• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فضائی آلودگی

پوری کائنات میں زمین ہی وہ واحد سیارہ ہے ،جس کو قدرت نے زندگی ،در ختوں ،پھل ،پھولوں ،پانی اور تازہ ہوا سے نوازا ہے ،انہیں دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ فضا ہی وہ واحد چیز ہے، جس کے سبب زمین پر زندگی کا وجود پایا جاتا ہے ،مگر بد قسمتی سے ہم نے اس کو اپنی سر گرمیوں کی وجہ سے بے انتہا آلودہ کردیا ہے اب فضاجانداروں کو فائدہ پہنچانے کے بجائے نقصان کا باعث بن رہی ہے اس آلودہ ماحول میں کھلی فضا میں ساس لینا دشوار ہوگیا ہے ۔

ماہرین ماحولیات کے مطابق جانداروں کے لیے سب سے ضروری عناصر آکسیجن اور کاربن ڈائی آکسائیڈہیں،یہ فضا میں ایک مقرر تناسب سے پائے جاتے ہیں ۔فضا تین تہوں پر مشتمل ہوتی ہے ۔گیسوں کی پہلی تہہ جو زمین کے قریب ہے ،وہ ٹروپوسفیئر (Troposphere)کہلاتی ہے ،جس کی موٹائی تقریباً10 کلو میٹر ہے ۔موسمی تبدیلیاں اسی میں واقع ہوتی ہیں اور اوزون گیس کی تہہ کی موٹائی 10-30 کلو میٹر ہے ۔

ایک رپورٹ کے مطابق فضائی آلودگی کے حوالے سے مسائل بڑھنے کی اہم وجہ انسانی سر گر میاں ہیں ۔آج ہم اس دور سے گزر رہے ہیں ،جس میں عالمی سطح پر موسمیاتی تبدیلیاں اور روئے زمین میں حدت دونوں ہی تیزی سے بڑھ رہی ہیں ۔علاوہ ازیں انسان غذا اور پانی کی قلت کا شکاربھی ہورہا ہے ۔معاشی طور پر پاکستان اپنی جی ڈی پی میں جو نمو حاصل کرتا ہے وہ آلودگی سے پیدا ہونے والے مسائل پر خرچ ہوجاتا ہے ۔ اگر ان گیسوں کی مقدار فضا میں اسی طر ح بڑھتی رہی تو مستقبل میں جانداروں کا زندہ رہنا انتہائی مشکل ہو جائے گا ۔

فضائی آلودگی

عالمی سطح پر فضائی آلودگی پیداکرنے میں پاکستان کا کوئی خاص حصہ نہیں ،تا ہم یہ دوسرے بڑے ممالک کے پیدا کردہ مسائل کا بری طرح سے شکار ہورہا ہے ۔افسوس ناک صورت حال یہ ہے کہ زیریلی گیسوں بشمول کاربن ڈائی آکسائیڈ میں ا ضافہ کرنے والے ممالک میں مزید ممالک کا اضافہ ہو گیا ہے ، خصوصاً ایشیا اور افریقا میں واقع کچھ ممالک ایسے ہیں جو بڑے پیمانے پر فضائی آلودگی کا باعث بن رہے ہیں ،ان میںچین ،انڈیا ،مصر اور تر کی شامل ہیں ۔اس کےسا تھ ساتھ مجموعی طور پر موسمی تبدیلیوں ،کاربن ڈائی آکسائیڈکی مقدار ،حدت میں اضافہ ،سیلابوں ،پانی اور خوراک میں کمی جیسے مسائل کا سبب بن رہے ہیں ۔ 

ماہرین ماحولیات کے مطابق آج اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ لوگوں میں ماحولیاتی مسائل کے حوالے سے شعور اُجاگر کیا جائے اوراُنہیں اس بات سے آگاہ کیا جائے کہ فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈکی مقدار کو بڑھنے سے روکیں اور زیادہ سے زیادہ درخت ،پودے اور سبزہ اُگائیں ،تا کہ فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی زیادتی کوکم اور آکسیجن کی مقدار میں اضافہ کیا جاسکے۔

ایک اندازے کے مطابق آلودگی کی وجہ سے امریکا میں ہر سال تقریباً ساٹھ ہزار انسان موت کی نیند سو جاتے ہیں ۔پاکستان میں بھی اس کے سبب مرنے والے لوگوں کی تعداد کم نہیں ہے ۔اس سے پھیلنے والی بیماریوں میں دمہ ،ٹی بی ،پھیپھڑوں کا کینسر اور ہارٹ اٹیک شامل ہیں ۔ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق ایک گاڑی ایک گیلن پیٹرول جلانے کے باعث فضا میں9 کلو گرام کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اضافہ کرتی ہے ۔

کراچی میں گاڑیوں کی تعداد تقریبا ًبارہ لاکھ اسّی ہزارہے ۔ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ کے مطابق 2012ء میں 43 لاکھ لوگوں کی اموات واقع ہوئی ،جن میں سے کچھ کی وجہ گھروں میں لکڑیاں جلا کر یاکوئلوں پر کھانا پکانے کے دوران اُٹھنے والے دھوئیں کی وجہ سے ہوئیں ،جب کہ بیرونی فضا میں آلودگی کے سبب مرنے والوں کی تعداد 37 لاکھ کے لگ بھگ تھی ،جن میں سے90فی صد ترقی پذیر ممالک میں تھے ۔ 

ترقی پذیر ممالک میں مردوں کے مقابلے میںخواتین کے فضائی آلودگی کے متاثر ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں ۔یورپ میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کااخراج اوسطاً 10 میٹرک ٹن فی کس سالانہ ہے ،اس کے مقابلے میں امریکا سالانہ 20 میٹرک ٹن کاربن ڈائی آکسائید خارج کرنےکا ذمہ دار ہے جو دنیا کے باقی ممالک کی کاربن ڈائی آکسائید کے اوسط اخراج سے چھ گنا زیادہ ہے۔ ماحولیاتی ماہرین کے مطابق دنیا بھر میں صرف کمپیوٹر کے ذریعے 54 ملین میٹرک ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ پیدا ہورہی ہے ۔ 

نیشنل فورم فار انوائر نمنٹ اینڈ ہیلتھ کی ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق روزبہ روز برھتی ہوئی فضائی آلودگی کے باعث پاکستان میں انسانی زندگی ،معیشت ،زراعت اور ترقی کو شدید خطرات لاحق ہیں۔متعلقہ حکام اور نجی اداروں کی غفلت ،عدم دل چسپی اور عدم ترجیحی کے سبب یہ مسئلہ مسلسل بڑھ رہا ہے ۔مشاہدے کے مطابق گزشتہ بر سوں میں وزارت ماحولیات کے بجٹ میں 1700 فی صد اضافہ کیا گیا اور غیر ملکی امداد سے فضائی آلودگی کو کنٹرول کرنے کے لیے کئی منصوبے بھی شروع کئے گئے لیکن عدم دلچسپی کے باعث مثبت نتائج حاصل نہیں ہوئے ۔ ماہرین ماحولیات کا کہناہے کہ ،کراچی میں اس وقت تقریباً17 لاکھ اور ملک بھر میں لگ بھگ 36 لاکھ سے زائد گاڑیاںہیں ،جن میں سے 30 فی صد دھواں خارج کرنے کی وجہ سے فضائی آلودگی کی ذمہ دار ہیں ۔ 

فضائی آلودگی

علاوہ ازیں گاڑیوں سے کاربن مونو آکسائیڈ اورنائٹروجن کے اخراج سے سانس ،جلد ،ناک،کان ،حلق ،گلے اور اعصابی بیماریوں میں ہر سال 8 فی صد اضافہ ہورہا ہے ۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال 6 لاکھ اور پاکستان میں 30 ہزار افراد سالانہ فضائی آلودگی کے باعث زندگی کی بازی ہار رہے ہیں ۔اس کے ساتھ ساتھ صنعتیں بھی فضائی آلودگی میں اضافے کا سبب ہیں ۔سائنسدانوں اور ماحولیاتی ماہرین نے گرین ہائوس گیسوں کے اخراج کو کم کرنے کے لیے بہت سستے متبادل طریقے متعارف کروائے ہیں ۔

مثال کے طور پر گاڑیوں میں وہ فیول استعمال کیا جائے ،جس سے کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر گیسز خارج نہیں ہوتیں ۔ہمارے معاشرے میں آج بھی کوئلے کا استعمال ہے ،جس کی وجہ سے گلوبل وارمنگ میں شدید اضافہ ہورہا ہے ۔آئی پی سی سی کے مطابق بین الاقوامی سطح پر گیسز کے اخراج میں تین چوتھائی حصہ فوسل فیولز کے جلنے کا ہے ،جب کہ تیل اور کوئلے کے مقابلے میں قدرتی گیس کے استعمال سے بہت کم کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج ہوتی ہے ،اس کو کم کرنے کے لیے بجلی کی پیداوار میں فرنس تیل کے استعمال کو کم سےکم کیا جائے اور ایٹمی توانائی ،شمسی توانائی ،پن بجلی گھر اور چھوٹے ڈیم بنا کر ہائیڈروبجلی کی پیداوار کی بچت کی جائے ۔ 

ملک میں روزانہ تقریباً 54 ہزار ٹن صنعتی فضلہ جمع ہوتا ہے، جس میں سے تقریباً 30 سے 50 فی صد غیر محفوظ طریقے سے جلا دیا جاتا ہے ،جیسے کہ ربڑ اور پلاسٹک وغیرہ۔ توانائی کے بحران کی وجہ سے صنعتوں کے متبادل ایندھن جیسے کہ کوئلے وغیرہ پر منتقل ہونے سے بھی فضائی آلودگی میں بہت اضافہ ہوا ہے۔

فضائی آلودگی سے بچنے کے لیے چہرہ ڈھانپنے والے ماسک کا بھی دیرپا فائدہ نہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ماسک پہن کر یہ پیغام دیتے ہیں کہ ہم آلودہ فضا میں سانس لینے کے لیے تیار ہیں ،جب کہ ہمیں آلودگی ختم کرنے کے لیے اپنے طرزِ زندگی کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ چین میں ہر سال 10 لاکھ سے زائد، ہندوستان میں 6 لاکھ اور روس میں ایک لاکھ 40 ہزار افراد وقت سے پہلے ہلاک ہوجاتے ہیں۔ 

اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے جہاں سرکاری سطح پر اقدامات کی ضرورت ہے وہیں لوگوں میں اس بات کا شعور بیدار کرنا بھی ضروری ہے کہ ہوا کو صاف رکھنے میں ان کا کردار بھی بہت اہم ہے،لہٰذا ہمیں آنے والی نسلوں کے تحفظ کے لیے فضائی آلودگی کے ان مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر سنجیدگی سے لینا ہوگا۔

فضائی آلودگی

فضائی آلودگی کی وجوہات

اس کی بے شمار وجوہات ہیں ،جن میں چند کے بارے میں درج ذیل ہیں ۔

فوسل فیول کا جلنا

اس کے جلانے سے ہوا میں سلفر ڈائی آکسائیڈ کی مقدار بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے ،جو آلودگی کا سبب بنتی ہے ۔مثلاًکوئلہ ،پیٹرولیم اور دیگر صنعتی فضلہ فضائی آلودگی پھیلانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔علاوہ ازیں نقل و حمل کے لیے استعمال ہونے والی ٹرانسپورٹ (ٹرک ،جیپ ،گاڑیاں ،ٹرینوں ،ہوائی جہاز) کا بے دریغ استعمال بھی ہمارے ماحول کو خراب کررہا ہے ،کیوں کہ ان سے خارج ہونے والی خطر ناک گیسیں آلودگی پھیلا تی ہیں ۔ماحولیاتی ماہرین کے مطابق کاربن مونوآکسائیڈ اور نائٹروجن آکسائیڈ قدرتی اور انسانی سر گرمیوں کی وجہ سے فضا میں پیدا ہوتی ہیں ۔

زراعتی سر گرمیاں

کھیتی باڑی میں امونیا کا استعمال بہت عام ہے ،حالاں کہ اس کا شمار مضر اور خطر ناک گیسوں میں ہوتا ہے ۔زراعتی سر گر میوں میں کیڑے مار اسپرے ،ادویات اور کیمیائی کھاد کا بہت زیادہ استعمال بھی فضائی آلودگی کو پروان چڑھا رہا ہے ،علاوہ ازیں اس کے باعث پانی کی آلودگی بھی جنم لے رہی ہے ۔

انڈور (indoor) فضائی آلودگی

گھرکی صفائی کے لیے استعمال ہونے والے کیمیکلز اور رنگ بھی آلودگی پھیلانے میں اہم ہیں ۔ان میں مختلف کیمیکلز پائے جاتے ہیں جو سانس کے ذریعےہمارے جسم میں داخل ہوجاتے اور کئی بیماریوں کی وجہ بنتے ہیں ۔

فضائی آلودگی کے اثرات

اس کے اثرات متعدد چیزوں پر پڑتے ہیں ،جن میں سے چند ذیل میں ملا حظہ کریں

سانس اوردل کے مسائل

فضائی آلودگی کے مضر اور خطر ناک اثرابے شمار بیماریوں کی وجہ بنتے ہیں ۔اس کے براہ راست اور غیر مستقیم اثرات کے سبب کئی لاکھ لوگوں کی موت واقع ہوجاتی ہے ،خاص طور پر دمے اور نمونیا کے مرض میں مبتلا افراد کو بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔اس کے علاوہ دل کے دورے کی شرح میں بھی اضافہ ہو تا ہے ۔

تیزابی بارش

فوسل فیول کے جلانے سے سلفر ڈائی آکسائیڈ اور نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج ہوتا ہے ،زہریلی گیسیں بارش میں تیزابی بارش کی شکل میںزمین پر برستی ہیں ،جو انسانوں ،جانوروں اور فصلوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔

تازہ ترین