محمودالحق
روزانہ ہی ہم زندگی گزارنے اور جینے کے ڈھنگ کے لئے طرح طرح سے خیالات کی کھیتی میں بیج ڈال کر سوچ سے آ بیاری کرتے ہیں ۔زمین کو ہموار کرنے کا عمل مستقبل کی اچھی فصل کی امید میں آنکھوں میں لہلاتے کھیت کا منظر بسا لیتے ہیں ۔ماضی بنجر اور سخت زمین کی طرح پہلی فصل کے بعد اپنے منطقی انجام کو پہنچ جاتا ہے ۔
کوشش میں اگر کمی یا کوتاہی رہ گئی ہو تو اسے پورا کرنے کی حتی الوسع سعی کی جاتی ہے،مگر قدرتی آفات یا نا گہانی آفت سے ہونے والے نقصان کا ازالہ ممکن نہیں ہوتا ۔
بیج سے پیدا ہونے والا پودا دو بار جینے کے لیے لڑتا ہے ۔ پہلے بیج سے اور پھر زمین سے نکلتے وقت ، اس کے بعد وہ حالات کے رحم و کرم پر چلا جاتا ہے ۔بارش کی کمی بیشی اور دھوپ چھاؤں میں بڑھنے اور پھلنے پھولنے میں محتاج دعا ہو جاتا ہے ، وہاں وہ کسی کو بہت زیادہ خوشی دیتا ہے تو کسی کو مایوسی ۔
اسی طرح انسان بھی دو طرح سے جینے کی جنگ کرتا ہے ۔ پہلی بار ماں کی کوکھ تو دوسری بار زمین کی گود، پھر حالات اور ماحول اس کی نشوو نما میں تبدیلیوں کا باعث ہوتے ہیں ۔خوشیاں لہلہاتے کھیتوں کی طرح پروان چڑھتی ہیں ،دکھ تکلیفیں نا گہانی آفت سے تباہ حال فصل کا منظر پیش کرتی ہیں ۔
کوشش میں اگر کمی ہو تو حالات کی ذمہ داری قسمت پر ڈال دی جاتی ہےجو رو دھو کر شکوہ پر ختم ہوتا ہے ۔محنت کی آبیاری سے صبر و شکر کی فصل تیار ہوتی ہے،خیالات کی کھیتی میں شکوہ کی فصل کاٹی جاتی ہے ۔ہر نئی فصل کے بونے اور کاٹنے میں جو نتائج سامنے آتے ہیں ۔
وہ کھیتی کے تیار کرنے کے مراحل میں اختیار کی جانے والی حکمت عملی پر منحصر ہوتے ہیں ۔انسانی معاشرہ ان ہی بنیادوں پر استوار ہوتا ہےجو اسے فراہم کی جاتی ہیں ۔محنت اور کوشش کے بغیر حاصل ہونے والے نتائج شکوہ و الزام پر منتج ہوتے ہیں ۔
بنیاد رکھنے والے تو کوشش اور محنت سے گلشن کو مہکاتے ہیں ، اب پرانے پودوں پر انحصار کے بجائے نئی فصل کی آبیاری بھی ضروری ہوتی ہے ، مضبوط جڑیں وقت کے ساتھ ساتھ بوڑھی ہو کر کھوکھلی اور زمین سخت ہو جاتی ہے ۔ نئے پودوں کے لئے زمین ہر بار ہموار کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، تاکہ نئی جڑیں اپنے وجود کو سینچ سکیں ،جب نئے پودوں میں خود پنپنے کی صلاحیت نہ ہو تو شکوہ ان ہی پر رہ جاتا ہے ۔
زندگی جینے اور گزارنے کے ڈھنگ میں محنت کے پھل سے صبر و شکرکریں تو شکوہ زبان پر نہیں آتا ،بلکہ فصل پروان چڑھتی ہے۔ کمزور پودے زندگی تو پالیتے ہیں ، مگر طوفانی حالات کے تھپیڑوں سے اپنے آپ کو نہیں بچا پاتے ۔بالٹی بھر دودھ پینے سے دیسی گھی اور مکھن کی توانائی حاصل نہیں ہوتی ۔پانی اپنا رنگ دکھاتا ہے اور انہیں بھی ساتھ بہا لے جاتا ہے ۔محنت توانائی کو پانی کی حجابت سے آزاد کر دیتی ہے ۔
جب تک خود کواصولوں کا پابند نہ کیا جائے ، شکوے مسلسل کئے جاتے رہیں گے اور ان کا نشانہ محسن بنیں گے جو انفرادیت میں والدین اور اجتماعیت میں قائدین ہوتے ہیں جو آزادی دلاتے ہیں ،ایک کردار و گفتار میں تو ایک روح و افکار میں ۔دوسروں کی اُٹھی انگلی کو بندوق کی نالی سمجھنےوالے صرف’’ کوے ‘‘ہو سکتے ہیں ۔کیونکہ راہزنی کرتے کرتے سب انہیں اپنے دشمن نظر آتے ہیں ،جبکہ وہ خود اپنے دشمن ہوتے ہیں ۔