• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بڑی رعایت کی کمی کے باوجود ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے شی جنگ پنگ کے خطاب کا خیر مقدم

بڑی رعایت کی کمی کے باوجود ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے شی جنگ پنگ کے خطاب کا خیر مقدم

واشنگٹن: شان ڈونین

باؤ: گیبریل ولادو

بیجنگ: ٹام مچل

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چینی ہم منصب کی کافی حد تک متوقع تقریر میں کسی بڑی رعایت کی کمی کے باوجود چین کی معیشت کو آزاد کرنے کیلئے شی جنگ پنگ کے وعدوں کا خیر مقدم کیا ہے۔

منگل کو شی جنگ پنگ نے اپنے وعدوں کو دہرایا کہ ان کی حکومت غیر ملکی مالیاتی خدمات فراہم کرنے والی کمپنیوں کیلئے مارکیٹ تک رسائی کو وسیع کرے گی، آٹو موٹو،جہاز سازی اور ایوی ایشن کے شعبوں میں غیر ملکی سرمایہ کاری کی حد میں کمی اور کاروں کی درآمد پر ٹیرف کو کم کرے گی۔

باؤ فورم برائے ایشیا کے اپنے خطاب میں بیان کردہ زیادہ تر اقدامات کا پہلے ہی اعلان کردیا گیا تھا اور چینی صدر نے اس حوالے سے کوئی نئی تفصیلات پیش نہیں کیں کہ کب اور کیسے وہ انہیں لاگو کریں گے۔

تاہم صدر ڈونلڈ ٹرمپ جو چینی ہم منصب کے ساتھ بارہا اچھے ذاتی تعلقات پر زور دیتے رہے ہیں،اگرچہ کہ انہوں نے چین سے امریکا ڈیڑھ سو بلین ڈالر درآمدات پر ٹیرف لاگو کرنے کی دھمکی بھی دی ہے، شی جنگ پنگ کی تقریر کا پرجوش خیر مقدم کیا۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹوئٹر پر کہا کہ آٹوموبائل رکاوٹوں اور ٹیرف پر صدر شی جنگ پنگ کے شفیق الفاظ کیلئے بہت شکرگذار ہوں،دانشورانہ ملکیت اور ٹیکنالوجی کی منتقلی پر ان کی روشنی کیلئے بھی۔ہم مل کر عظیم ترقی کریں گے۔

وائٹ ہاؤس کا پیغام آیا ہے کہ سرمایہ کار بھی شی جنگ پنگ کی تقریر کا مصالحتی اور امریکی مالیاتی مارکیٹس کے فروغ کے طور پر پڑھیں جو گزشتہ ہفتے تجارتی جنگ منڈلانے کے خوف سے مشتعل ہوگئی تھی۔

چینی سرکری حکام نے ،صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے چین کے پہلے دوے کے اختتام سے کے فوراََ بعد سب سے پہلے مالیاتی شعبے کو آزادانہ طور پرپیشکش کی اور نومبر میں آٹو موٹو مشترکہ منصوبوں پر پچاس فیصد غیر ملکی ملکیت کی حد کم کو کم کیا۔ ٹرمپ انتظامیہ کے حکام مسلسل اس طرح کی پیشکشوں کو بہت کم،بہت دیر قرار دے کر مسترد کرتی رہی۔

صدر شی جنگ پنگ نے منگل کو کہا کہ چین سرپلس تجارت نہیں چاہتا، جیسا کہ انہوں نے درآمد شدہ گاڑیوں پر نمایاں طور پر کم ٹیرف کا وعدہ کیا تھا۔

یہ وعدہ ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹوئیٹ کے صرف ایک گھنٹے بعد سامنے آیا تھا، ٹرمپ نے ٹوئیٹ میں شکایت کی تھی کہ چین کا درآمد شدہ گاڑیوں پر پچیس فیصد ٹیرف امریکا کی جانب سے قیمت کا دس گنا تھا۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ کیا یہ آزادانہ یا منصفانہ تجارت لگتی ہے، نہیں یہ بیوقوفانہ تجارت کی طرح لگتا ہے۔

غیر ملکی سرمایہ کاروں اور سفیروں کو امید تھی کہ شی جنگ پنگ باؤ میں اپنے خطاب کو نئی مستند تفصیلات اور اطلاق کے وقت کے نقشہ کے ساتھ نئی جرأتمندانہ اصلاحات کیلئے استعمال کریں گے۔انہوں نے خطاب میں اس کی بجائے جنوری 2017 میں سوئٹزرلینڈ کے ڈیوس میں عالمی اقتصادی فورم کے خطاب کو بڑی حد تک دہرایا تھا، جہاں وہ اپنے انتہائی محدود ملکی سرمایہ کاری کے ماحول کے باوجود چین کی عالمی تجارت اور اقتصادی آزادی کی دفاعی پوزشین پیش کرتے نظر آئے۔

کورنیل یونیورسٹی میں چین کے معاملات کے ماہر ایشور پرساد نے کہا کہ شی جنگ پنگ کے خطاب نے اصلاحات کے بارے میں وعدوں کے بارے میں بہت سے سوالات کو بغیر جوابات کے چھوڑ دیا۔لیکن ایسا لگتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی منظوری حاصل کرنے کیلئے اتنا کافی ہے۔

ایشور پرساد نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے شی جنگ پنگ کی جانب سے نذر کی گئی زیتون کی شاخ کو قبول کرلیا ہے۔شی جنگ پنگ ہوشیاری سے ڈونلڈ ٹرمپ کو جیت کا دعویٰ فراہم کرنے کا موقع دے کران کی انا کے ساتھ کھیل رہے ہیں جبکہ اس طرح ایسا کرنے سے چین کی معیشت میں معمولی یا کوئی فرق نہیں پڑتا اور اس میں کوئی نیا وعدہ بھی نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس میں شک نہیں کہ دونوں ممالک کے مابین اہم معملات پر سخت مذاکرات ہونے والے ہیں لیکن کم سے کم اب کشیدگی کا خاتمہ ہوسکتا ہے کہ ٹرمپ نے جھٹکا دے کر فتح کا دعویٰ کیا ہے۔

گزشتہ ہفتے بیجنگ نے ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے جبری ٹیکنالوجی کی منتقلی اور دیگر اقسام کی مبینہ دانشورانہ چوری کے خلاف جوابی کارروائی میں تقریبا 150 بلین ڈالر کی تجارت کے کھاتوں میں 1300 سے زائد چینی مصنوعات کی فہرست جاری کرنے کا اشتعال انگیز ردعمل دیا ۔

چین نے سویا بین اور ایئر کرافٹ سمیت 50 بلین ڈالر مالیت کی امریکی برآمدات پر جوابی ٹیرف کی تجویز کے ساتھ فوری ردعمل ظاہر کیا۔جس کے جواب میں ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹیرف میں فوری طور مزید 100 بلین ڈالر اضافے کا عہد کیا، جسے انہوں نے کہا تھا کہ امریکی فارم کی مصنوعات اور دیگر سامان کے خلاف بدلہ لینے کی دھمکی ناقابل قبول ہے۔

چینی حکام ، جنہوں نے غیر ملکی سرمایہ کاروں ک دانشورانہ ملکیت سونپنے کیلئے زبردستی کرنے سے انکار کیا، اس پر اصرار کیا ہے کہ وہ مذاکرات میں شامل نہیں ہوں گے جبکہ انہیں ٹیرف کے ساتھ دھمکی دی جارہی ہے۔

پیر کو واشنگٹن میں چینی سفارتخانے کی جانب سے منعقدہ بریفنگ میں وزارت خارجہ کے سابق عہدیدار رون زونگز نے کہا کہ ابھی دو طرفہ بات چیت کا کوئی منصوبہ نہیں ہے، واشنگٹن چین کے حل اور عزم کو اہمیت نہیں دے رہا۔

ٹرمپ انتظامیہ کے حکام بھی چین کے ساتھ باہمی تجارتی مذاکرات میں ملوث ہونے سے ہچکچارہے ہیں،یہ دلیل دے رہے ہیں کہ وہ روایتی بے نتیجہ مشق کرچکے ہیں۔وائٹ ہاؤس کے تجارتی مشیر پیٹر نیوررو نے پیر کو فنانشل ٹائمز کے ایک کالم میں لکھا کہ کڑی تحفظ پسندیت کے ساتھ پیشرفت چین اب بھی گریزاں ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ تجارتی خسارہ بڑھ رہا ہے، چین مسلسل امریکی دانشورانہ ملکیت کی چوری کررہا ہے اور چین کی مارکیٹ تک رسائی کے بدلے میں وہاں کام کرنے والی امریکی کمپنیوں کو ان کی معروف متصل ٹیکنالوجی سونپنے پر مجبور کررہا ہے۔

تازہ ترین