• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
با اعتماد خواتین....فیصلہ سازی میں بہترین

نجم الحسن عطاء

کامیابی ان کے قدم چومے گی جو پُرعزم اور با اعتماد ہوتے ہیںیعنی کسی بھی مقصد میں کامیابی کیلئے بااعتماد ہونا ضروری ہے۔ جس کسی میں خود پر اعتماد نہ ہو، وہ زندگی میں کامیابی اور اچھے فیصلوں سے محروم رہے گا۔ 

اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اچھے فیصلوں کیلئے خود پر بھروسہ اور پُر اعتماد ہونا ضروری ہے۔ فی زمانہ، خواتین مختلف شعبہ حیات میں اپنی کامیابیوں کے سنگ میل طے کررہی ہیں کیونکہ وہ بااعتماد،خود پر بھروسہ اور پُر عزم شخصیت کے مالک ہیں۔

 خواتین اگر بااعتماد اور پر عزم جذبہ کے ساتھ کام کرنے کی کوشش کریں تو کامیابی ان کے بھی قدم چومے گی مگر ہمیں اپنے ذہنوں سے منفی خیالات کو نکال کر ان کی جگہ مثبت سوچ و فکر کو پیدا کرنا ہوگا تب ہی خواتین پُر عزم اور اپنے اندر اعتماد کو پروان چڑھا پائیں گی۔

 ہماری مائوں اور بہنوں کوپہلے احساس کمتری کے خول سے باہر آنے کی ضرورت ہے۔ منفی سوچ،حسد و جلن اور سازشی تانے بانے کو ترک کرتے ہوئے مثبت ذہن اور اپنے بازو پر بھروسہ کرتے ہوئے مقصد کے حصول کیلئے صحیح فکر کے ساتھ جدوجہد کرنا ہوگی۔

مسائل سے گھبرانا کیسا؟

بااعتماد خواتین برائیوں سے دور رہتی ہیں اور وہ لا حاصل گفتگو میں پڑنے سے خود کو بچاتے ہوئے اپنے خوابوں کو عملی شکل دینے کیلئے منصوبہ بنانے میں خود کو مصروف رکھتی ہیں۔ یہ مشاہدے میں آیا ہے کہ بااعتماد خواتین دوسروں کی اندھی تقلید نہیں کرتیں۔وہ فیصلہ ساز ی میں آگے آگے رہتی ہیں۔ انہیں فیشن کے ٹرینڈ کی کوئی پرواہ نہیں رہتی بلکہ ٹرینڈکے خلاف اپنی پسند،ذوق کے مطابق خریداری کرتی ہیں۔ 

گھریلو اور ملازم پیشہ خواتین گھریلو کاموں کیلئے بہت زیادہ وقت مختص کرتی ہیں اور وہ گھر کے کاموں میں اتنا مصروف رہتی ہیں کہ ناشتہ،لنچ کو بھی خیر باد کردیتی ہیں جبکہ با اعتماد خواتین گھر کے کام کرتے ہوئے متوازن خوراک، مناسب نیند اور اپنی صحت پر بھر پور توجہ دیتی ہیں۔

 خود اعتمادی سے محروم خواتین چھوٹے چھوٹے مسائل پر پریشان ہونے لگتی ہیں جبکہ با اعتماد خواتین کا معاملہ اس کے برعکس ہوتا ہے اور وہ ان مسائل سے گھبرانے کے بجائے ان کے حل کے تدابیر اختیار کرتی ہیں اور اپنی ذہنی استعداد کے مطابق ان مسائل سے چھٹکارا پانے کی کوشش کرتی ہیں۔ 

دنیا کی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ مسلسل کامیابیاں حاصل کرنے والے انسان کو کبھی ناکامی سے واسطہ نہیں پڑا۔ کامیابیاں اور ناکامیاں ہر ایک کے حصہ میںآتی ہیں کسی کو پہلے مشکلات جھیلنی پڑتی ہیں بعد میں اسے راحتیں میسر آتی ہیں تو کسی کی جھولی پہلے خوشیوں کے لمحات سے بھرتی ہے اور بعد میں اسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتاہے۔

کم ہو رہا ہے احساس کمتری

خوشی کے ساتھ غم،راحت کے ساتھ مشکل، دولت کے ساتھ تنگدستی جڑی رہتی ہے۔ اس لئے مسلم ماؤں بہنوں کو چاہئے کہ اپنے اندر اعتماد پیدا کریں۔ احساس کمتری کا لبادہ اتار کر پھینک دو پھر اپنے بازو اور اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے کام کرتی جائیں کیونکہ آج کی دنیا میں خواتین ترقی کے ہر میدان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں حالانکہ انہیں کئی مسائل کا سامنا ہے۔انہوں نے معاشی میدان میں اپنا کردار ادا کرنے کا پختہ فیصلہ کرلیا ہے اور اس میں کاروبار کے بارے میں بہترین فیصلے کررہی ہیں۔

 تاہم مسائل کے باوجود معاشی ترقی میں خواتین نمایاں حصہ لے رہی ہیں۔وہ زمانہ تو اب گزر گیا جب گھر سے باہر کے تمام کام صرف اور صرف مردوں کی ذمہ داری سمجھے جاتے تھے۔تعلیم تیزی سے تبدیلی لارہی ہے۔اعلیٰ تعلیم کی درس گاہوں میں اب خواتین مردوں کی نسبت زیادہ تعداد میں دیکھی جارہی ہیں۔

ترقی کے در کھل رہے ہیں 

بہت پہلے خواتین کے لئے تعلیم اور صحت کے شعبے ہی مناسب سمجھے جاتے تھے۔لیکن اب تو دنیا میں کوئی بھی شعبہ ایسا نہیں ہے جہاں تعلیم یافتہ خواتین نے اپنی جگہ نہ بنائی ہو۔خواتین صدور اور وزرائے اعظم کے بارے تو ہم سبھی جانتے ہیں لیکن اب عالمی سطح کے سب سے بڑے مالیاتی ادارے IMFکو بھی ایک قابل خاتون کرسچن لگارڈے کامیابی سے چلا رہی ہیں۔

اس سے پہلے یہی خاتون فرانس کی وزیر خزانہ تھیں۔جونہی دنیا میں خواتین کو تعلیم کے مواقع ملے ان میں چھپی ہوئی صلاحیتیں ظاہر ہونا شروع ہوگئیں۔ایک تازہ رپورٹ کے مطابق چین، ہندوستان،برازیل،جنوبی افریقہ اور روس کے کاروباری اداروں پر30 فیصد خواتین حکمرانی کررہی ہیں۔

یہ شرح جی سیون (G7) جیسی قدیم تنظیم سے زیادہ ہے جہاں بڑے کاروباری اداروں پر صرف 20 فیصد خواتین چھائی ہوئی ہیں۔چین سے تو نئی طرز کی خبریں ہیں۔

وہاں مالیاتی شعبوں میں60فیصد خواتین اعلیٰ عہدوں پرکام کررہی ہیں۔یہ شرح عالمی شرح سے بہت ہی زیادہ ہے۔تعلیم کے یکساں مواقع ملنے سے اب عالمی سطح پر جنسی امتیازکم سے کم ہوتا جارہا ہے۔ ہم اپنے ملک میں بھی تبدیلی دیکھ رہے ہیں۔

1999-2000ء میں کل لیبر فورس میں خواتین کا حصہ صرف13.7 فیصد تھا لیکن اب یہ حصہ21.6 فیصد ہوگیا ہے۔پاکستان کا اب کوئی بھی محکمہ ایسا نہیں ہے کہ جہاں تعلیم یافتہ خواتین نے اپنی جگہ نہ بنائی ہو۔CSSسے لیکر مسلح افواج تک خواتین میں موجود صلاحیتیں اب تسلیم کی جارہی ہیں۔

ہندوستان میں تو گزشتہ 8سالوں میں کل لیبر فورس میں خواتین کاحصہ4 فیصد سے بڑھ کر 34 فیصد تک ہوگیا ہے۔یوں لیبر فورس میں ہر سال4 فیصد خواتین کا حصہ بڑھ رہا ہے۔ہندوستان اب تعلیم پر بہت زیادہ خرچ کررہا ہے۔اور یہ اخراجات دونوں جنسوں پر برابر ہورہے ہیں۔اس لئے تیز ی سے لیبر فورس میں خواتین کا حصہ بھی بڑھتا جارہا ہے۔

چین کے حالات خواتین لیبر فورس کے لحاظ سے اس لئے بہتر ہیں کہ وہاں انقلاب کے بعد ہی تعلیم سب کے لئے لازمی قرار دے دی گئی تھی۔عورتوں اور مردوں دونوں سے کھیتوں اور فیکٹریوں میں برابر کام لئے جاتے تھے۔بچوں کی پرورش کے لئے بچہ گھربہت بڑے پیمانے پرشروع میں ہی بن گئے تھے۔وہاں کام کے دوران بھی خواتین اور مردوں کو اپنی تعلیمی صلاحیتوں میں اضافہ کے برابر مواقع ملتے رہے ہیں۔

اسی لئے اب اعلیٰ تکنیکی اور معاشی عہدوں پر خواتین کام کرتی اور ملک کی معاشی ترقی میں حصہ لیتی نظر آتی ہیں۔چین کے ساتھ ساتھ پورے مشرقی ایشیا میں خواتین نے اپنے اپنے ملکوں کی ترقی میں بہت اہم رول ادا کیا ہے۔

پاکستان کی صورتحال

پاکستان میں بھی غربت کے خاتمے کے کئی پروگرام شروع کئے گئے۔ان میں سے ایک بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام ہے۔جو پہلی دفعہ 2008-09ء کے بجٹ میں35 ارب روپے سے شروع کیاگیا۔اس کے بعد یہ رقم بڑھتی چلی گئی۔یہ پروگرام موجودہ حکومت کے دورمیں بھی جاری ہے۔

لیکن شروع ہی سے ایسی رقومات خواتین میں نقد تقسیم کی جارہی ہیں۔کاروبار کے لئے اس میں برائے نام حصہ ہے۔اگر شروع سے ہی یہ رقومات ایسی خواتین کو دی جاتیں جو اس سے چھوٹے چھوٹے کاروبار شروع کرلیتیں تو اب تک اس کے بہت ہی خوشگوار نتائج نکلتے۔پیداوار میں اضافہ ہوتا۔

بے روزگاری ختم ہوتی اور نتیجتاً غربت میں کمی ہوچکی ہوتی۔یوں ملک کی معاشی ترقی میں خواتین کے رول میں اضافہ ہوتا۔خوشحالی بینک کی طرح کے پاکستان میں اور بھی ادارے ہیں جو لوگوں کو چھوٹے چھوٹے قرض فراہم کرتے ہیں۔لیکن پاکستان میں بنگلا دیش کی طرح خواتین کو ترجیح نہیں دی گئی۔اس طرح معاشی ترقی میں خواتین کا رول بڑھ نہیں سکا۔

اب موجودہ حکومت نے نوجوانوں کے لئے قرض سکیم شروع کی ہے۔ کل 100 ارب روپے تقسیم کرنے کا پروگرام ہے۔یہاں یہ طے کیا گیا ہے۔کہ ان قرضوں میں سے50 فیصد قرض خواتین کو دیئے جائیں گے۔ اگر اس سکیم پر صحیح انداز اور ایماندارانہ طریقے سے عمل ہوا تو پاکستانی خواتین کو بہت فائدہ ہوگا۔یہ اپنے چھوٹے چھوٹے کاروبار شروع کرسکیں گی۔ 

خواتین میں اعتماد پیدا ہوگا۔یہ اپنے خاندان کے لئے انتہائی فائدہ مند بن جائیں گی۔اگر مرد اور عورت دونوں اپنے خاندان کی فلاح وبہبود کے لئے کام کریں گے تو نتائج بہت ہی بہتر ہونگے۔اپنے بچوں کو وہ اعلیٰ تعلیم دلا کر معاشرے کے لئے بہتر افراد تیار کرسکیں گے۔ہمارے اکثر خاندانوں میں یہی رواج ہے کہ ایک مرد کماتا ہے اور پورا خاندان اسی پر انحصار کرتا ہے۔یوں بے چارہ مرد بوجھ تلے دبا رہتا ہے۔ 

سب جانتے ہیں کہ نواز شریف کی قرض سکیم عورتوں اور مردوں دونوں کے لئے بہتر ثابت ہوئی۔ دوردراز دیہات تک بھی یہ رقومات پہنچیں۔ دیہات کی جوان خواتین کو بھی قرض ملے اور انہوں نے چھوٹے چھوٹے کام شروع کرکے اپنے آپ کو غربت سے نکالنے میں کامیاب ہوئیں۔یوں وہ اپنے آپ کو بااعتماد اور طاقتور محسوس کیا ۔عورتوں کے ذریعہ روزگار کی بڑی اہمیت ہے۔

خود کفالت کا راستہ

لڑکیاں جب والدین کے گھر ہوتی ہیں تو وہ پیسے کے لئے باپ کی طرف دیکھتی ہیں۔اور شادی کے بعد ان کا واحد سہارا خاوند ہوتا ہے۔عورت اسی وقت ذمہ دارانہ آزادی محسوس کرے گی جب وہ خود بھی کمائے۔پاکستان میں عورت کی غربت خود کوئی نہ کوئی کام کرنے سے ہی ختم ہوسکتی ہے۔

جیسا کہ پہلے بتایاگیا ہے کہ پاکستان کی لیبر فورس میں خواتین کا حصہ ابھی تک21.6 فیصد ہی ہے۔اسے مزید بڑھانا ضروری ہے۔پاکستان میں کئی خواتین نے اپنی صلاحیتیوں کا لوہا اپنی کامیاب کمپنیاں بنا کر منوایا ہے۔اور یوں معاشی ترقی میں اہم رول اداکیا ہے۔پاکستان سافٹ وئیر ایسوسی ایشن کی صدر بھی ایک قابل خاتون ہیں۔

ایسی ہی بے شمار خواتین جنہیں اپنے خاندان کی وجہ سے تعلیم کے مواقع ملے وہ ملازمت اور کاروبار میں آگے بڑھ گئیں۔اعلیٰ تعلیم کے یہ مواقع خواتین کے لئے دور دراز دیہات اور ٹائونز تک پھیلائے جائیں۔یوں وہ نہ صرف روزگار حاصل کرسکیں گی بلکہ زندگی کے اعلیٰ مقاصد تک ان کی رسائی ہوگی۔حکومت کو چاہیے کہ خواتین کے لئے ایسے کاروباروں اور ملازمتوں کے مواقع فراہم کرے جہاں وہ اسلامی تہذیب کے دائرے میں رہتے ہوئے سکون سے اپنی روزی کما سکیں۔

ایسی فیکٹریاں،کمپنیاں اور بینک جہاں مکمل طورپر خواتین ہی چھائی ہوئی ہوں، انتظامیہ اورکارکن وہ خود ہی ہوں، یوں معاشی ترقی میں خواتین کا حصہ تو ہو لیکن عزت و احترام کا رشتہ بھی قائم رہے۔

تعلیم سے بڑھ کر بھی ہیں میدان

مشرق میں خواتین کا تعلیم میں آگے بڑھنا کوئی بہت قدیم کارنامہ نہیں ہے۔یہ صرف گزشتہ50تا60سال کی بات ہے۔لیکن اب یہ خواتین مغربی خواتین کی نسبت زیادہ اعتماد اور یقین سے تیزی سے آگے بڑھ رہی ہیں۔چین سے جاپان اور انڈونیشیا تک پھیلے ہوئے یہ ممالک بڑی تیزی سے ترقی کررہے ہیں۔مغرب ان کی ترقی سے حیران وپریشان ہے۔

ان کی حیرانی اور پریشانی میں اضافہ مشرقی خواتین نے بھی کیا ہے جہاں تک مشرقی خواتین میں ذمہ دارانہ رویے کا تعلق ہے یہ بات بنگلادیش کی خواتین نے عالمی سطح پر ثابت کر دی ہے۔ڈاکٹر محمد یونس کے گرامین بینک نے جب شروع میں قرض دیئے تو قرض کی واپسی خواتین کی طرف سے99فیصد تھی۔بعد میں تمام چھوٹے چھوٹے قرض صرف خواتین کو دینے کا سلسلہ شروع ہوا۔خواتین نے گائوں میں ہی چھوٹے چھوٹے کام شروع کئے۔

قرض واپس کیا۔مزید قرض لیا اور یوں ان خواتین نے نہ صرف اپنے آپ کو بلکہ پورے خاندان کواپنے پائوں پر کھڑا کردیا۔خواتین کے ایسے کارناموں نے بنگلادیش کی غربت میں کمی کی ہے۔مردوں کی نسبت خواتین نے یہ کارنامہ بڑی ذمہ داری سے اداکیا۔اگریہ قرض اخوت کی طرح بغیر سود کے ہوتا تو نتائج اور زیادہ بہتر نکلتے۔

تازہ ترین