• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بیوی بار بار شوہر کی ماں پر الزام لگائے جا رہی تھی .اورشوہر بار بار اس کو اپنی حد میںرہنے کا کہہ رہا تھالیکن بیوی چپ ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی ۔ زور زور سے چیخ چیخ کر کہہ رہی تھی کہ”اس نے انگوٹھی ٹیبل پر ہی رکھی تھی اور میرے علاوہ اس کمرے میں کوئی نہیں آیا،انگوٹھی ہو نا ہو ماں جی نے ہی اٹھائی ہے۔بات جب شوہر کی برداشت سے باہر ہو گئی تواس نے بیوی کے گال پر ایک زور دارتھپڑرسید کر دیا، تین ماہ پہلے ہی تو شادی ہوئی تھی. بیوی سےبرداشت نہیں ہوا وہ گھر چھوڑ کر جانے لگی ، جاتے جاتے شوہر سے ایک سوال پوچھاکہ تمھیں اپنی ماں پر اتنا یقین کیوں ہے ؟؟

تب شوہر نے جو جواب دیا،اسے دروازے کے پیچھے کھڑی ماں نے سناتواس کا دل بھر آیا۔شوہر نےکہا کہ”جب وہ چھوٹا تھا، تب اس کے والدانتقال کر گئے۔ماں محلے کے گھروں میں جھاڑو، پونچھا لگا کر جو کما تی تھی، اس سے ایک وقت کا کھانا آتا تھا۔ماں ایک پلیٹ میں مجھے روٹی دیتی اورخالی ٹوکری ڈھک کر رکھ دیتی تھی ،کہتی کہ میری روٹیاں اس ٹوکری میں ہیں، بیٹا تو کھا لے،میں بعد میں کھاؤں گی۔میں بھی ہمیشہ آدھی روٹی کھا کر کہہ دیتا تھاکہ، ماں میرا پیٹ بھر گیا ہے،مجھے اور نہیں کھانا ۔

ماں نے مجھے میری جھوٹی آدھی روٹی کھا کر پالا پوسا اور بڑا کیا ہےآج میں دو روٹی کمانے کے قابل ہوا ہوںلیکن یہ کیسے بھول سکتا ہوں کہ ماں نے عمر کے اس حصے پر اپنی خواہشات کو مارا جب وہ جوان تھی ،وہ ماں آج عمر کے اس حصےمیں کیسے انگوٹھی چرائے گی، یہ میں سوچ بھی نہیں سکتا۔تم تو تین ماہ سے میرے ساتھ ہو،میں نے تو ماں کی تپسیا کو گزشتہ پچیس سالوں سے دیکھا ہے، یہ سن کر ماں کی آنکھوں سے آنسو چھلک اٹھےوہ سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ بیٹا اس کی آدھی روٹی کا قرض چکا رہا ہے یا وہ بیٹے کی آدھی روٹی کا قرض۔

( انتخاب ، احمد )

تازہ ترین
تازہ ترین