اقوامِ متحدہ کے فروغِ تعلیم و تہذیب و ورثہ کے ادارے یونیسکو کی جانب سے ہر سال 21 مارچ کو عالمی یومِ شاعری منایا جاتا ہے جو ان شعرا کو خراجِ تحسین ہے جنہوں نے اپنے تخیل اور ذہنِ رسا سے محبت، امن، انسانیت ،ہمدردی ،بھائی چارے اور فطرت سے محبت کے عالمی جذبے کو فروغ دیا۔شاعری کے حوالے سے پاکستان کی سرزمین بہت زرخیز رہی ہے جہاں ہر گھر سے آپ کو ایک شاعر لازمی ملے گا۔
اتنا ہی نہیں بلکہ ہماری میوزک انڈسٹری میں آج جتنے بھی نئے گلو کا اور گلو کارائیں سامنے آرہی ہیں وہ خود ہی موسیقار اور شاعرہ ہیں ۔ہم چونکہ مزاجاً عاشق پرست رہے ہیں تو اس میں بھی اظہار کا وافر مواد آپ کو شاعری میں ملے گا۔
ایک زمانہ تھا کہ اقبال نے عورت کے حسن کی مدح کرنے ہوئے اسے تصویر کائنات میں رنگ قرار دیا لیکن اب ہر حسنِ مجسم خود ہی شاعرہ ہیں اور ہمارے ہاں شاعرات کی بہت بڑی تعداد نے آکر لفظ و معنی کے استعارے بدل دئیے ہیں۔پاکستان کی ان خوب صورت شاعرات نے، سب سے پہلے بے پناہ مقبولیت حاصل کرنے والی ہماری ماہ پارہ،خوشبو شاعرہ پروین شاکر سے اثر قبول کیا جو حسن و شاعری کا ایسا دلکش سنگم تھیں کہ ان کی خوشبو نے سارا عالم مہکا دیا۔
اس کے بعد جرئتِ اظہار کے نئے افق کشور ناہید، فہمیدہ ریاض اور عذرا عباس کی طلسمی مثلث نے کچھ اس انداز سے چھوئے کہ ہمارے ہاں نسوانی حقوق کی ایک طاقتور آواز اٹھی ۔ نسائی ادب کے خدو خال وضع ہوئے۔
ادا جعفری ،فاطمہ حسن ۔ زہرہ نگاہ اور سارا شگفتہ نے اس پر توثیق کی مہر ثبت کرتے ہوئے کہا:’’ ہم کسی سے کم نہیں!‘‘اس وقت شاعرات کے اظہار کا رنگ سوشل میڈیا بالخصوص فیس بک نے پہلے سے کہیں زیادہ مہکا دیا ہے۔
نوشی گیلانی اور فاخرہ بتول کو اسی آہنگِ جمال کا تسلسل جانیےِ جن کی شاعری کو چاہنے والے مردوں لڑکوں کے علاوہ خواتین اور لڑکیاں بالیاں بھی ہیں۔ہر ایک شاعرہ کے کلام اور اسلوب کو چن کر تجزیہ کرنے کے لیے تو کئی دفتر درکار ہوں گے تاہم ہم ہر شاعرہ کے نام لینے کی ضد لئے بیٹھیں تو اس کے لیے بھی سیکڑوں صفحات درکار ہوں گے جن میں اردو، انگریزی،سندھی، پنجابی، سرائیکی، ہندکو، کشمیری ،گلگتی، بلتی،بلوچی، براہوی،پشتو کی شاعرات کو بھی شامل کرنا ہوگا۔پھر بھی ہم یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ یہ فہرست مکمل ہوگی۔
اس وقت اپنے چہرے اور فن کے حسین امتزاج پر جن شاعرات نے اپنی توجہ مبذول کرائی ہے ان میں سرِ فہرست سفینہ سلیم ،حیام قیوم، قندیل جعفری، صائمہ اسحاق، ارم زہرہ،نیل احمد، بشریٰ سعید، بشریٰ بختیار خان،آئرین فرحت،منزہ احتشام گوندل،ریحا اظہر،پاکیزہ رضوی،نینا عادل،ارم بٹ،ردا فاطمہ،سلمیٰ ممتاز اور سیما عباسی ہیں۔
معیار ی شاعری کی بات کی جائے تو ہمیں بلاشبہ ہر ایک شاعرہ کے ہاں ایک نہ ایک ایسا انوکھا شعر ضرور ملے گا جو دلوں کے تار چھیڑ دے۔اس لیے پاکستان کی شاعرات پر ناقدانہ جائزے پر مبنی کتاب کی اشد ضرورت ہے۔آئیے اس بحث کو سمیٹتے ہوئے آسمانِ شاعری کی عال مرتبت شاعرات کی زیست میں اتر کر دیکھتے ہیں:
پروین شاکر
پروین شاکر اور اُن کی احتجاجی آواز کو اردو شاعری کبھی نظر انداز کرسکتی کیونکہ پروین شاکر نے مرد کی بالا دستی کو نہ صرف نظر انداز کیا ہے بلکہ اُس کی برتری کو ختم کرنے کے لیے عورت کی خود اپنی شناخت کو بھی برقرار رکھنے کی طرف توجہ دی ہے جس کا اندازہ چار مصرعوں پر لکھی ہوئی اُن کی نظم ”ضد“ سے لگایا جاسکتا ہے۔
میں کیوں اُس کو فون کروں/اُس کے بھی تو علم میں ہوگا/کل شب /موسم کی پہلی بارش تھی
اس نظم میں پروین شاکر نے عورت کو ہمیشہ مرد کے زیرِ نگیں رہنے کے تصوّر کی مخالفت کرتے ہوئے عورت کی اپنی شناخت اور اس کے نسائی وجود کو منوانے کے لیے مرد کے انتظار میں آنکھیں بچھائے رہنے کی مخالفت کی اور صاف طور پر احتجاجی لہجے میں یہ کہہ دیا کہ وہ اپنے جذبات کے اظہار پر پابندی لگا کر مرد کو اظہار کی دعوت سے مالا مال کرنا چاہتی ہیں۔
بنیادی طور پر عورت اور اُس کے وجود کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا،اس پر ظلم و ستم کرنا ہر مرد کا شیوہ نہیں البتہ عورت کے رویے کی وجہ سے ہی وہ اپنے دام میں آپ گرفتار ہوتی ہے
سارہ شگفتہ
سارہ شگفتہ اردو اور پنجابی میں شاعری کرتی تھیں۔ ان کی شاعری کی مرغوب صنف نثری نظم تھی جو ان کے ایک الگ اسلوب سے مرصع تھی۔بقول قمر جمیل سارا شگفتہ کی شاعری کی رسائی اُن حقیقتوں تک ہوتی ہے ۔ جہاں تک ہمارے نثری نظم لکھنے والوں کی رسائی کبھی نہیں ہوئی۔ وہ اعلٰی ترین ذہنی اور شعری صلاحیتوں کی مالک ہے، انسانی نفس کے ادراک میں جو قُدرت اُسے حاصل ہے وہ ہم میں سے کسی کو حاصل نہیں۔ان کی ناگہانی موت نے ان کی زندگی اور شاعری کو ایک نئی جہت عطا کی۔ ان کی وفات کے بعد ان کی شخصیت پر امرتا پرتیم نے 'ایک تھی سارہ اور انور سن رائے نے 'ذلتوں کے اسیر کے نام سے کتابیں تحریر کیں اور پاکستان ٹیلی وژن نے ایک ڈراما سیریل پیش کیا جس کا نام 'آسمان تک دیوار تھا۔
کشور ناہید
کشور ناہید پاکستان کی ادبی حلقوں میں ایک نمایاں مقام رکھتی ہیں ۔ وہ ایک حساس دل کی ملک ہیں ملک کے سیاسی اور سماجی حالات پر اُن کی گہری نظر ہے۔ ایک عرصے سے وہ روزنامہ جنگ میں کالم لکھ رہی ہیں۔ کشور پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس کی ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر کام کرتی رہی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ کئی سال تک ادبی جریدے ماہِ نو کی ادارت کے فرائض بخوبی انجام دیتی رہی ہیں۔ آجکل وہ اسلام آباد میں سکونت پزیر ہیں۔
اپنی شاعری میں ایسے نسوانی جذبات اور مسائل کا برملا اظہار کیا ہے جنہیں بیان کرنا معیوب سمجھا جاتا تھا۔ وہ اپنے آپ کو ایک حقیقت پسند خاتون قرار دیتی ہیں جو حالات یا معاشرے کے جبر کا شکار بننے سے منکر رہی ہیں۔
وہ عورت کے ساتھ روا رکھی جانے والی معاشرتی ناانصافیوں کو لگی لپٹی رکھے بغیر تلخ و ترش سچے الفاظ میں بیان کر دیتی ہیں۔ ایسے میں اکثر ناقدین اُن کی شاعری کو سپاٹ، کھردری اور غنائیت سے محروم قرار دیتے ہیں۔ اُن کی شاعری میں عورت کا وجود اس کا احساس اور اسی کی آواز گونجتی ہے۔
فہمیدہ ریاض
فہمیدہ ریاض اور تخلص فہمیدہ ہے۔۲۸؍جولائی ۱۹۴۵ء کو میرٹھ میں پیدا ہوئیں۔ ایم اے تک تعلیم حاصل کی۔ لندن سے فلم ٹیکنک میں ڈپلوما حاصل کیا۔طالب علمی کے زمانے میں حیدرآباد میں پہلی نظم لکھی جو ’’فنون‘‘ میں چھپی۔ پہلا شعری مجموعہ ’’پتھر کی زبان‘‘ ۱۹۶۷ء میں منظر عام پر آیا۔’’بدن دریدہ‘‘ ۱۹۷۳ء میں ان کی شادی کے بعد انگلینڈ کے زمانہ قیام میں چھپا۔’’دھوپ‘‘ ان کا تیسرا مجموعۂ کلام ۱۹۷۶ء میں چھپا۔
کچھ عرصہ نیشنل بک کونسل ، اسلام آباد کی سربراہ رہیں۔جب جنرل ضیاء الحق برسر اقتدار آئے تو یہ ادبی مجلہ’’آواز‘‘ کی مدیرہ تھیں۔ ملٹری حکومت ان کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتی تھی ۔ یہ ہندوستان چلی گئیں۔ ’’کیا تم پورا چاند نہ دیکھو گے‘‘۱۹۴۸ء میں ہندوستان میں ان کا شعری مجموعہ چھپا۔ ضیاء الحق کے انتقال کے بعد فہمیدہ ریاض پاکستان واپس آگئیں۔ ان کی دیگر تصانیف کے نام یہ ہیں:’حلقہ مری زنجیر کا ‘، ’ہم رکا ب‘، ’ادھورا آدمی‘، ’اپنا جرم ثابت ہے‘، ’ میں مٹی کی مورت ہوں‘، ’آدمی کی زندگی‘۔ ان کی محبوب صنف سخن نظم ہے ۔
عذرا عباس
’’حیرت کے اس پار‘‘، ’’نیند کی مسافتیں‘‘،’’راستے مجھے بلاتےہیں‘‘،’’میز پر رکھے ہاتھ‘‘ عذرا عباس کے شعری مجموعے ہیں جنہوں نے نظم کی نئی وسعتوں کو چھو کر اس اظہار کی شال بھی پہنی جو ہمارے معاشرے میں شجر ممنوعہ ہے۔ انورسن رائے جن کے جیون سفر ہوں پھر تو ایسا بے باک بیانیہ بنتا ہی ہے۔
ایک شاعر ایک ناول نگار ایک افسانہ نگار اور صحافی کی شریکِ سفر عذرا عباس سے جب پہلی ملاقات ہوئی تو میں نے حیرت کا اظہار کیا کہ آپ عذرا کے خاوند!؟ تو بے ساختہ قہقہہ گونجا کہ کون بہتر!؟ ایسے ادیب گھرانوں میں ہی ادبِ عالیہ پنپتا ہے۔اسی ماحول ہی کے طفیل، عذرا عباس کے ہاں جرئتِ رندانہ کی وہ تمام خوبیاں بہ درجہ اتم پائی جاتی ہیں جو خود مختار اور باوقار عورت کی علامت ہیں
زہرہ نگاہ
زہرا نگاہ کے کلام میں روزمرہ کی زندگی کے جذباتی معاملات ہیں، جنہیں زہرا صنف نازک کی شاعری کہتی ہیں۔ جیسے ملائم گرم سمجھوتے کی چادر، قصیدہ بہار، نیا گھر، علی اور نعمان کے نام، سیاسی واقعات کے تاثرات بھی، وہ وعدہ بھی جو انسانوں کی تقدیروں میں لکھا ہے اور محض تغزل بھی۔ ان منظومات میں نہ جدیدیت کے غیر شاعرانہ جذبات کا کوئی پرتو ہے اور نہ رومانویت کی شاعرانہ آرائش پسندی کا کوئی دخل ہے۔
روایتی نقش و نگار اور آرائشی رنگ و روغن کا سہارا لیے بغیر شعر کہنا زہرا نگاہ کے شعری اسلوب کا خاصا ہے۔ تشبیہ و استعارے سے عاری ایک آدھ بلیغ مصرع جس سے پوری نظم کا سراپا جھلملانے لگے، اس کی سب سے اچھی مثال زہرا کی نظم شام کا پہلا تارا ہے۔ ان کی تخلیقات میں شام کا پہلا تارا ، ورق اور فراق شامل ہیں۔