زمیں کو چاند دیا، چاند کو ستارہ دیا
مرے نصیب کے جگنو کو اک شرارہ دیا
وہ صید ہوں، جسے صیّاد نے بہاروں میں
قفس میں رکھ کے، چمن کا حسِیں نظارہ دیا
مری وفا کے کے مقدر کے چاند کو، یارب!
دیا بھی تُو نے تو موہوم سا، ستارہ دیا
پھر اُس کے عشق نے کہلائی، ایک تازہ غزل
پھر اُس کے حُسن نے اچھا سا، استعارہ دیا
ہمیں ڈبو دیا منجدھار میں، تلاطم نے
ہماری لاش کو، امواج نے کنارہ دیا
کسی کو وقت کے ہاتھوں، بھنور نصیب ہوا
کسی کو وقت نے، سوغات میں کنارہ دیا
ہمارے دور کے تاریخ ساز، انساں نے
خلا سے لا کے، زمیں کا حسِیں نظارہ دیا
سمجھ سکے نہ ظفر ہم، سرابِ ہستی کو
خرد نے یوں تو ہمیں لاکھ بار اشارہ دیا