اگرچہ اس انوکھے واقعے کے کردار سے میں کبھی نہیں ملا، لیکن 54برس گزر جانے کے باوجود اس کا نقش میرے دل و دماغ پرآج بھی تازہ ہے۔ اس شخص پر جب قدرت مہربان ہوئی، تو میں اس وقت محض آٹھ برس کا تھا،لیکن بے مثال دوستی کی یہ منفرد داستان میرے لیے ناقابلِ فراموش ہے۔
کراچی میں رہائش پزیر بشیر نامی شخص انتہائی غربت کی زندگی بسر کررہا تھا، وہ روز علی الصباح اپنی اونٹ گاڑی لے کر مال برداری کے لیے شہر کی مرکزی منڈی پہنچ جاتا، جہاں سارا دن سامان لاد کر اِدھر ادھر پہنچاتا۔ مال برداری اس کا پیشہ تھا، اس لیے اپنے اونٹ سے بے حدمحبت کرتا ، اسے خوب سجاسنوار کے رکھتا، کبھی معمول سے ہٹ کراچھی اجرت مل جاتی، تو گاڑی کی سجاوٹ پر دل کھول کر خرچ کرتا۔
ہر روز کی طرح اس روز بھی وہ صبح سویرے جاگ گیا تھا، اسے اندازہ نہیں تھا کہ اس دن خوش بختی اس کے دروازے پر دستک دینے والی تھی۔
معمول کے مطابق اپنے ضروری امور سے فارغ ہوکر اس نے اونٹ گاڑی کی صفائی اور آرائشی اشیاء سے سجاوٹ کی اور پھر اللہ کا نام لے کر مزدوری کے لیے نکل کھڑا ہوا۔ ایک بڑی مارکیٹ میں پہنچ کر وہاں سے سامان لاد کے آگے روانہ ہوگیا۔ سارا دن اسی طرح سامان لادنے اور اتارنے میں بشیر کو وقت کا پتا ہی نہ چلا اور شام کے پانچ بج گئے، تو اس نے گھر کا رستہ لیا۔ ابھی وہ ڈرگ روڈ سے کارساز روڈ کی طرف مڑا ہی تھا کہ اچانک ایک سپاہی نے بڑی درشتی سے اسے آگے بڑھنے سے روک دیا۔
کیوں کہ اس وقت ایک انتہائی اہم شخصیت کی سواری وہاں سے گزرنے والی تھی۔ بشیر ساربان چار و ناچار اپنے اونٹ کو بہ مشکل روک کر بے بسی کے عالم میں وہیں کھڑا ہوگیا۔
سخت گرمیوں کے دن تھے، اس نے ایک میلی سے دھوتی اور شلوکہ پہن رکھاتھا، جس کی وجہ سے اس کے مونڈھوں سے بہنے والا پسینہ دور سے چمکتا نظر آرہا تھا، یہی حال چہرے کا بھی تھا، ماتھے سے پسینہ بہہ کر اس کی بڑی بڑی مونچھوں میں موتی ٹانک رہا تھا، اس کے کھڑے ہونے کے انداز میں عجیب بے نیازی اور کرّوفر تھا۔
وہ اس طرح اپنے اونٹ کے پاس کھڑا تھا کہ جیسے کسی ریاست کا مہاراجا ہو، اور اپنے مہمان کا استقبال کرنے آیا ہو۔ دراصل، اس روزامریکا کے نائب صدر، لنڈن بی جانسن، پاکستان کے سرکاری دورے پر تشریف لارہے تھے، اور انہیں اس راستے سے گزرتے ہوئے ایوانِ صدر جانا تھا۔
بشیر ساربان تھوڑاسا آگے ہوکر تجسّس بھری نگاہوں کے ساتھ دائیں طرف دیکھ رہا تھا۔ سڑک کے دونوں طرف لوگ لنڈن بی جانس کے استقبال کے لیے قطار میں کھڑے تھے۔
چوں کہ وہ ایک کشادہ چوراہا تھا، اس لیے لوگوں کو وہاں کھڑا ہونے نہیں دیا گیا، صرف بشیر ساربان،کسی لاٹ صاحب کی طرح اپنی اونٹ گاڑی کے پیچھے کھڑا تھا۔ اتنے میں گاڑیوں کے سائرن بجنا شروع ہوگئے اور پولیس کی گاڑیاں گزرنے لگیں، اس کے بعد ملٹری پولیس کے جوان، موٹر سائیکلوں پر گزرے۔ پھر چند ہی لمحوں میں امریکی نائب صدر کی گاڑی آتی دکھائی دی۔
گاڑیاں سبک رفتاری سے لوگوں کے سامنے سے گزر رہی تھیں۔ معاً امریکی صدر کی نظر بشیر ساربان اور اس کے پیچھے کھڑی اونٹ گاڑی پر پڑی، تو وہ ٹھٹھک کر اسے غور سےدیکھنے لگے۔
اللہ جانے انہیں بشیر ساربان کی کون سی ادا پسند آئی کہ انہوں نے فوراً ہی گاڑی روکنے کو کہا۔ ان کی گاڑی رکی اور بشیر ساربان کے بالکل سامنے آکر کھڑی ہوگئی۔ امریکی نائب صدر گاڑی سے نیچے اترے، تو قافلے میں شامل حفاظتی دستے کے اہل کاروں نے قریب آکر اردگرد سیکوریٹی حصار قائم کرلیا۔
لنڈن بی جانسن نے قریب پہنچ کر بشیر ساربان سے ہاتھ ملایا اور اونٹ گاڑی کی طرف اشارہ کرکے پوچھا ’’یہ کیا چیز ہے؟‘‘بے چارے بشیر ساربان کو انگریزی تو آتی نہیں تھی، لہٰذا مترجم کی خدمات حاصل کی گئیں، جس کی مدد سے انہیں بتایا گیا کہ ’’یہ ایک بڑی اونٹ گاڑی ہے، جو سامان اٹھانے کے کام آتی ہے اور یہ صاحب اس گاڑی کو چلاتے ہیں۔‘‘
اس پر نائب صدر نے بشیر ساربان کے کندھے پر محبت سے ہاتھ رکھ کر کہا ’’بشیر! کیا تم میرے دوست بننا پسند کروگے؟‘‘ اس اچانک پیش کش پر بشیر ساربان نے مسکرا کر ایک اچٹتی ہوئی نگاہ ان پر ڈالی اور اثبات میں سر ہلادیا۔ جانسن نے اپنا دایاں ہاتھ بشیر کے ہاتھ میں دے دیا اور بڑی گرم جوشی سے ہاتھ ملاتے ہوئے اپنے ساتھ کھڑے حکّام سے کہا ’’ایوانِ صدر میں کل دوپہر کے کھانے پر یہ بھی ہمارے ساتھ شریک ہوں گے۔‘‘ بس پھر کیا تھا، اسپیشل برانچ کے افراد نے اس حکم پرفوری عمل درآمد شروع کردیا ان کی سواری گزرنے کے بعد بشیر کو ’’خاص مہمان‘‘ کا درجہ دے دیا گیا۔
اس کا ناپ لے کر فوری طور پر خصوصی شیروانی سلوائی گئی اور نہلا دھلا کر دوسرے روز صدر جانسن کے سامنے پیش کردیا گیا۔ اچکن زیب تن کرنے کی وجہ سے بشیر کی شخصیت بڑی شان دار ہوگئی تھی۔ لنچ کے بعد بات چیت کا مرحلہ شروع ہوا، تو اس نے نہایت اعتماد اور بڑے رکھ رکھائو کے ساتھ صدر جانس کے سوالات کے جوابات دئیے۔ ملاقات کے دوران ایک طرف نائب صدر جانسن اور دوسری طرف بشیر ساربان براجمان تھے۔
لنڈن بی جانسن نے بشیر ساربان کو دورئہ امریکا کی دعوت بھی دی، جسے بشیر ساربان نے خوش دلی کے ساتھ قبول کرلیااور پھر کچھ ماہ بعد ہی بشیر ساربان امریکی حکومت کے مہمان کے طور پرامریکا پہنچ گیا۔ نیویارک ائرپورٹ پر اس کا چہرہ خوشی سے چمک رہا تھا۔ اس کا استقبال صدر کے سرکاری مہمان کے طور پر کیا گیا اور ائرپورٹ پر لوگوں کے ایک بہت بڑے ہجوم نے اس کا خوب والہانہ استقبال کیا۔
دوسرے روز، نیویارک کے مئیر نے بشیر ساربان کے اعزاز میںظہرانہ دیا۔اور پھر وہاںسے بذریعہ ہیلی کاپٹر واشنگٹن ڈی سی پہنچایا گیا، جہاں ائرپورٹ پر نائب صدر، لنڈن بی جانسن بنفس نفیس،اپنی بیگم کے ساتھ موجود تھے۔ انہوں نے بڑے والہانہ انداز اور گرم جوشی کے ساتھ بشیر ساربان کی آمد پر خیر مقدمی الفاظ ادا کیے۔اس موقعے پر بشیر نے بھی جانسن کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بڑے خلوص سے کہا کہ ’’مجھے فخر ہے کہ میں امریکی صدر کا ذاتی دوست ہوں۔‘‘ اس پر نائب صدر جانسن مسکرائے اور بتایا کہ ’’میں امریکا کا صدر نہیں، بلکہ نائب صدر ہوں۔‘‘
اس پر بشیر ساربان نے بڑے بھولپن سے کہا کہ’’میری دلی خواہش ہے کہ آپ امریکا کے صدربن جائیں۔‘‘ نائب صدر کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی اور انہوں نے بڑی نرمی سے بشیر ساربان کو سمجھایا کہ ’’بشیر میرے دوست! جان ۔ایف۔کینیڈی امریکا کے صدر ہیں اور ابھی ان کی صدارتی میعاد میں دوبرس باقی ہیں۔ لیکن، ان کی مدت پوری ہونے کے بعد بھی میرا صدر بننے کا کوئی ارادہ نہیں۔
میں اور میری جماعت ایک بار پھر صدر کینیڈی ہی کو صدر منتخب کرے گی۔‘‘ اس پر بشیر ساربان نے اسی بھولپن سے کہا ’’میری اللہ سے دعا ہے کہ آپ ضرور امریکا کے صدر بنیں۔‘‘ اس پر جانسن نے ایک ہلکا سا قہقہہ لگایا اور بشیر ساربان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کے گاڑیوں کی طرف بڑھ گئے۔
وہ واقعی قبولیت کی گھڑی تھی۔ اس واقعے کے چند ماہ بعد ہی امریکی صدر جان ایف کینیڈی کو ریاست ٹیکساس کے شہر ڈیلاس میں گولیوں کا نشانہ بنا کر ہلاک کردیا گیااور خدا کی شان دیکھیے کہ وہی جانسن، جو کبھی امریکا کا صدر بننے کی خواہش نہیں رکھتے تھے،آئینی اور قانونی تقاضوں کے تحت صدر بن گئے۔ اس وقت کے اخبارات میں چھپنے والی تصویر مجھے آج بھی یاد ہے، جس میں جانسن حلف اٹھا رہے تھے۔
حلف اٹھاتے وقت صدر جانسن نےیقیناً بشیر ساربان کی دعا کے بارے میں ضرور سوچا ہوگا۔ جو شخص ایک دن کے لیے بھی امریکا کا صدر بننا نہیں چاہتا تھا، وہ ہمارے بشیر ساربان کی دعا سے چھے سال تک منصبِ صدارت پر فائز رہا اور مزید خوشی کی بات یہ ہے کہ اس دور میں امریکا سے پاکستان کے تعلقات انتہائی خوش گوار رہے۔بشیر ساربان کا وہ تاریخی، انوکھا دورہ تقریباً ڈیڑھ ماہ تک جاری رہااور ہر جگہ اس کا شان دار اور والہانہ استقبال ہوا۔
تقریبات میں شرکت کے لیے امریکا میں متعیّن پاکستانی سفیر نے بہت کوشش کی کہ بشیر ساربان ڈنر سوٹ زیب تن کرلے، مگر وہ پکا اور سچّا پاکستانی تھا، اس نے صاف انکار کردیا اور پاکستانی قومی لباس ہی میں ہر تقریب میں شرکت کی۔
ان تقریبات میں اس دَور کی بڑی نامی گرامی شخصیات نے شرکت کی تھی، جن میں معروف گلوکار بریسلے ، الزبتھ ٹیلراور اداکار انتھونی کوئین شامل تھے۔پھر بشیر ساربان کی پاکستان واپسی پر،اس وقت کے مغربی پاکستان کے گورنر، امیر محمد خان نے اس کا ہوائی اڈے پر شان دار استقبال کیا۔
میں آج بھی اس ناقابلِ فراموش واقعے کے کردار بشیر ساربان کے بارے میں سوچتا ہوں تو حیران ہوتا ہوں کہ کیسے پلک جھپکتے اس کی دنیا بدل گئی تھی اور جس کی ایک دعا نےاس کے محسن کی بھی دنیا بدل ڈالی تھی۔
(ظہیر الدین غوری، لاہور)