھلا گجرات کیوں پیچھے رہے۔ دو سال سے وہاں بھی یہ جشن منایا جا رہا ہے۔ اور یہ جشن گجرات یونیورسٹی مناتی ہے اور خوب مناتی ہے۔ یوں تو یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر ضیاء القیوم سائنس کے آدمی ہیں لیکن دنیا کے اچھے سائنسدانوں کی طرح اچھا ادبی ذوق بھی رکھتے ہیں کہ ادب کی چاشنی کے بغیر تمام سائنسی مضامین پھیکے پھیکے ہی رہتے ہیں۔ انگلستان کے نہایت معتبر سائنسدان سی پی اسنو ناول نگار بھی تھے، انکے کئی ناول ہیں۔ اور امریکی سائنسدان کارل سیگاںتو کل کی بات ہیں۔ سائنسی مضامین پر ان کی کتابیں اعلیٰ ادب کا مزہ بھی دیتی ہیں۔ اور پھر گجرات اور فیصل آباد کے ادبی جشن کو انتظام و انصرام کیلئے شیبا اور توشیبا بھی تو مل گئی ہیں۔ ڈاکٹر شیبا عالم ادب کی استاد ہیں اور ان کی دوست توشیبا انتظامی امور کی ماہر ہیں۔ اس طرح یہ جشن سلیقے اور سگھڑ پن کا اعلیٰ نمونہ ہوتا ہے۔ اور یہ گجرات کا ادبی جشن صرف ایک دن کا ہوتا ہے۔ مگر اس ایک دن میں ادب و ثقافت کا شاید ہی کوئی ایسا موضوع ہو جس پر وہاں گفتگو اور بحث مباحثہ نہ ہوتا ہو۔ عکسی مفتی اور حارث خلیق نے پاکستانی ثقافت اور ورثے کی معنویت پر آج کے تناظر میں بات کی۔ ناصر عباس نیر اور اصغر ندیم سید نے اردو فکشن میں تاریخ اور تہذیب کے حوالے سے گفتگو کی۔ عرفان کھوسٹ اور سرمد کھوسٹ نے اصغر ندیم کے ساتھ ٹی وی ڈرامے اور فلم کے عروج و زوال پر نظر ڈالی۔ انور مقصود نے اپنی کھٹی میٹھی باتوں سے سب کو خوش کیا۔ منیزہ ہاشمی نے اپنے والد فیض صاحب کے ساتھ اپنی والدہ ایلس فیض کو بھی یاد کیا، اور ہمیں جھنجھوڑ دیا۔ ہم فیض صاحب کو تو کسی نہ کسی بہانے یاد کرتے رہتے ہیں لیکن ان کی بیگم ایلس کو بھول جاتے ہیں۔ انگلستان کے ایک معزز خاندان سے تعلق رکھنے والی یہ خاتون ہی تھیں جنہوں نے فیض صاحب کی چار سال کی قید کے دوران میں نہ صرف اپنا گھر سنبھالا بلکہ اپنی دو چھوٹی چھوٹی بچیوں کی ایسی پرورش کی کہ آج سلیمہ اور منیزہ دونوں اپنے اپنے شعبے میں اپنی الگ پہچان رکھتی ہیں۔ آپ نے ایلس کے وہ خط تو ضرور پڑھے ہوں گے جو انہوں نے فیض صاحب کو ان کی قید کے زمانے میں لکھے۔ یہ خط انگریزی میں ہیں۔ لیکن سید مظہر جمیل نے ایلس کے ان انگریزی خطوط کا اردو میں ترجمہ کیا ہے۔ یہ ترجمہ کراچی کے ادبی جریدے ’’مکالمہ‘‘ میں قسط وار چھپ رہا ہے۔ اگر آپ انگریزی خط نہ پڑھ سکے ہوں تو یہ اردو ترجمہ ضرور پڑھ لیجئے۔ آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ یہ انگریز خاتون واقعی پاکستانی خواتین کے لئے ایک مثالی نمونہ، یا ایک رول ماڈل ہیں۔ شاباش منیزہ، تم نے ہمیں احساس دلایا کہ فیض کے ساتھ، ایلس فیض کو بھی نہ بھولو۔ ہم فیض صاحب کو یاد کرتے ہوئے ہمیشہ اس خاتون کی قربانیاں بھول جاتے ہیں۔
اوپر ہم نے اس جشن میں زیر بحث آنے والے جو موضوع پیش کئے ہیں ان سے آپ نے اندازہ لگا لیا ہو گا کہ ہر اجلاس پر پاکستانی ثقافت، ہمارا ادب، تاریخ اور ثقافتی ورثہ ہی چھا ئے رہے۔ عکسی مفتی اور حارث خلیق نے پاکستان کی پانچ ہزار سال کی تاریخ کے حوالے سے آج کی صورتحال پر بات کی۔ اور جشن کے حاضرین، بالخصوس یونیورسٹی کے طلبا اور طالبات کو یاد دلایا کہ ہماری ثقافت عرب یا ایران کی ثقافت نہیں ہے بلکہ اس خطے کی اپنی ممتاز اور مخصوص ثقافت ہے۔ وہ ثقافت جس میں ہماری مٹی کی مہک اور ہمارے دریائوں، ہمارے پہاڑوں اور ہمارے سرسبز و شاداب میدانوں کی خوشبو شامل ہے۔ اب عکسی مفتی یا حارث خلیق اس تہذیب کا ذکر تو کرتے رہے لیکن وہ یہ بتانا بھول گئے کہ اسے ہم گنگا جمنی تہذیب کہتے ہیں۔ اگر گنگا جمنی تہذیب کہتے ہوئے آپ کو پریشانی ہوتی ہے تو چلیے، آپ اسے ہند اسلامی تہذیب کہہ لیجئے۔ یہ تہذیب ہڑپہ اور موہنجو ڈاروسے بھی آگے جا کر بلو چستان میں مہر گڑھ سے مل جاتی ہے۔ اور یہ آٹھ نو ہزار سال کا عرصہ بن جاتا ہے۔ اب آپ نیچے آتے جایئے اور اس میں ہندو، بدھ، یونانی، منگول اور مسلم، تمام تہذیبیں شامل کر لیجئے۔ یہ ہے ہماری تہذیب۔ اور یہ بھی یاد رکھیے کہ ثقافت کوئی جامد چیز نہیں ہے۔ زمانے اور وقت کے ساتھ اس میں تبدیلیاں آتی رہتی ہیں۔ زمانہ اور ہماری ضرورت، یہ ہیں تبدیلی کے پہیے۔ عکسی صاحب کو سوہنی مہینوال کے زمانے کے مٹی کے گھڑے اور برتن بہت یاد آئے۔ اور انہوں نے گجرات والوں سے شکایت کہ وہ انہیں بنانا کیوں بھول گئے، وہ تو ہمارا ورثہ ہیں؟ انہوں نے صحیح فرمایا۔ بلاشبہ وہ ہمارا ورثہ ہیں لیکن وہ ہماری ضرورت نہیں ہیں۔ چیزیں اپنی ضرورت کے ساتھ زندہ رہتی ہیں۔ اب آپ ریفریجریٹر کی جگہ سوہنی کا کچا یا پکا گھڑا استعمال نہیں کرتے۔ آپ کو بجلی کے پنکھے یا ایئر کنڈیشنر کی ضرورت ہوتی ہے، ہاتھ کے پنکھے کی نہیں۔ گلگت بلتستان اور کالاش کے علاقوں سے تھرپارکر تک ہمارے ورثے کی جو چیزیں بنائی جاتی ہیں بلاشبہ وہ بہت خوبصورت ہوتی ہیں۔ لیکن ان سے آپ اپنے گھر کی دیواریں یا اپنے ڈرائنگ روم تو سجا سکتے ہیں، انہیں اپنے کام میں نہیں لا سکتے۔
اب پھر آ جایئے رول ماڈل کی طرف۔ اس جشن میں ہمیں ٹی وی ڈراموں کے ممتاز اور منفرد فن کار عرفان کھوسٹ کی باتیں سن کر جو خوشی ہوئی ہے، وہ ہم الفاظ میں بیان نہیں کر سکتے۔ بلا شک و شبہ عرفان کھوسٹ تمام فن کاروں کے لئے ایک ایسا رول ماڈل ہیں جس کی تقلید کر کے وہ اپنے پیشے کے اندر اور پیشے سے باہر حسب منشا کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔ عرفان صاحب نے بتایا کہ ان کے پانچ بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔ انہوں نے اپنے تمام بچوں کو سمجھایا تھا کہ پہلے اعلیٰ تعلیم حاصل کرو، اس کے بعد اپنی پسند کا جو پیشہ چاہو اختیار کرلو۔ انہوں نے اپنے بیٹوں کو ایچی سن کالج میں اور بیٹیوں کو سینٹ میری میں پڑھایا۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے پاس موٹر کار نہیں تھی۔ وہ اپنے بیٹوں کو اسکوٹر پر بٹھا کر ایچی سن کالج لے جاتے تھے۔ اور مال روڈ والے بڑے دروازے سے جانے کے بجائے پچھلے دروازے پر انہیں چھوڑتے تھے، تاکہ ان بچوں کو یہ احساس کمتری نہ ہو کہ ان کے پاس کار نہیں ہے۔ اب آپ خود ہی سوچ لیجئے کہ صرف فن کاروں کے لئے ہی نہیں بلکہ ہم سب کے لئے اس سے بڑا رول ماڈل اور کون ہو سکتا ہے۔ ماشاء اللہ، آج ان کے تمام بچے اپنی اپنی جگہ نہایت کامیاب زندگی گزار رہے ہیں۔ اسی لئے تو ہم کہتے ہیں کہ یہ جو ادب کے جشن منائے جا تے ہیں ان میں شریک ہو کر ہم بہت کچھ سیکھتے ہیں۔