سلطان قلی قطب شاہ ،اویس قلی کا بیٹا تھا جو بہمنی سلطنت کے زوال پر ایران سے جان بچاکر د کن آیا اور اپنی قابلیت ،جانبازی اور وفا داری کی بدولت تیزی سے ترقی کے زینے طے کرتا گیا ۔ سن ۱۴۹۵ ء میں اسے تلنگانہ کا صوبے دار بنا دیا گیا۔ سن ۱۵۱۸ ء میں محمود شاہ بہمنی کی وفا ت کے بعدسلطان ولی قطب شاہ نے ا پنی خود مختاری کا اعلان کردیا۔
اس نے گول کنڈا کو ــــ ــــــ محمد نگر کا نام دے کر اپنا پایہ تخت بنایا ۔ اس طرح قطب شاہی سلطنت کی بنیاد پڑی۔یہ سلطنت کم و بیش ایک سو اسی سال تک سر زمین دکن پر قائم رہی ۔ اورنگ زیب نے ابوالحسن تانا شاہ کے رویے کے خلاف سن ۱۶۸۷ ء میں گول کنڈا پر حملہ کرکے اسے فتتح کر لیا ۔ گول کنڈاکی اس فتح کے بعد بہمنی سلطنت کا آخری نشان بھی مٹ گیا ۔
دکن میں جب اردو ادب کا چرچا ہوا اور اسے دربار شاہی کی سرپرستی حاسل ہوئی تو وہاں کے شاعروں اور ادیبوں کی نظر گجری ادب پر ہی گئی ۔اس روایت کو معیار تسلیم کرکے انھوں نے اس کے ان تمام عناصر کو اپنے ادب میں جذب کرلیا جو ان حالات میں تہذیبی اور لسانی سطح پر جذب کیے جاسکتے تھے ۔اس تہذیبی،معاشی اورسیاسی صورت حال کا نتیجہ یہ نکلا کہ گجرات ویران ہونے لگا اور دکن کے ادبی مراکز ابھرنے لگے ۔
بہمنی بادشاہوں کے جا نشینوں میں قطب شاہی خاندان کو خاص امتیاز حاصل ہے ۔اردو (دکھنی)ادب کی سرپرستی کے لحاظ سے ان کا دور ہمیشہ یاد گار رہے گا ۔اس دور میں اردو زبان و ادب نے غیر معمولی ترقی کی ۔ان کے عہد اردو ادب کو تین ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے ۔
(۱) ابتدائی کاوشیں جو سن ۱۵۰۸ ء سے سن ۱۵۸۰ ء کے درمیانی ۷۲ سالوں پر مشتمل ہے ۔
(۲) عروج کا زمانہ جو سن ۱۵۸۰ء سے شروع ہوکر سن ۱۶۷۲ ء تک جاری رہا ۔
(۳) دور انتشار جو سن ۱۶۷۲ ء سے شروع ہوکر سن ۱۶۸۷ ء پر ختم ہوا ۔
گول کنڈا کے پہلے چار بادشاہ سلطان قلی ،جمشید قلی ،سبحان قلی اور ابراہیم قلی زیادہ تر جنگ وجدل میں مصروف رہے ۔جمشید ،فارسی کا اچھا شاعر تھا ۔اس کا کلام کلا م ا لملوک (سلسلہء یوسفیہ ) میں شائع ہوچکا ہے ۔ابراہیم قطب شاہ کے انتقال کے وقت گول کنڈا اردو کا مرکز بن چکا تھا ۔ وجہی ،احمد اور غواصی اسی کے دور میں پیداہوئے ۔
اس کا فرزند قلی قطب شاہ تو علم و ادب کا پروانہ تھا ۔قطب شاہی حکمرانوں کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ وہ اپنی وسیع المشربی ،عوام دوستی اور کشادہ دلی کے اوصاف حسنہ کے علاوہ شعر و سخن کا اعلی مذاق بھی رکھتے تھے ۔
ان کی خوش ذوقی کے سبب گو ل کنڈا اور حیدرآباد میں علمی اور ادبی فضا پیدا ہوگئی تھی ۔ابراہیم قلی قطب شاہ نے اپنے بیرونی محل کا ایک حصہ شاعروں اور خوش نویسوں کے لیے مختص کر رکھا تھا ۔جہاں ادباء تالیف و تصنیف کا کام کرتے تھے ۔محل کا ایک حصہ ادبی تبادلہء خیال اور شعر خوانی کے لیے مخصوص تھا ۔
قلی قطب شاہ جسے اردو کا پہلا صاحب دیوان شاعر کہا جاتا ہے ایک کثیرالجہات شاعر تھا ۔قلی قطب شاہ کی کلیات میں مثنویاں،قصیدے ،ترجیع بند ،مراثی بزبان فارسی و دکھنی اور رباعیاں موجود ہیں ۔دیباچے سے معلوم ہوتا ہے کہ انھوںنے پچاس ہزار سے زائد اشعار کہے تھے ۔
محمد قلی قطب شاہ کا دور اپنی ادبی سرگرمیوں ،علمی کاوشوں اور فنی و تخلیقی کاموں کی وجہ سے ہمیشہ یاد گار رہے گا ۔ اس کے دور میں ملا وجہی اور احمد گجراتی ایسے شعراء منظر عام پر آئے ۔
عبداللہ قطب شاہ بھی شاعر تھا جس کا اردو اور فارسی کلام شائع ہوچکا ہے ۔عبداللہ کے دور حکومت میں غواصی،ابن نشاطی ،جنیدی ،طبعی ،میراں جی حسن خدا نما، میراں یعقوب ،اور سید بلاقی ایسے شاعر اور نثر نگار پیدا ہوئے ۔
قطب شاہی سلطنت کاآخری تاج دار ابوالحسن تانا شاہ بھی نہایت قابل اور علم کا قدر دان تھا ۔تانا شاہ کی اورنگزیب کے ہاتھوں شکست اور گرفتاری پر دکن کی یہ علم پرور اور ادب دوست سلطنت اپنے اختتام کو پہنچی۔
سلاطین گول کنڈا عقیدے کے لحاظ سے اہل تشیع تھے۔ان کے تعلقات ایران کے ساتھ ہمیشہ گہرے رہے ۔شاید اسی وجہ سے قطب شاہی خاندان کے باد شاہوں نے ایرانی تہذیب و ادب کو اتنی اہمیت دی کہ فارسی اسلوب ،آہنگ ،لہجہ ،اصناف اور مذاقِ سخن ابتداء ہی سے یہاں کی مشترکہ زبان اردو پر چھا گئے ۔فارسی اسلوب اور روایت کے اس اثر کا اندازہ محمد قلی قطب شاہ کے کلیات سے بھی لگایا جاسکتا ہے ۔
جس میں اردو زبان ،اوزان وبحور ،جذبات و تخیل اور تشبیہ و محاورہ فارسی زبان کی تابع بنادی گئی اور ہندوی جذبات و تخیل اور اوزان ترک کر دیے گئے ۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ گول کنڈا کے ا ردو ادب پر ابتداء ہی سے فارسی کی چھاپ لگ گئی ۔
قطب شاہی عہد میں غزل ایک اہم اور مقبول صنف سخن کے طور پر ابھری ۔محمود ،فیروز اور خود محمد قلی قطب شاہ بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں۔ غزل کے اثرات اتنے گہرے ہیں کہ وہ نظمیں جو مسلسل موضوعات پر لکھی گئیں ہیئت کے اعتبار سے غزلیں ہیں ۔
گول کنڈا میں مثنوی کی روایت بھی بڑی مستحکم ہے ۔غواصی کی بد یع الجمال ،مینا ستونتی اور طوطی نامہ اور وجہی کی ــ قطب مشتری کا شمار بہترین مثنویوں میں ہوتا ہے ۔ابن نشاطی کی پھول بن بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے ۔
گول کنڈا میں قصیدے کا رواج بھی ملتا ہے ۔اس کی ایک شکل تو وہ مثنویاں ہیں، جن میں باد شاہ وقت کی تعریف کی گئی ہے ۔دوسری شکل حمد، نعت و منقبت وغیرہ کی ہے ۔غواصی نے الگ سے بھی قصیدے کی صنف کو استعمال کیا ہے۔ گول کنڈا کی ادبی روایت میں مرثیے بھی ملتے ہیں ۔
محمد قلی قطب شاہ نے کئی مرثیے بھی لکھے ۔غواصی اور عبداللہ قطب شاہ نے بھی اس صنف میں طبع آزمائی کی ۔عام طور پر مرثیے، سلام اور سوز غزل کی ہیئت میں لکھے گئے ۔
گول کنڈا میں نثر کی روایت بھی موجود ہے ۔ ابتداء میں نثر صرف تبلیغی مقاصد تک محدود رہی ۔اس میں ادبی چاشنی نہ ہونے کے برابرہے۔ملا وجہی کی سب رسـ جو ا ردو نثر کا شاہکار ہے تاریخی اعتبار سے اسی دور کی یاد گار ہے۔
سب رس میں ملا وجہی نے اردو نثر کو شعوری طور پر فارسی نثر کی سطح پر لانے کی کوشش کی ہے ۔ازمنہ وسطیٰ کا معاشرہ باد شاہوں کا معاشرہ تھا۔سارا معاشرہ اسی ادارے کے گرد گھومتا تھا ۔اس لیے اس دور کے ادب میں سارے کردار شہزادے ،شہزادیاں،باد شاہ، وزیر ،راجے ،مہا راجے ملتے ہیں ۔
اس دور کا تخلیق کردہ ادب بھی شاہان وقت کی خوشنودی حاصل کرنے کا ذریعہ قرار پایا ،چناںچہ اکثر قصید ے اورمثنویاں ان کی فرمائش یا خوشی کے لیے لکھی گئیں ۔فارسی تہذیب کے اثرات نے نہ صرف معاشرتی زندگی کو متاثر کیا بلکہ مقامی ادب پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے ۔
اس دور کی شاید ہی کوئی قابل ذکر تصنیف ایسی ہو جو فارسی ادب سے ماخوذ نہ ہو ۔ یہ سارا دور فارسی سے اخذ و ترجمے کا دور ہے ۔
ملا وجہی کی سب رس ، فتاحی کی تصنیف دستور عشاق سے ماخوذ ہے ۔غواصی کی مثنوی سیف الملوک کا موضوع فارسی قصے الف لیلیٰ سے لیا گیا ہے ۔ مینا ستونتی بھی کسی فارسی رسالے سے مستعار ہے۔
مختصر یہ کہ قطب شاہی دور کا اردو ادب فکری ،تخلیقی ،اسلوب و آہنگ ،اصناف اور اوزان کے اعتبار سے فارسی ادب سے نہ صرف متاثر ہے بلکہ اسے اپنانے کی شعوری کوشش کر رہا ہے ۔