’’یہ مردوں کا معاشرہ ہے‘‘۔ ہم میںسے اکثر ناصرف یہ بات کہتے ہیں بلکہ اوروں سے سنتے بھی ہیں۔ لیکن اسی مردوں کے معاشرے میں کئی باہمت خواتین اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواتے ہوئے،ناصرف اس اسٹیریوٹائپ سوچ کو غلط ثابت کررہی ہیں، بلکہ یہ بھی ثابت کردیا ہے کہ وہ مردوں سے کسی صورت کم نہیں۔ آئیے کچھ ایسی ہی باہمت، باصلاحیت اوربلند حوصلہ خواتین کی ترقی کے سفر پر نظر ڈالتے ہیں۔
نجمہ رانی
وادی سوات سے تعلق رکھنے والی45 سالہ نجمہ رانی نے خوبصورت وادی کی بچیوں اور خواتین کو فنی تعلیم سے آراستہ کرنے کا تہیہ کر رکھا ہے۔ گزشتہ 10سال سے ان کا ایک ہی مشن ہے ۔ سوات بھر کی خواتین، لڑکیوں اور بچیوں کو مفت دست کاری، سلائی اور کڑھائی کی تربیت۔ نجمہ کا ماننا ہے کہ جس طرح تعلیم کو زیور سمجھا جاتا ہے، اسی طرح ہنر، خواتین کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔ وہ خواتین کو درس دیتی ہیں کہ مشکل حالات میں کوئی بھی عورت پریشان ہونے اور رونے دھونے کی بجائے آگے بڑھ کر حالات کا مقابلہ کرے اور خود کو سنبھالے۔
سال 2005 میں ان کے ساتھ پیش آنے والے ایک ناخوشگوار واقعے کے بعد انہوں نے خواتین کو ہنر سیکھنے کی ترغیب دینا شروع کی تاکہ وہ مشکل حالات میں اپنے خاندان کی کفیل بن سکیں اورکسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلائیں۔ ’’وہ میری زندگی کا کٹھن ترین دن تھا، جب میرے میاں نے مجھے تین بچوں سمیت چھوڑ دیا۔
طلاق کے بعد بچوں اور بیمار ماں کا واحد سہارا بننا میرے لیے کسی چیلنج سے کم نہ تھا۔ لیکن ایک ہنرمند خاتون ہوتے ہوئے، میں نے تمام تر مشکلات پر جلد قابو پالیا۔ میں سوچتی ہوں کہ اگر مجھے یہ فن نہ آتا تو شاید آج نہ میں اس مقام پر ہوتی اور نہ ہی میرے بچے پڑھ لکھ رہے ہوتے‘‘۔
وہ اپنے دست کاری سینٹر میں کپڑوں کی سلائی کٹائی کے علاوہ، کڑھائی، اون سے سویٹر بنانا، سواتی چادر کی گلکاری اورکشیدہ کاری کے ہنر سکھاتی ہیں۔ اب تک16 ہزار بچیوں اور خواتین کو عملی دست کاری کی تعلیم دے چکی ہیں۔
ابتدا میں نجمہ نے اپنے پاس جمع شدہ رقم سے 2006 میں چار سلائی مشین خریدیں، جس سے انہوں نے اسی سال اپنے علاقے کی 15 خواتین کو مفت ٹریننگ دی۔ ان کے کام اور مشن کو دیکھتے ہوئے، ایک فلاحی ادارے Helping Hands نے ان کو 2006ء ہی میں چھ سلائی مشینیں فراہم کیں، جن کی بدولت اگلے تین ماہ میں انہوں 30کے قریب بچیوں کو کپڑے سینے کے ہنر سے آراستہ کیا۔
سیدہ نجمہ شکور
مظفر آباد جیسے مشکل ترین علاقے میں، جہاں مردوں کے لیے بھی کام کرنا آسان نہیں،اس عورت نے ناقابل یقین پیش رفت کی ہے۔
کیا آپ مانیں گے کہ محض 500روپے سے کام کا آغاز کرنے والی سیدہ نجمہ شکور نے20 سال کی ان تھک محنت کے بعد، ویمن ویلفئیر آرگنائزیشن (پونچھ) کو آزاد کشمیر میں خواتین کی سب سے بڑی تنظیم میں تبدیل کردیا ہے۔ اس تنظیم کے رجسٹرڈ ارکان کی تعداد 25ہزار خواتین پر مشتمل ہے۔
اس خاتون نے آزاد کشمیر کے گلی کوچوں میں میل ہا میل پیدل چل کر ، اپنی ساتھی خواتین کے ساتھ دن رات کام کرکے 1200 سے زیادہ خواتین گروپوں کو منظم کیا ہے۔ یہ گروپ آج سڑکوں کی تعمیر سے لے کر کلینکس، اسکول، مائیکروکریڈٹ، واٹر سپلائی اور سینی ٹیشن اسکیمز، روزگار اور نہ جانے کتنے اور پیچیدہ پروجیکٹس چلارہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل خود پاکستان آکر، وزیراعظم ہاؤس میں نجمہ شکور کو اعزاز سے نواز چکے ہیں۔ ورلڈ بینک، ساؤتھ ایشیا کی سربراہ تین دن تک نجمہ شکور کے گاؤں میں ان کی مہمان رہ چکی ہیں۔
شادی کے بعد 17سال کی عمر میں انھوں نے راولاکوٹ میں مسجد کے برابر میں ایک حجرے میں لڑکیوں کا اسکول شروع کیا۔ آج وہ حجرہ ایک ہائی اسکول میں تبدیل ہوچکا ہے۔ اس کے علاوہ اب تک ان کی تنظیم کے پلیٹ فارم سے آزاد کشمیر کے مختلف مقامات پر پچاس سے زیادہ اسکول قائم ہوئے ہیں یا ان کے قیام میں معاونت کی گئی ہے۔
ان کی تنظیم کی کوششوں سے ڈیڑھ ہزار کے قریب ایسے بچے اسکولوں میں داخل ہوئے ہیں، جو غربت کی وجہ سے تعلیم حاصل نہیں کرپارہے تھے۔ایک ہزار سے زیادہ اساتذہ کو ان کی تنظیم کے پلیٹ فارم سے تربیت مہیا کی جاچکی ہے۔
سیدہ نجمہ کی تنظیم کے تحت بچیوں کو مختلف قسم کے ہنر سکھانے کے لیے پنیولا میں ایک ووکیشنل ٹریننگ سینٹر قائم کیا گیا ہے، جس کے ذریعے تین ہزار سے زیادہ لڑکیوں کو ٹیلرنگ، ٹائی اینڈ ڈائی، بیوٹیشن اور ڈرائیونگ کے کورسز کرائے گئے ہیں۔
طاہرہ محمد
طاہرہ محمد کا تعلق بھی وادی سوات ہے۔ طاہرہ ابھی 17سال کی ہیں، تاہم اپنی ناپختہ عمر کے برعکس، ان کے ارادے بہت پختہ ہیں۔ طاہرہ، ٹیکنالوجی کے ذریعے معاشرتی تبدیلی پر یقین رکھتی ہیں۔ ٹیک جوس نامی کمپنی نے انہیں25 برس سے کم عمر بہترین سوشل ایکٹیوسٹ کا اعزاز دیا ہے۔ ٹیک جوس کا کہنا ہے کہ طاہرہ ان ہونہار، ذہین اور پختہ ارادہ رکھنے والی کم عمر لڑکیوں میں سے ایک ہے، جنہوں نے ٹیکنالوجی کے ذریعے معاشرے کی بھلائی کا کام کیا ہے۔ طاہرہ کا نام اس فہرست میں پہلے نمبر پر ہے۔
طاہرہ نے دو سافٹ ویئر بھی بنائے ہیں، جن میں ایک خواتین کے حقوق اور دوسرا لوکل گورنمنٹ کے لیے بنایا ہے۔ جو سافٹ ویئر، خواتین کے حقوق کے لیے بنایا گیا ہے، اس میں کوئی بھی شخص خواتین کو درپیش مسائل اوران کے ساتھ ہونے والی بد سلوکیوں کی تفصیلات جمع کرا سکتا ہے۔
لوکل گورنمنٹ کے سافٹ ویئر میں ڈیتھ سرٹیفکیٹ، برتھ سرٹیفکیٹ اور شادی وغیرہ کے سرٹیفکیٹس آسانی سے بنائے جا سکتے ہیں، جن کا ریکارڈ محفوظ ہو گا اور ایک کلک پر لوگوں کا ڈیٹا معلوم کیا جا سکے گا۔
طاہرہ نے ’شی ٹیک‘ نامی ایک گروپ بنایا ہے، جس میں وہ لڑکیوں کو کمپیوٹر کی تعلیم فراہم کرتی ہے۔
طاہرہ محمد، اپنے علاقے کی لڑکیوں کو ٹیکنالوجی کے میدان میں لانا چاہتی ہے۔ وہ سوات کی بچیوں کے لیے ایک کوڈنگ اسکول قائم کرنا چاہتی ہے تاکہ وہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے میدان میں آگے بڑھ سکیں۔
تبسم عدنان
حقوق نسواں کی ایک تنظیم مردوں کے بنائے ہوئے قوانین اور اپنے ساتھ ناانصافیوں کے خلاف مزاحمت کے لیے برسرپیکار ہے۔
پاکستانی صوبے، خیبرپختونخوا کے ضلع سوات کے دیہی علاقوں میں مردوں کے بنائے ہوئےجرگے اوراصولوں کی عملداری ہے۔ لیکن اب حالات بدل رہے ہیں۔ سوات کے ایک مقامی مرکز میں فرش پر25 خواتین بیٹھی ہیں۔
خواتین کا جرگہ فیصلوں میں شرکت کا مطالبہ کر رہا ہے۔ اس گروپ کی قیادت تبسم عدنان کررہی ہیں۔ 2013ء میں اُنہوں نے پاکستان میں صنفی تقسیم کے روایتی ڈھانچے کو تہ و بالا کرتے ہوئے خواتین کے ایک جرگے کی بنیاد رکھی تھی۔ 2012ء میں پاکستانی سپریم کورٹ نے جرگوں کو ممنوع قرار دے دیا تھا لیکن حکومتی رِٹ کے دائرے سے باہر دور دراز واقع علاقوں میں اس عدالتی فیصلے کے نتیجے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
ضلع سوات کا بڑا جرگہ اب بھی مردوں پر مشتمل ہے۔ یہ جرگہ آبرو ریزی اور قتل کے معاملات میں بلایا جاتا ہے۔ اس کے برعکس خواتین کا 25رُکنی جرگہ ایسے کیسز سے نمٹتا ہے، جن کا تعلق گھریلو تشدد، وراثتی معاملات اور صحت کے مسائل سے ہوتا ہے۔ کم سنی کی شادی پر بھی بات ہوتی ہے۔
جان کو لاحق خطرات کے باعث، خواتین کے جرگے کے اجلاس خفیہ طور پر منعقد کیے جا تے ہیں۔ واضح رہے کہ ’یورپی جرنلزم سینٹر‘ اپنے پروگرام ’اِنوویشن ان ڈیویلپ منٹ رپورٹنگ‘ کے ذریعے اس جرگے کو مالی امداد فراہم کر رہا ہے۔ خدمات کے اعتراف میں 2016 میں وہ نیلسن منڈیلا ایوارڈ بھی جیت چکی ہیں۔