آل انڈیا مسلم لیگ نےجب 1932 میں عورتوں کو سیاست میں مساوی درجہ دینےکی قرارداد منظور کی تو اس کی صفوں میں بہت سی طاقت ور خواتین موجود تھیں۔ اس موقع پر قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمایا، ’’کوئی بھی قوم اُس وقت تک شان و شوکت کی بلندی کو نہیں چھو سکتی، جب تک اس کی عورتیں آپ کے ساتھ شانہ بشانہ نہ ہوں، ہم برے رسم و رواج کا شکار ہیں۔
اپنی عورتوں کو قیدیوں کی طرح گھروں کی چار دیواری میں بند رکھنا انسانیت کے خلاف جرم ہے۔ ہماری عورتوں کو جن تکلیف دہ حالات میں زندگی گزارنی پڑتی ہے، اس کی کسی طرح اجازت نہیں دی جا سکتی ‘‘۔
معروف فرانسیسی جنرل اور حکمران نپو لین بونا پارٹ نے کہا تھا، ’’ ٫ تم مجھے اچھی مائیں دو، میں تمہیں بہترین نسلیں دوں گا‘‘۔ یہ مقولہ محض ترقی یافتہ مغربی معاشروں پر صادق نہیں آتا بلکہ یہ ایک عالمگیر حقیقت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جن معاشروں میں خواتین کی صحت اور ان کے معیار زندگی پر توجہ دی جاتی ہے، وہاں نئی نسل پھلتی پھولتی اور ترقی کی راہ پر گامزن دکھائی دیتی ہے۔
خاندانی، سماجی اور معاشرتی زندگی میں عورت کا کرداربنیادی اہمیت کا حامل ہے اور عورت اپنے کردار اور کارکردگی سے ثابت کررہی ہے کہ وہ اس کی صحیح معنوں میں حقدار ہے۔
خواتین کی تربیت
ہمارے معاشرے میں لڑکیوں کو عام طور پر بچپن ہی سے گھر کے مختلف کام کاج سکھا ئے جاتے ہیں۔ سینا پرونا، سلائی کڑھائی، صفائی ستھرائی، کھانا پکانا، ماں باپ اور بہن بھائیوں کی ضروریات کا خیال رکھنا اور اسی طرح کے دوسرے کام لڑکی کی ذمہ داریوں میں شامل ہوتے ہیں ۔
اس طرح چھوٹی عمر سے ہی لڑکیوں کی گھریلو تربیت کچھ اس طرح سے ہوتی ہے کہ وہ زیادہ پریکٹیکل اورگھریلو معاشیات کو کم عمری میں ہی سمجھ لیتی ہیں۔ غذا، لباس، رہائش او رتعلیم کے بارے میں یہ سوچ، ان میں زیادہ استعداد کی وجہ بنتی ہے اور وہ بہتر فیصلے لینے کی اہل بن جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ مڈل اور لوئر مڈل کلاس گھرانے کی اکثر لڑکیاں زمانہ طالب علمی میں ہی جو سلائی، کڑھائی، ہوم ٹیوشن اور دستکاری وغیرہ کا کام سیکھتی ہیں، اسے آمدنی کا ایک ذریعہ بھی بنا لیتی ہیں۔
ہمارے معاشرے میں صنف نازک کی یہ خصوصیت اسے مردوں کے مقابلے میں مالیاتی اور معاشی میدان میں نمایاں بناتی ہے۔ ٹین ایج میں جب لڑکے موج مستی میں مگن ہوتے ہیں، کئی لڑکیاں معاشی لحاظ سے اپنے والدین کو سپورٹ کرنا شروع کرچکی ہوتی ہیں۔ اس طرح ٹین ایج میں ہی لڑکیوں میں اپنی ضروریات خود پوری کرنے اور بچت کرنے کی عادت پروان چڑھنے لگتی ہے، اور یہ عادت آئندہ کی پوری زندگی میں ان کی معاشیات پر مثبت کردار ادا کرتی ہے۔
یہی وہ عوامل ہیں، جو صنف نازک کو چھوٹی عمرسے ہی درست معاشی اور مالیاتی فیصلے سکھانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ بچت کمیٹی رکھنی ہو، سیونگ سرٹیفکیٹس لینے ہوں یا پرائز بانڈز، ایک گھرانے میں ان فیصلوں کے پیچھے عموماً عورت کا ہی عمل دخل ہوتا ہے۔ ورنہ تو مرد حضرات پر اگر چھوڑ دیا جائے تو وہ ساری آمدنی خرچ کرنے پر ہی اکتفا کرنے کو ترجیح دیں گے۔
اس کے علاوہ، اکیسویں صدی میں اب کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ مرد ہی خاندان کے لیے روزی روٹی کمانے کا ذریعہ ہے۔ امریکا میں 38%خواتین کی آمدنی اپنے شوہروں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ پاکستان میں حالاں کہ یہ رجحان ابھی ابتدائی مراحل میں ہے، تاہم اس میں اضافہ ہورہا ہے۔
خواتین مالیاتی فیصلے لینے میں زیادہ پختہ ہوتی ہیں
ایک اسٹڈی کے مطابق، مردحضرات کے مقابلے میں خواتین زیادہ بہتر، بروقت اور مؤثر مالیاتی فیصلے لیتی ہیں۔ ایک گھریلو خاتون، مرد کے مقابلے میں کیش فلو مینجمنٹ کو زیاہ بہتر سمجھتی ہے۔ عورت بجٹ پلاننگ بہت اچھی کرتی ہے۔ اسے پتہ ہوتا ہے کہ ماہانہ آمدنی کو پورے مہینے میں کس طرح اور کن چیزوں پر خرچ کرنا ہے اور کچھ حصہ بچت میں بھی ڈالنا ہے۔
صرف لڑکے ہی کماؤپوت نہیں ہوتے
ایک خاندان کی آمدنی میں عورت کا حصہ بتدریج بڑھ رہا ہے۔ وال اسٹریٹ جرنل میں شائع ہونے والے ایک آرٹیکل کے مطابق، 2022تک امریکا کی 60%دولت پر خواتین کا کنٹرول ہوگا۔ اس وقت بھی امریکا میں 50لاکھ ڈالر سے زائد مالیت کے48%اثاثے خواتین اون کرتی ہیں۔عورتوں کے برعکس، مرد حضرات 35%اثاثے اون کرتے ہیں۔اگر پاکستان کی بات کریں، تو ایک اندازہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں بھی 90%خواتین کی زندگی میں ایسا موقع ضرورت آتا ہے، جب خاندان کے مالیاتی معاملات انھیں دیکھنے پڑتے ہیں۔
چاہے وہ شہری سینٹرز میں مالیاتی، میڈیا اور صنعتی شعبے میں کام کرنے والی عورت ہو یا گھروں میں سلائی کڑھائی کرنے والی خواتین یا پھر دیہی علاقوں میں کاشتکاری کرنے والی عورت، خاندانی معاشیات میں عورت کا کردار ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔
خواتین اپنے فیصلے خود لے سکتی ہیں
امریکا میں تقریباً 96%خواتین کو اپنے مالیاتی معاملات پر فیصلے خود لینے پڑتے ہیں۔صرف چار فی صد خواتین ایسی ہوتی ہیں، جو اپنے والدین، بہن بھائیوں یا شوہروں پر Dependent رہنے کو ترجیح دیتی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں بھی خواتین ہی بچت کمیٹیاں رکھتی ہیں اور مشکل وقت میں اپنی خاندان کو سپورٹ کرنے میں ہر اول دستے کا کردار ادا کرتی ہیں۔