• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مائیں دوائی سے کہاں ٹھیک ہوتی ہیں بابو جی

موٹر سائيکل کو پنکچر لگواتے ہوئے ميں فيصلہ کر چکا تھا کہ اس ہفتے بھی اپنے گھر واپس کبيروالا نہ ہی جاؤں تو بہتر ہے ،دير تو ويسے بھی ہوچکی تھی اورجہاں پچھلےتين ہفتے گزر گئے ہيں يہ بھی گزار ہی لوں تو گرميوں کی چھٹيوں ميں ايک ہی بار چلا جاؤں گا۔ اسی سوچ بچار ميں روڈ پر کھڑے ميں نے پندرہ سولہ سال کے ايک لڑکے کو اپنی طرف متوجہ پايا۔وہ عجيب سواليہ نظروں سے ميری جانب ديکھ رہا تھا،جيسے کوئی بات کرنا چاہ رہا ہو۔

ليکن رش کی وجہ سے نہيں کر پا رہاتھا۔جب پنکچر لگ گيا تو ميں نے دکاندار کو 100 روپے کا نوٹ ديا اس نے 20 روپے کاٹ کر باقی مجھے واپس کر ديے۔ميں موٹر سائيکل پر سوار ہوکر جونہی واپس شہر کی طرف مڑنے لگاتوایک لڑکا جلدی سے ميرے پاس آکر کہنے لگا " بھائی جان ميں گھر سے مزدوری کرنے آيا تھا ،آج ديہاڑی نہيں لگی، آپ مجھے واپسی کا کرايہ 20 روپے دے ديں گے"ميں نے ايک اچٹتی سی نگاہ اس پر ڈالی ،سادہ سا لباس،ماتھے پر تيل سے چپکے ہوئے بال ،پاؤں ميں سيمنٹ بھراجوتا۔

مجھے وہ سچا لگا،ميں نے 20 روپے نکال کر اس کے ہاتھ پر رکھ دئيے ،وہ شکريہ ادا کر کے چلنےلگا تو نہ جانے ميرے دل کيا خيال آيا ،ميں نے کہا،سنو ،تمہيں ديہاڑی کتنی ملتی ہے،اس کے جواب دينےسے پہلے ہی ميں نے باقی کے 60 روپے بھی اس کی طرف بڑھا ديے۔

وہ ہچکچاتے ہوئے پيچھے ہٹا اور کہنے لگا"نہيں بھائی جان !ميرا گھر منڈھالی شريف ہے،ميں پيدل بھی جاسکتا تھا ليکن کل سےماں جی کی طبيعت ٹھيک نہيں ،اوپر سے ديہاڑی بھی نہيں لگی،سوچا آج جلدی جا کر ماں جی کی خدمت کر لوں گا"۔ميں نے کہا اچھا يہ پيسے لے لو ماں جی کے ليے دوائی لے جانا۔وہ کہنے لگا" دوائی تو ميں کل ہی لے گيا تھا۔آج ميں سارا دن ماں جی کے پاس رہوں گا تو وہ خود ہی ٹھيک ہو جائيں گی،مائيں دوائی سے کہاں ٹھيک ہوتی ہيں بابوجی!" ميں نے حيران ہو کرپوچھا ،تمہارا نام کيا ہے؟ اتنے ميں اس کی بس بھی آگئی،وہ بس کے گيٹ ميں لپک کر چڑھ گيا اور ميری طرف مسکراتے ہوئے زور سے بولا"گلو "۔

گلو کی بس چل پڑی ليکن گلو کے واپس کيے ہوئے 60 روپے ميری ہتھيلی پر پڑے ہوئے تھے اورميں ہائی سٹريٹ کے رش ميں خود کو يک دم بہت اکيلا محسوس کرنے لگا۔کچھ سوچ کر ميں نے موٹرسائيکل کارخ ريلوے اسٹيشن کی طرف موڑ ليا۔موٹر سائيکل کو اسٹينڈ پر کھڑا کرکے ٹوکن ليا اور ٹکٹ گھر سے 50 روپے ميں خانيوال کا ٹکٹ لے کر گاڑی کے انتظار ميں بينچ پر بيٹھ گيا۔کب گاڑی آئی ،کيسے ميں سوار ہوا کچھ خبر نہيں، خانيوال اسٹيشن پر اتر کے پھاٹک سے کبيروالا کی وين پر سوار ہوا،آخری بچے ہوئے10 روپے کرايہ دے کر، جب شام ڈھلے اپنے گھر کے دروازے سے اندر داخل ہوا تو سامنے صحن ميں چارپائی پر امی جان سر پر کپڑا باندھے نيم دراز تھيں۔ميرا بڑا بھائی دوائی کا چمچ بھر کر انہيں پلا رہا تھا۔

مجھے ديکھتے ہی امی جان اٹھ کر کھڑی ہوئيں اور اونچی آواز ميں کہنے لگيں" او! ميرا پترخير سے گھر آگيا ہے! اب ميں بالکل ٹھيک ہوں "۔ ميں آنکھوں ميں آنسو بھرتے ہوئے دوڑ کر ان کے سينے سے جالگا۔ بس کے گيٹ ميں کھڑے گلوکا مسکراتا ہوا چہرہ يک دم ميری آنکھوں کے سامنے آگيا اور ميں سمجھ گيا کہ اس نے مجھے 60روپے واپس کيوں کيےتھے۔

( اقبال حسن)

تازہ ترین
تازہ ترین