معزز قارئین پاکستان اس وقت انتہائی نازک دور سے گزر رہا ہے جس کی وجہ مختلف مسائل ہیں جو اس ملک کو دیمک کی طرح چاٹے جارہے ہیں ۔ لیکن ان میں سے دو منسلکہ مسائل سرفہرست ہیںاول ناخواندگی اور جہالت، جس کی بدولت بدعنوان افرادبار بار منتخب ہو کراسمبلیوں میں پہنچ جاتے ہیں اوردوم جاگیرداری نظام کا شکنجہ ،جوکہ ملک میں ہونے والی ہر سطح کی بدعنوانی کا ذمہ دار ہے حتیٰ کہ ملک میں بد ترین ناخواندگی بھی انہیں کی بدولت ہے کیونکہ اس طبقے کی ہر ممکن کوشش ہو تی ہےکہ تعلیم کو کبھی بھی قومی منصوبوں میں ترجیح نہ دی جائے ۔
قیام پاکستان سے اب تک کی حکومتوں کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہی نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ اس جاگیر دار طبقے کی وجہ سے ملک میں آج تک حقیقی جمہوریت قائم ہی نہ ہو سکی۔ عالمی سطح پر اس وقت کل تین اقسام کی جمہوریتیں رائج ہیں، (2) براہ راست جمہوریت (2) صدارتی جمہوریت اور (3) پارلیمانی جمہوریت۔ براہ راست جمہوریت ،مثال کے طور پر جیسی کہ سوئٹزرلینڈ میں رائج ہے، اس میں صدرکا تقرر وفاقی وزراء میں سے ایک خاص مدت کیلئے کیا جاتا ہے۔ ملک کی تمام بڑی جماعتیں حکومت کی تشکیل میں شامل ہوتی ہیں اور پارلیمنٹ کو تحلیل نہیں کیا جاسکتااسے لازمی اپنی قانونی مدت پوری کرنی ہوتی ہے۔ وفاقی وزراء کاتقرر پارلیمنٹ سے ہونا ضروری نہیں لیکن عام طور پر ان کا تقرر وزیر اعظم براہ راست کرسکتا ہے ۔ اس نظام کے تحت اہم قومی امور پرقانون کی منظوری اور نفاذ کے لئےعوام کی رائے ریفرنڈم کے ذریعے لی جاتی ہے۔اس طریقہ کار سے نئے خیالات اور جدت کے انعقاد میں رکاوٹوں کا مسئلہ ہو سکتا ہے لیکن اس طرز حکومت کاایک فائدہ یہ ہے کہ کابینہ تکنیکی ماہرین پر مشتمل ہو تی ہے جس کی وجہ سے نظام حکومت کا معیار قابل تحسین ہوتاہے۔
دوسری قسم صدارتی نظام جمہوریت ہے جس کی مثال امریکہ اور فرانس ہیں، اس میں صدرریاست اورحکومت دونوں کے سربراہ کا فریضہ انجام دیتا ہے۔صدر کا انتخاب عوام براہ راست کرتےہیں اور وفاقی وزراء کا انتخاب صدرخود کرتاہے جو کہ عام طور پر پارلیمنٹ سے منتخب کئے جاتے ہیں ۔ اس نظام حکومت میں صدر کو یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ مخصوص شعبےکے ماہر اور ممتا ز ترین افراد کاانتخاب کرسکتا ہےجو کہ عام طور پر انتخابات لڑ کر پارلیمان کا حصہ بننے سے گریز کرتے ہیں۔ نیزصدر کا بھی کسی سیاسی جماعت سے تعلق ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ اس کا انتخاب اس کی علمی صلاحیتوں کی بنیاد پر کیا جاتا ہے جس کا اندازہ قومی اور بین الاقوامی موضوعات پر ہونے والے عوامی مباحثوں کے ذریعے لگایا جاتا جنہیں میڈیا پر براہ راست نشر کیا جاتا ہے ۔ صدر کی حیثیت اس حد تک مستحکم ہوتی ہے کہ وہ اپنی ویٹوپاور(Veto Power)کے ذریعے کسی بھی قانون کو رد کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔
تیسری قسم کا جمہوری نظام دولت مشترکہ کے ممالک اور دیگر ممالک میں رائج ہے ،اس نظام حکومت میں صدر(بادشاہ / ملکہ)ملک کا علامتی سربراہ ہوتا ہے اور وزیر اعظم سربراہ مملکت ہوتا ہے۔ وزراء کا تقرر صرف پارلیمنٹ سے کیا جاسکتا ہے۔ اس نظام حکومت کا سب سے منفی پہلو یہ ہے کہ اگر پارلیمنٹ میں اکثریت بدعنوان سیاسی جماعت سے ہو اور حزب اختلاف کمزور ہوتو حکومتی اہل کاروں کی بدعنوانیوں پر کسی قسم کی نگرانی ناگزیر ہو جاتی ہے ۔ پاکستان اسی نظام حکومت کی وجہ سے بدحال ہے ۔ شدید بدعنوانی ، ناخواندگی اور غربت کا شکار یہ ملک ترقی کی منازل طے کرنے کے بجائے اس سے دور ہوتا جارہا ہے۔ اگر ہم واقعی ترقی کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی سمت بدلنی ہوگی، اس حوالے سے چند اہم اقدامات مندرجہ ذیل ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر ہم نہ صرف پائیدار و طویل مدتی ترقی حاصل کرسکتے ہیں بلکہ حالیہ تنزلی کی بھی کایا پلٹ سکتے ہیں:
1۔ صدارتی نظام حکومت کا نفاذ اولین ترجیح ہونا چاہئے کیونکہ اسے ہمارے قائد نے بھی اس ملک کے لئے موزوں قرار دیا تھا۔ اسکا اندازہ انکی ڈائری میں اپنے ہاتھ سے تحریر کردہ نوٹ سے لگایا جاسکتا ہے جس میں صدارتی نظام حکومت کو پاکستان کیلئے پسندفرمایا تھا۔انہیں اس بات کا بخوبی اندازہ تھا کہ جاگیر داراپنے ذاتی مفادات کے حصول کیلئے حکومت کو کمزور کرنے کی کوششیں کریں گے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے 24؍اپریل 1943) میں مسلم لیگ کے اجلاس سے خطاب کے دوران کہا تھا کہ"میں جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو خبردار کرنا چاہتا ہوں ۔جو کہ ہماری دولت کے بل پر ایک ایسے نظام کے تحت پروان چڑھے ہیں جو کہ دھوکےاورظلم پر مبنی ہے اور جس نے ان کو اس قدر خود غرض بنا دیا ہے کہ ان کے ساتھ اب کسی بھی قسم کے مذاکرات کی بھی گنجائش نہیں ہے۔ عوام کا استحصال ان کی رگوں میں دوڑ رہا ہے اور یہ لوگ اسلام کا سبق بھول چکے ہیں"۔ لہذا وقت کی اہم ضرورت آئین میں تبدیلی ہے تاکہ عوام موجودہ تمام افراد میں سے سب سے بہترین فرد کو بطور صدر براہ راست منتخب کرسکیں ۔ ایک اہم بات جسے اس عہدے کے چناؤ کے لئے مدنظر رکھنا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ کسی بھی فرد کی انتخاب لڑنے سے قبل سپریم کورٹ کے نامزد کردہ معززین کی کمیٹی (Council of Elders)( یہ کونسل سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے معروف ریٹائرڈ ججزاور بے داغ کردار کے حامل ممتاز شہریوں پر مشتمل ہو ) سے مکمل چھان بین ہونا ضروری ہےکہ وہ اس اہم عہدے کی اہلیت کے حامل ہیں بھی کہ نہیں۔اس کے بعد صدر کابینہ کے وزراء کا انتخاب پارلیمنٹ کی بجائے ملک میں میسر بہترین افراد میں سے کرے۔ یہ منتخب کردہ وزراء بھی بے داغ کردار کے حامل ہونے چاہئیں اورانکی بھی چھان بین معززین کی کونسل سے کی جائے۔
2۔ پارلیمنٹ کا کردار قانون سازی اور قومی معاملات کی نگرانی تک محدود کیا جانا چاہئے۔ پارلیمنٹ لازمی طورپر اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد پر مشتمل ہو۔ اسلامی جمہوریہ ایران میں رکن اسمبلی کی اہلیت کی شرط کم از کم ماسٹر(Masters)تک تعلیم ہے۔ پاکستان میں بھی اسی نظام کو متعارف کروانے کی ضرورت ہے۔ پارلیمنٹ کا انتخاب لڑنے کی اجازت اس وقت تک نہیں دی جائےجب تک امیدوار کی جانچ پڑتال معززین کی کمیٹی سے نہ کروالی جائے اور کمیٹی ان کو الیکشن کیلئے اہل نہ قرار دی دے۔
3۔ پاکستان میں جمہوریت کی ناکامی کی ایک اہم وجہ ناخواندگی ہے۔ ملک کی اکثریت پڑھنے اور مختلف سیاسی جماعتوں کے منشورسمجھنے کے قابل نہیں ہے لہٰذا سیاسی تنظیمیں ان کو آرام سے اپنے مفادکے لئےاستعمال کرتی ہیں، اس کے نتیجے میں نام نہاد " منتخب کنندگان" "electables" کا طبقہ تخلیق ہو گیا ہے جو کہ مکمل طور پر بدعنوانوں پرمشتمل ہے لیکن ان کو اپنے علاقوں میں اسقدر اثر و رسوخ حاصل ہے کہ وہ بار بار منتخب ہوکر اسمبلیوں میں پہنچ جاتے ہیں۔ مختلف سیاسی جماعتیں اپنی کامیابی کو یقینی بنانے کے لئے ایسے ہی افراد کو تلاش کرتی ہیں جن کے پاس ووٹ بینک ہواور بعد ازاں ان کو مختلف حکومتوں میں وزارتیں عطا کر دی جاتی ہیں۔ لہذا اگر ہمیں ترقی کرنی ہے تو اس طبقے کو جڑوں سے اکھاڑ کر پھینکنا ہوگا۔ اس کے علاوہ سب سے اہم یہ ہے کہ ووٹ دینے کا حق بھی ان لوگوں کو دیا جائے جن کی تعلیمی قابلیت کم ازکم ثانوی درجے تک ہو۔
4۔ سیکرٹریوں کو اپنے شعبے کا ماہر ہونا ضروری ہے۔محض رسمی تعلیم کے حامل نہ ہوں۔ اسکے علاوہ ہر سیکرٹری کو ایک مضبوط مفکرین کے اجماع (think tank)کی حمایت حاصل ہو ، یہ مفکرین کا اجماع (think tank)مخصوص شعبوںکے بہترین ماہرین پر مشتمل ہوتاکہ یہ اس وزارت کو درپیش مسائل کے مؤثر حل پیش کرسکیں اور مستقبل کی منصوبہ بندی انتہائی پیشہ ورانہ انداز میں کر سکیں۔
5۔دہشت گردی اور بدعنوانی کے خاتمے کیلئے نظام انصاف کی مکمل درستی کی ضرورت ہے اس کے لئےکم از کم دس ہزار نئے ججز مقررکئے جائیں، ان ججوں کو کنٹریکٹ کی بنیاد پر رکھا جائے اور ان کی کارکردگی کی بھی مستقل جانچ پڑتال کی جائے۔
6۔ ہمارے ادارے مثلاً نیب ، FIA, FBR, PIA, ،ریلوے، پاکستان اسٹیل ملز اور دوسرے اداروں کی بربادی کی اہم وجہ ان اداروں میں من پسند سربراہ اور رکن گورننگ باڈیز کے طور پر تقرری ہے جس کی وجہ سے ان اداروں میں بدعنوانی اپنے عروج پر ہے۔ ان اداروں کو مکمل طور پر خود مختار بنانے کی ضرورت ہے اور انکے سربراہ اور گورننگ باڈیز کے اراکین کا تقرر بھی معززین کی کمیٹی کے ذریعے انجام دیا جانا چاہئے۔
7۔ پاکستان کو جہالت اور غربت کی گہرائی سے نکالنے اور علمی معیشت کی جانب گامزن کرنے کیلئے تعلیمی ہنگامی صورتحال کے نفاذ اور آئین میں ترمیم کرکے جی ڈی پی کا سات فیصد حصہ تعلیم ، سائنس ،ٹیکنالوجی اور جدت طرازی کیلئے لازمی طور پر مختص کرنےکی ضرورت ہے ۔
اگر ہم موجودہ ابترحالات سے نکلنا چاہتے ہیں تو ہمیں آئین میں کافی اصلاحات کرنی ہونگی۔ آئین میں ترمیم تکنیکی ماہرین پر مشتمل عبوری حکومت کے ذریعے انجام دی جائے جس کو عدلیہ ، فوج اور روشن خیال سیاست دانوں کی حمایت حاصل ہو۔ اس حکومت کوکم از کم پانچ سال تک کیلئے قائم رکھنے کی ضرورت ہے تا کہ مجوزہ اصلاحات کو حکومتی نظام میں مکمل طور پر نافذ کیا جاسکے۔ ترکی کا نظام جمہوریت بھی ایک اچھا ماڈل ثابت ہوسکتا ہے جہاں طاقت موثر انداز میں بالکل نچلی سطح یعنی 1397ء کی بلدیات سےمنتقل ہوئی ہے۔ پاکستان کو بھی انتظامی طور پر پندرہ صوبوں اور 4000بلدیات میں تقسیم کیا جانا چاہئے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)