’’مجھ کو آواز دے تو کہاں ہے‘‘اگرچہ مہدی حسن نے گایا لیکن اس کے خالق خواجہ خورشید انور تھے۔خواجہ خورشید انور کی موسیقی اورمہدی حسن کی آواز نے سب پر سحر طاری کردیا۔ وہی خواجہ خورشید انور جن کو شاہ ایران کی طرف سے’’کنگ آف میلوڈی‘‘ کا خطاب دیاگیا۔ وہ تقسیم ہند سے پہلے ہی اپنے فن کی پہچان کراچکے تھے لیکن پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد ان کی فنی گہرائی اور انفرادیت کا ہر کوئی قائل ہوا۔خواجہ خورشید انور اعلیٰ تعلیم یافتہ موسیقار تھے ، ان کا تعلق موسیقی کے کسی گھرانے سے نہیں تھا۔
انہیں موسیقی کی سوجھ بوجھ قدرت کی طرف سے عطا ہوئی۔انہوں نے ہارمونیم یا کسی دوسرے ساز کے بجائے ماچس کی ڈبیا پر مقبول عام دھنیں تخلیق کیں۔ ان کے تخلیقی ذہن نے فلمی موسیقی کو نئی جہتوں سے ہمکنار کیا یہی وجہ ہے کہ ان کے گیتوں نے ہر دور اور نسل کے افراد کو اپنا گرویدہ بنایا ہے۔
خواجہ خورشید انور 1912 میں میانوالی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد خواجہ فیروز الدین میانوالی میں وکیل تھے جوبعد میں لاہور منتقل ہو گئے۔ خواجہ صاحب نے لاہور سے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور 1929 میں گورنمنٹ کالج لاہور کے شعبہ سائنس میں داخل ہو گئے۔
تھرڈ ایئر میں پہنچے تو ان کی ملاقات فیض احمد فیض سے ہو گئی جو ان دنوں مرے کالج سیالکوٹ سے ایف اے کر کے کالج میں داخل ہوئے تھے۔خواجہ صاحب سائنس اور فیض صاحب آرٹس کے شعبے میں تھے۔ ان دنوں ہندوستان میں سیاسی ہیجان کا دور تھا ملکی سیاست میں تشدد داخل ہو چکا تھا ۔
خواجہ صاحب نے بھی سیاست کے میدان میںقدم رکھ دیا۔ان کے والد خواجہ فیروز الدین موسیقی سے رغبت رکھتے تھے۔ ان کی بیٹھک میں انڈین کلاسیکل اور نیم کلاسیکل موسیقی کے ریکارڈ موجود رہتے تھے جن سے خواجہ خورشید انور اپنے ذوق کو تسکین پہنچاتے۔
انہوں نے بیٹے کو استاد توکل حسین خان کی شاگردی میں دے دیا۔ موسیقی سیکھنے کے ساتھ ساتھ خواجہ خورشید انور نے تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھا اور 1935 میں ایم اے فلسفہ کے امتحان میں ٹاپ کیا اور گولڈ میڈل کے مستحق قرار پائے۔ بعد ازاں فیض احمد فیض کے ساتھ انڈین سول سروس کا امتحا ن بھی دیا جس میں بھگت سنگھ تحریک کی وجہ سے فیل کر دیے گئے۔
پنجاب یونیورسٹی میں جب ان کو فلسفہ کے امتحان کی پہلی پوزیشن کے گولڈ میڈل کے لیے بلایا گیا تو وہ تقریب میں شریک ہی نہ ہوئے۔ بعد ازاں وہ دہلی چلے گئے جہاں انہوں نے ریڈیو سے بطور میوزک پروڈیوسر وابستگی اختیار کر لی۔ لیکن جلد ہی یہاں سے بھی دل بھر گیا اور نوکری چھوڑ دی۔
اپنے عہد کے اس عظیم موسیقار کے تخلیقی سفر کا آغاز ویسے تو 1939میں آل انڈیا ریڈیو لاہور سے ہوتا ہے لیکن یہ بات 1941 کی ہے جب ان کی ترتیب دی ہوئی موسیقی کی پہلی فلم کڑمائی بمبئی سے ریلیز ہوئی۔ اور یوں گلوکارہ راجکماری کی آواز میں ’’ماہی وے راتاں‘‘ سے خواجہ صاحب کے فلمی موسیقی کے سفر کا آغاز ہوتا ہے۔
ان دنوں بمبئی کی فلمی صنعت میں فلمساز اور ہدایت کار اے آر کاردار کا طوطی بول رہا تھا۔ انہوں نے فلم کی دعوت دی تو خواجہ صاحب نے قبول کرتے ہوئے پنجابی فلم’’کڑمائی ‘‘(1941 )کی موسیقی دی جس کے نغمے نامور گلوکارہ راج کماری نے گائے۔ اس فلم کے گانے ’’ماہی وے راتاں ‘‘ نے برِصغیر میں دھوم مچادی ،اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے فلم اشارہ (1942)، پرکھ (1943)، یتیم(1944 )،آج اور کل (1945)، پگڈنڈی، پروانہ (1946)، سنگھار(1949 )، نشانہ (1950 )، اور نیلم پری(1952 ) کی موسیقی دی۔
ان فلموں کے گیتوں نے شائقین کے دلوں پر راج کیا۔ بھارت میں خواجہ صاحب نے سہگل۔آشا بھوسلے ،گوہر سلطانہ،گیتا رائے ، زینت بیگم، سریندر کور، جی ایم درانی، منور سلطانہ اور راج کماری جیسے نامور سنگرز سے اپنی موسیقی میں گیت گوائے۔1946 میں بننے والی فلم پروانہ اور 1949میں بننے والی فلم سنگھار کی عمدہ موسیقی دینے پر دو بار ٹائمز آف انڈیا ایوارڈ دیاگیا۔
1953 میں خواجہ خورشید انور پاکستان لوٹ آئے۔ یہاں آئے تو اس وقت بابا جی اے چشتی اردو اور پنجابی فلموں کی موسیقی کے لیے ضرورت بنے ہوئے تھے۔ ماسٹر غلام حیدر مرحوم کی فلم گلنار کے گانوں کی دھوم مچی ہوئی تھی، ماسٹر عنایت حسین کی فلم گمنام اور قاتل باکس آفس پر چھائی ہوئی تھیں، رشید عطرے ، فیروز نظامی اور صفدر حسین کے کام کا بھی طوطی بول رہا تھا۔
لیکن ان سب میں آکر خواجہ خورشید انور نے اپنی محنت کے سبب اپنا منفرد مقام بنایا۔خواجہ خورشید انور کو ئی بھی ساز نہیں بجا سکتے تھے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ وہ ماچس کی ڈبی پہ دھنیں بنایا کرتے تھے۔ خواجہ صاحب نے پاکستان آکر فلم ’’انتظار ‘‘کی موسیقی ترتیب دی جس کے نغموںنے ہر سو دھوم مچادی ’’ہو جانے والے رے ‘‘نے شہرت کے تمام ریکارڈ توڑ دیے۔ خواجہ صاحب اس فلم کے موسیقار ،کہانی کار اور فلمساز بھی تھے۔
اس وقت کے صدرِ پاکستان سکندر مرزا جب ایران کے دورے پر گئے تو فلم ’’انتظار ‘‘کو بھی ساتھ لے گئے۔ شہنشاہ ایران نے فلم دیکھی تو اس کی موسیقی کی تعریف کرتے ہوئے خواجہ خورشید انور کو ’’کنگ آف میلوڈی‘‘ کا خطاب دیا۔ اس فلم کو نغمہ بار بھی کہا جاتا ہے۔ قتیل شفائی کے لکھے نغموں نے خواجہ خورشید انور کی موسیقی میں ہر طرف دھوم مچا رکھی تھی جس سے فلم کو انٹر نیشنل سطح پر پذیرائی ملی، اس فلم کے تمام نغمے فلم کی ہیروئن نورجہاں نے ہی گائے نغمہ بار فلم کی وجہ سے انہیں بھی ’’ملکہ ترنم ‘‘کا خطاب ملا جو پھر ان کی زندگی کا حصہ بن گیا۔ اس فلم کو تین صدارتی ایوارڈ ملے۔
اس فلم کی ریلیز کے ایک ہفتہ بعد ان کی نئی فلم ’’مرزا صاحباں‘‘ ریلیز ہوئی جو فلاپ ہو گئی۔ 1958 میں فلم ’’زہر عشق ‘‘ ریلیز ہوئی یہ بھی ایک مکمل میوزیکل فلم تھی۔1959 کا سال ان کے لیے کامیابیوں کا سال تھا۔
مزید کامیابیاںان کے قدم چوم رہی تھیں۔ اس سال ان کی دو فلمیں ’’جھومر ‘‘ اور ’’کوئل ‘‘ریلیز ہوئیں، جھومر نے ایک بار پھر خواجہ صاحب کی موسیقی کے جھنڈے گاڑ دیے۔ اس فلم میں ناہید نیازی کی آواز میں گائے گئے گیتوں’’چلی رے چلی رے چلی رے میں تو دیس پیا کے چلی رے ‘‘ ،’’اِک البیلا پر دیسی دل میں سما گیا ‘‘ ،’’پیا پیا نہ کوک ‘‘نہ کوئی سیاں میرا‘‘ جب یاد کسی کی تڑپائے‘‘ ونجلی بجائے دور سے کوئی ‘‘ نے شائقین کے دل موہ لیے۔
1960 میں فلم ’’ایاز‘‘ ریلیز ہوئی اس فلم کے گیت’رقص میں ہے سارا جہاں ‘‘ اور ناہید نیازی ، زبیدہ خانم ، اور کوثر پروین کی آواز میں ریکارڈ کی گئی نعت نے بے مثال شہرت پائی۔ 1962میں خواجہ صاحب کی ذاتی فلم ’’گھونگھٹ ‘‘ ریلیز ہوئی جس کے نغمے ’’ کبھی ہم بھی تم بھی تھے آشنا‘‘ نے بے پناہ شہرت حاصل کی، اسی فلم میں خواجہ صاحب گائیک مہدی حسن کو لے کر آئے اور ان کی آواز میں گانے ریکارڈ کیے۔1964 میں فلم حویلی ‘‘فلم ’’چنگاری‘‘ ریلیز ہوئیں جن کے گیتوں ’’شکوہ نہیں کسی سے گلہ نہیں ‘‘، ’’اے روشنیوں کے شہر بتا‘‘، ’’اِ ک دل نے کہی اِک دل نے سنی ‘‘ نے شائقین کو مسحور کیا۔1968 میں فلم ’’سر حد ‘‘ اور 1969 میں فلم ’’ہمراز‘‘ ریلیز ہوئیں اس کے بعد 1970 میں ان کی دو پنجابی فلمیں ’’گڈو‘‘ اور ’’ہیر رانجھا ‘‘ ریلیز ہوئیں ۔’’گڈو ‘‘ فلاپ ہو گئی لیکن ’’ہیر رانجھا‘‘ نے شہرت کے نئے ریکارڈ قائم کر دیے۔ اس فلم میں احمد راہی کے لکھے نغموں ’’سن ونجلی دی مِٹھڑی تان وے ‘‘ ’’ونجلی والڑیا ‘‘ اور دیگر نغمے آج بھی روز ِ اول کی طرح لوگوں کی پسند ہیں، اس فلم میں استاد سلامت حسین نے بانسری کے کمال جوہر دکھائے۔ یہ فلم اپنے گیتوں اور کہانی کی وجہ سے سحر انگیز کہلائی۔
1971 میں ریلیز ہونے والی فلم ’’سلام ِ محبت ‘‘ اور ’’ پرائی آگ ‘‘ کے نغموں ’’کیوں ہم سے خفا ہوگئے اے جانِ تمنا ‘‘بھیگے ہوئے موسم کا مزہ کیوں نہیں لیتے‘‘سن پگلی پون سن اْڑتی گھٹا ‘‘نے خواجہ صاحب کی شہرت کے ریکارڈ کو برقرار رکھا۔اس فلم میں انہوں نے احمد رشدی کو پہلی بار متعارف کرایا۔
1975’’شیریں فرہاد‘‘ 1978 میں ’’حیدر علی ‘‘ اور 1982 میں فلم ’’ مرزا جٹ ‘‘ریلیز ہوئیں۔ انہوں نے انڈیا میں 14سال اور پاکستان میں 26 سال موسیقی کو دیے۔ اس40 سالہ دور میں انہوں نے انڈیا کی 11اور پاکستان کی 20 فلموں کی موسیقی دی۔
انہوں نے 250گیتوں کی لازوال دھنیں تخلیق کیں۔ انہوں نے ذاتی فلمیں ’’گھونگھٹ ‘‘ ’’چنگاری‘‘ اور’’ہمراز ‘‘ بنائیں جن کی کہانی خود لکھی ، ان کی ہدایات اورموسیقی بھی خود دی۔ انہوں نے موسیقی میں تجربات کیے۔ ان کے سازوں کی ترتیب منفرد ہوتی تھی۔
مختلف سازوں کا غالب حیثیت میں استعمال ان کا خاص ہنر تھا۔ مثال کے طور پر ہیر رانجھا فلم میں انہوں نے صرف بانسری اور ڈھولک کے ساتھ گیت ریکارڈ کیے۔
فلم گھونگھٹ میں گیت ’’کوئی نہ جانے کب آئے ‘‘میں پہلی بار مندر کی گھنٹیوں کو ساز کے طور پر استعمال کیا گیا۔ انہوں نے فلم میں کورس کو رواج دیا۔ فلم’’ کوئل ‘‘کے گیت ’’ساگر روئے، لہریں شور مچائیں ‘‘ میں وائلن سے سمندر کا شور نکالا ، فلم’’ زہرِ عشق ‘‘ میں بین کی آوازکا تجربہ کیا۔ فلم انتظار میں گیت ’’ آگئے آگئے سجن پر دیسی ‘‘ میں پہاڑ کی گونج لڑکیوں کی آواز میں پیدا کی۔1980 میں انہیں حکومت پاکستان کی طرف سے ستارہ امتیاز دیا گیا۔
1982 میں انڈین فلم انڈسٹری کی طرف سے انہیں ’’فانی انسان لافانی گیت ایوارڈ ‘‘ سے نوازا گیا۔ تنہائی پسند ،کم گو ،باوقار شخصیت کے مالک خواجہ خورشید انور طویل علالت کے بعد 30 اکتوبر 1984 کو جہانِ فانی سے کوچ کر گئے تھے۔ ان کے نغمے آج بھی لوگوں کے دلوں پر راج کر رہے ہیں۔