سوال:میرے شوہر میری عبادت کی کثرت پر اعتراض کرتے ہیں، خاص طور پر صبح کی نماز اور وظائف جو بیس منٹ پر مشتمل ہیں اور عشاء کی نماز اور وظائف جو تیس منٹ پر مشتمل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ صرف فرض نماز ،سنت اور مختصر وظائف ہونے چاہئیں۔ان کا موقف صحیح ہے یا میں حق بجانب ہوں، اس بارے میں شرعی حُکم کیا ہے، خاوند کی بات کو مانا جائے یا روزمرہ کی عبادت کوکم کیا جائے۔ برائے مہربانی تفصیلی جواب سے راہنمائی فرمائیں۔(مدیحہ خان )
جواب: اسلام میں فرائض وواجبات اورسُنن مؤکدہ پر تو اعتراض کی گنجائش ہی نہیں ہے ،البتہ ازدواجی تعلق استوار رکھنے اور حقوق وفرائض میں توازن پیداکرنے کے لیے نفلی عبادات میں اعتدال بہترہے ۔
ذیل میں ہم دو اَحادیث مبارکہ پیش کررہے ہیں:(۱)ترجمہ:’’نبی اکرم ﷺ نے(مُواخاتِ انصار ومہاجرین کے موقع پر) حضرت سلمانؓ اور حضرت ابوالدرداءؓ کو ایک دوسرے کا بھائی بنایا، حضرت سلمانؓ ، حضرت ابوالدرداءؓ کی ملاقات کے لیے گئے۔ اُنہوں نے(اُن کی بیوی) حضرت اُم الدرداءؓ کوخستہ حالت میں دیکھا توان سے پوچھا :یہ آپ نے اپنی کیاحالت بنارکھی ہے؟۔اُنہوں نے بتایاکہ تمہارے بھائی ابوالدرداء ؓکو دنیامیں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
پھر حضرت ابوالدرداءؓ آئے توانہوں نے حضرت سلمان ؓکو کھانا پیش کیا،حضرت سلمان ؓنے کہا: آپ بھی کھائیں ،تو حضرت ابوالدرداءؓ نے کہا: میں روزے سے ہوں ،حضرت سلمان ؓنے کہا: میں اُس وقت تک نہیں کھاؤں گا ،جب تک کہ آپ نہیں کھائیں گے ، پھر حضرت ابوالدرداءؓ نے(مہمان کی دل داری کے لیے نفلی روزہ توڑ کر) کھانا کھایا۔پھر جب رات ہوگئی تو حضرت ابوالدرداءؓ (قیام اللیل کے)نوافل پڑھنے کے لیے کھڑے ہوگئے ،حضرت سلمانؓ نے اُن سے کہا: آپ سوجائیں ،سو وہ سو گئے۔
پھر(تھوڑی دیر بعد ) وہ نماز کے لیے اٹھے، حضرت سلمان ؓنے پھرکہا: آپ سوجائیں ۔پھر جب رات کا آخری پہر ہواتو حضرت سلمان ؓنے کہا: اب آپ اٹھیں ،پھر دونوں نے نماز پڑھی ،پھر اُن سے حضرت سلمانؓ نے کہا:بے شک، آپ کے رب کا آپ پر حق ہے ،آپ کے نفس کا آپ پر حق ہے اور آپ کے اہلِ خانہ کا آپ پر حق ہے،سو آپ ہر حق دار کو اُس کا حق (پورا پورا)دیں، پھر حضرت ابوالدرداءؓ نبی اکرم ﷺ کے پاس حاضر ہوئے اور(شکایت کے انداز میں)آپ کو یہ ماجرا بیان کیا (کہ میرے بھائی سلمانؓ نے رات مجھے قیام اللیل سے روکے رکھا)تونبی اکرم ﷺ نے فرمایا: سلمان نے سچ کہاہے ، (صحیح بخاری:1968)‘‘۔
(۲)ترجمہ:’’حضرت انس بن مالک ؓ بیان کرتے ہیں کہ: تین افراد نبی اکرم ﷺ کی ازواج مطہراتؓ کے گھروں پرگئے اور ان سے نبی اکرم ﷺ کی عبادت (کے معمولات) سے متعلق سوال کیا، پس جب انہیں(نبی ﷺ کی عبادت کے معمولات) بتائے گئے ، توگویا انہوں نے(اپنی دانست میںاس مقدارِ عبادت کو) کم سمجھا ۔
پھر انہوں نے کہا: کہاں ہم اورکہاں نبی ﷺ؟،آپ کے تو تمام اگلے اور پچھلے بہ ظاہر خلافِ اولیٰ کاموں کی مغفرت کی( قرآن کریم میں قطعی) نوید دی گئی ہے،تو ان میں سے ایک نے کہا:’’میں تو ہمیشہ پوری رات نوافل پڑھتے ہوئے گزاروں گا‘‘،دوسرے نے کہا:’’ میں ہمیشہ (نفلی)روزے رکھاکروں گا اور روزہ کبھی نہیں چھوڑوں گا‘‘، تیسرے نے کہا: ’’میں ہمیشہ عورتوں سے اجتناب کروں گااور کبھی نکاح نہیں کروں گا(تاکہ نہ بیوی بچے ہوں اورنہ خانگی ذمے داریوں کا جھنجھٹ)‘‘ ۔
دریں اثناء رسول اللہ ﷺ تشریف لے آئے ،تو آپ ﷺ نے (اُن کی باتوں کو سن کر ) فرمایا: تو تم وہ لوگ ہو جنہوں نے ایسا ایسا کہا تھا؟،سنو! اللہ کی قسم! بے شک میں تم سب سے زیادہ متقی ہوں اور میرے دل میں اللہ کی خَشیَت سب سے زیادہ ہے، لیکن میں (نفلی)روزے رکھتا بھی ہوں اورکبھی چھوڑبھی دیتا ہوں اوررات کو(نوافل) پڑھتاہوں اور(کچھ دیر کے لیے) سوبھی جاتا ہوں اور میں نے عورتوں سے نکاح بھی کیے ہوئے ہیں،سو جس نے میری سنت سے اِعراض کرکے(تقوے کا من پسند طریقہ اختیار کیا) تو وہ میرے (پسندیدہ)طریقے پر نہیں ہے،(بخاری: 5063)‘‘۔
سطور بالا میں ہم نے عام ضابطہ بیان کیاہے ،لیکن آپ نے نماز فجر کے بعد بیس منٹ اور نمازِ عشاء کے بعد تیس منٹ کے وظائف کاجومعمول بتایاہے ،یہ بہت زیادہ وقت نہیں ہے۔
اگر ان اوقات میں آپ کے شوہر کے کسی کام کاحرج نہ ہورہاہو یا صبح بچوں کے اسکول کی تیاری یا رات کو چھوٹے بچوں کے سلانے میں حرج نہ ہورہاہو ،تو شوہر کو دل بڑا رکھنا چاہیے ،کیونکہ گھر میں عبادت ،تلاوت اور اَذکار برکت کا سبب ہوتے ہیں اوراگروظائف کسی کام میں حرج کا سبب ہوں تو آپ اپنی سہولت کے مطابق وقت تبدیل کرلیں ۔نفلی عبادت کے معاملے میںخاوند سے مطابقت پیداکرنا بہتر ہے، خاوند کی رضامندی کے لیے نفلی عبادات میں تخفیف کی جاسکتی ہے ، یہاں تک کہ خاوند کے کہنے پر نفلی روزہ بھی چھوڑا جاسکتاہے۔
اپنے مالی وتجارتی مسائل کے حل کے لیے ای میل کریں۔
tafheem@janggroup.com.pk