• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:محمد اکرم باجوہ…ویانا
عباسی حکومت کے آخری دور میں ایک وقت وہ آیا جب مسلمانوں کے دارالخلافہ بغداد میں ہر دوسرے دن کسی نہ کسی دینی مسئلہ پر مناظرے ہونے لگے جلد ہی وہ وقت بھی آ گیا جب ایک ساتھ ایک ہی دن بغداد کے الگ الگ چوراہوں پر الگ الگ مناظرے ہو رہے تھے، مناظرے اس بات پر تھے کہ ایک وقت میں سوئی کی نوک پر کتنے فرشتے بیٹھ سکتے ہیں، کوا حلال ہے یا حرام؟ مسواک کا شرعی سائز کتنا ہونا چاہئے؟ ابھی یہ مناظرے ہو ہی رہے تھےکہ ہلاکو خان کی قیادت میں تاتاری فوج بغداد کی گلیوں میں داخل ہو گئی اور سب کچھ تہس نہس کردیا۔ مسواک کی حرمت بچانے والے لوگ خود ہی بوٹی بوٹی ہو گئے۔ سوئی کی نوک پر فرشتے گننے والوں کی کھوپڑیوں کے مینار بن گئے جنہیں گننا بھی ممکن نہ تھا، کوے کے گوشت پر بحث کرنے والوں کے مردہ جسم کوے نوچ نوچ کر کھا رہے تھے، آج ہلاکو خان کو بغداد تباہ کئے سیکڑوں برس ہو گئے مگر قسم لے لیجئے جو مسلمانوں نے تاریخ سے رتی برابر بھی سبق لیا ہو،آج ہم مسلمان پھر ویسے ہی مناظرے سوشل میڈیا پر یا اپنی محفلوں ،جلسوں اور مسجدوں کے منبروں سے کر رہے ہیں کہ ڈاڑھی کی لمبائی کتنی ہونی چاہیے یا پھر پاجاما کی لمبائی ٹخنے سے کتنی نیچے یا کتنی اوپر ہونی چاہیے ،قوالی اور مشاعرے کرنا ہمارے مذہبی فرائض میں شامل ہونے لگے ،فرقے اور مسلک کے ہمارے جھنڈا بردار صرف اور صرف اپنے اپنے فرقوں کو جنت میں لے جانے کا دعویٰ کر رہے ہیں اور دور حاضر کا ہلاکو خان ایک ایک کرکے مسلم ملکوں کو نیست و نابود کرتا ہوا آگے بڑھ رہا ہے، افغانستان، لیبیا،عراق کے بعد شامی بچوں کی کٹی پھٹی لاشوں کی گنتی کرنے والا کوئی نہیں ہے بیگناہوں کی کھوپڑیوں کے مینار پھر بنائے جا رہے ہیں، آدم علیہ السلام کی نسل کے نوجوانوں بوڑھے اور بزرگوں کی لاشوں کو کوے نوچ نوچ کر کھا رہے ہیں اور حوا کی بیٹیاں اپنی عصمت چھپانے امت کی چادر کا کونہ تلاش کر رہی ہیں ،جی ہاں اور ہم خاموشی سے اپنی باری آنے کا انتظار کر رہے ہیں۔
تازہ ترین