• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کسی بھی ملک کی ترقی کے لئے علم پر مبنی معیشت قائم کرنا نہایت اہم ہے۔ علمی معیشت کے قیام کے تین اہم ترین ستون جامعات، صنعتیں اور حکومتی پالیسیاں ہیں، یہ تینوں ستون اہلیت کی بنیادوں پر قائم ہونا لازمی ہیں ۔ علمی معیشت کے قیام کا مقصد حاصل کرنے کے لئے تحقیق، جدت طرازی اور معاشی ضروریات کے درمیان گہراتعلق ہے ۔ اپنی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے ملکی پالیسی کو ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔
عالمی سطح پر جائزہ لیا جائے تو جدت طرازی کسی ایک میدان تک قید نہیں ؛ گزشتہ تین دہائیوں میں ہم نے ایک کے بعد دوسری اقوام کا مشاہدہ کیا ہے جنہوں نے سماجی اور معاشی ترقی تیزی سے حاصل کی ہے ۔ان اقوام نے یہ مقام تعلیم بالخصوص اعلیٰ تعلیم میں مہارت سے حاصل کیا ہے۔ اس کے علاوہ نجی و سرکاری ،مقامی اور بین الاقوامی تجارتی اداروں کے درمیان اشتراک عمل کے لئے سرکاری معاونت نے اس تبدیلی میں اہم کردار ادا کیا ۔ پاکستان میں ضرورت اس بات کی ہے کہ معیشت کی ترقی اور استحکام کا عمل ، جدت طرازی کے ذریعے حاصل کیا جائے۔اس میں نہ صرف نجی شعبوں کا اہم کردار ہوگا بلکہ سرکاری سطح پر بھی ایسی ترغیبات دی جائیں جن کے ذریعے مقامی تجارت ،جامعات اور بین الاقوامی کمپنیوں کے درمیان اشتراک عمل وجود میں آئے۔تقریباً تمام ترقی یافتہ ممالک باہمی تعاون سے کام کرنے کی اہمیت سے آگاہ ہو چکے ہیں جس کو عرف عام میں باہمی مفاد (Collaborative Advantage)کہا جاتا ہے۔ اعلیٰ اور درمیانی ٹیکنالوجی کی مصنوعات کے صنعتی زون سی پیک (CPEC)منصوبے کے تحت قائم کئے جائیں اور اس کے تحت قائم ہونے والی صنعتوں کو پیداوار، معاشی ترقی اور مصنوعات کی جدت طرازی کی بنیاد پر ترغیبات دی جائیں۔صنعتی کارکنان کی مہارتوں میں اضافے کے لئے تربیتی کورسز کرائےجائیں اور اعلیٰ درجے کے انجینئروں کی ملازمت کو ترجیح دی جائے۔ حکومت تکنیکی یا انجینئرنگ مراکزکی تشکیل کے ذریعے بھی مدد فراہم کرسکتی ہے جو کہ ڈیزائن، جانچ اور معیار جیسی خدمات فراہم کریں۔ ایک موثر تانا بانا اورمضبوط قومی جدت طرازی کی پالیسی کا نفاذ ملکی ترقی کے لئے اہم ترین ضرورت بن چکا ہے۔ وہ ممالک جنہوں نے مضبوط جدت طرازی کے منصوبوں کو قابل قیادت کے زیر سایہ اختیار کیا ہے انہوں نے انتہائی تیزی سے ترقی کی ہے اور اپنے ساتھ کے ممالک کو کہیں پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اس لئے قومی پالیسی میں جدت طرازی اور مقامی طور پر ٹیکنالوجی کی صلاحیت میں اضافے پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے۔
قومی جدت طرازی کی پالیسی کی ایک اہم خصوصیت یہ ہونی چاہئے کہ مناسب ترغیبات اور قوانین کے ذریعے تحریک پیدا کی جائے۔ ان ترغیبات میں نجی تحقیق و ترقی کے فروغ کے لئے ٹیکس کی ترغیب، سیکھنے کے عمل کی تحریک پیدا کرنا اور ماہر انجینئروں کو اچھی تنخواہوں پر ملازمت دینا شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ترقی یافتہ ممالک اور مشرقی ایشیائی ممالک بشمول چین اورکوریاجیسے عالمی پیداواری نیٹ ورک کے ساتھ مضبوط روابط قائم کئے جائیں۔ بین الاقوامی مصنوعات سازی اور پیداواری معیار کے لئے قوانین نافذ کئےجائیں تاکہ علم حاصل کرنے والے افراد کے حق کا تحفظ کیا جاسکے اس کے علاوہ تیزرفتار عدالتی نظام قائم کیا جائے تاکہ مقدمات کا فیصلہ جلدہو جو جدت طرازی کے فروغ کے لئے انتہائی ضروری ہے۔ جدت طرازی کی پالیسی کا سبق چین سے سیکھا جاسکتا ہے۔ 1998ء میں چین نے مقامی طور پر بجلی سے چلنے والی موٹر سائیکل کی پیداوار کا آغاز کیا۔یہ کام ابتدا میں صرف بارہ کمپنیوں نے شروع کیاجنہوں نے سال میں 56 ہزار موٹر سائیکلیں تیار کیں، جب کہ عام موٹر سائیکلوں کی پیداوار4.2 کروڑفی سال جاری رہی۔ اس پالیسی کا مقصد عوام کے لئےکم قیمت، ماحول دوست اور مستعد آمد ورفت کی سہولت کی فراہمی تھاجس کے نتیجے میں وسیع پیمانے پر نقل و حمل کے نظام میں عوامی سرمایہ کاری عمل میں آئی نتیجتاً برقی موٹر سائیکلوں کی قیمت میں کمی واقع ہوگئی۔ اور بارہ سال کے عرصے یعنی 2010ء تک کمپنیوں نے تین کروڑ برقی موٹر سائیکلیں بنانا شروع کردیںجس میں سے 80 فیصد مقامی طور پر فروخت ہورہی تھیں۔ پرزہ جات کی تیاری سے لیتھئیم (lithium) کی کان کنی تک میں چین کی حکومت نے چین سرمایہ کاری کارپوریشن کے ذریعے مختلف چینی کمپنیوں کی مدد کی ۔ اس طرح بروقت اور موثر منصوبہ بندی کی وجہ سے چین نمایاں طور پرپوری دنیا میں ایک اہم پیداوار ی ملک کی صورت میں سامنے آیا ہے۔
مراعات پر مبنی طرز فکر کے علاوہ ہمیں ٹیکنالوجی پر مبنی کاروبار کےفروغ کی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے ۔ پاکستان کاروبار میں سہولت کی درجہ بندی میں بہت پیچھے ہے ، جب کہ سنگاپور اور ملائشیا اس درجہ بندی میںبہت آگے ہیں۔ ان دونوں ممالک نے بیرون ملک براہ راست سرمایہ کاری کو نئی ٹیکنا لوجی کے حصول کیلئے استعمال کیا ۔ ترقی پذیر ممالک کیلئےعالمی معیشت میں اپنا مقام بنانے اور ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ ٹیکنالوجی کے حوالے سے حائل فرق کو ختم کرنے کیلئے ضروری ہے کہ وہ جدید ٹیکنالوجی کو اپنی مقامی پیداواراور انتظامی عمل کا حصہ بنائیں۔ عالمی ٹیکنالوجی مختلف ذرائع مثلاً بیرون ملک براہ راست سرمایہ کاری ،لائسنسنگ اور ٹیکنالوجی کی منتقلی کے ذریعے حاصل کی جاسکتی ہے۔ ملٹی نیشنل کارپوریشنز نا صرف اعلیٰ ٹیکنالوجی میزبان ملک میں لیکر آتی ہیں بلکہ مقامی اداروں کو سیکھنے کے مواقع بھی فراہم کرتی ہیں ۔ جس سے کل پیداواری صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے۔غیر ملکی سرمایہ کاری میزبان ملک کی معیشت میں اضافہ کرسکتی ہے جو براہ راست ملازمتوں کی تخلیق اور ٹیکس کے حصول میں بھی اضافہ کرتی ہے۔
جدت طرازی کو قومی ترجیحات کے ذریعے فروغ دیا جا سکتا ہے ۔ کیوں کہ کسی بھی ملک کے پاس نہ تو اتنے وسائل ہیں اور نہ ہی اتنی صلاحیتیں کہ وہ تمام عوامل کا احاطہ کرسکے۔مثال کے طور پر بھارت نے آئی سی ٹی خدمات کو ہدف بنایا جب کہ چین نے مصنوعات سازی کا شعبہ اختیار کیا۔یہ بہت سی مثالوں میں سے دو نمایاں مثالیں ہیں۔ فن لینڈ کا نمبر عالمی جدت طرازی کی درجہ بندی میں پہلا ہے، اس کے کی وجہ ٹیلی کمیونیکیشن کے شعبے میں خصوصی توجہ ہے۔ اس کیلئے فن لینڈ نے مقامی کمپنیوں کو سرکاری تحقیق و ترقی کے اخراجات سے منسلک کیا ، اعلیٰ مہارت کے حامل سائنس دان اور انجینئرزکیلئے روزگار کےمواقع فراہم کئے، مقامی اور بین الاقوامی کمپنیوں کے درمیان اشتراک عمل کی حوصلہ افزائی کی جس کے نتیجے میں اس کی ایک سیل فون کمپنی ملٹی نیشنل کمپنی کے طور پر نمایاں ہوئی۔ 2010ءمیں اسکی فروخت 42.4ارب یورو تھی جب کہ اس کے تحقیق و ترقی کے اخراجات 5.8ارب یورو تھے۔ اس نے اپنی مصنوعات سازی کی کمپنیاںدس ممالک میں قائم کیں، جب کہ اس کے تحقیق و ترقی کے یونٹ 14ممالک میں کام کررہے تھے اور ان میں سے اکثر یونٹ میزبان ممالک کی اہم جامعات اور تحقیقی اداروں کے قریب قائم کئے گئے ۔
ہمارا تعلیم، ٹیکنالوجی اور جدت طرازی میں اپنے پڑوسی مسابقین تک سے فاصلہ مستقل بڑھ رہا ہے، ہم ٹیکنالوجی کے حوالے سے پیچھے رہ جانے والوں میں شامل ہو رہے ہیں اور عالمی درجہ بندی میں علم اور جدت طرازی کے حوالے سے نچلے ترین درجے پر پہنچ چکے ہیں۔ یہ ان 20ارب انسانوں کی تذلیل ہے جن میں آگے بڑھنے کی صلاحیت موجود ہے، اور جوعالمی تکنیکی علم میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ آئی سی ٹی ٹیکنالوجی کی وجہ سے پاکستان کے عوام میں عالمگیر ترقی کا شعور پیدا ہوا ہے اس کے ساتھ وہ اس حقیقت سے بھی آشنا ہورہے ہیں کہ ان کی پس ماندگی، بھوک، بیماری اور غربت ہمیشہ رہنے کے لئے نہیں ہیں اور ان مسائل کا حل تعلیم ، سائنسی علم کے حصول اور اعلی ٹیکنالوجی کے حصول میں ہے۔ ہمارے پالیسی سازوں کو یہ بات لازمی طور پر سمجھنی چاہئے کہ عوامی شعور میں مستقل اضافہ ہو رہا ہے جس سے ان میں بے چینی پھیل رہی ہے، یہ بے چینی مزید برقرار رہی تو کسی سونامی کا سبب نہ بن جائے۔

تازہ ترین