• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امید ہے میری قسمت میرے سونے سے پہلے ہی جاگ جائے

ایک اور دن بادشاہی کا ایک اور رات بے روزگاری کی وہ کیا کہتے ہیں،ہر روز ، روز عید ہے،ہر شب ، شب برات۔

آج شام جب اپنا جوتا چیک کیا تو دیکھا سلائی نکل چکی ہے ،کوئی بات نہیں دونوں موزے بھی پنجے اور ایڑھی سے باد صباء کے لیے کھلے ہیں ،اب جیب میں موجود چھید کو سلوانے کی ضرورت نہیں، کیونکہ جیب خالی ہے۔

آج سوچنے بیٹھا کتنے مہینے کتنے سال گزر چکے ، پھر خیال آیا چھوڑو کیا ضرب وتقسیم کرنا جانے دو ۔

ایک نوکری کے چھوٹنے سے دوسری کے حصول تک کا وقفہ بھی عجیب ہوتا ہے، ابتدا میں شاہی ہوتی ہے اور اپنے آپ کو سمجھا رہے ہوتے ہیں کوئی بات نہیں کچھ دن عیش کے ہی سہی

اب ہر کسی کو اپنے باوا سے میراث میں سلطنت تھوڑی ملتی ہے۔ کسی کا باپ مزدور، کلرک یا غریب اسکول ماسٹر بھی ہو سکتا۔

ہاں بے روزگاری میں شروع کے دن اچھے ہوتے ہیں پھر جیسے جیسے دن گذرتے ہیں کیفیت تبدیل ہوتی جاتی ہے۔ پچھلے سالوں کی جمع پونجی ختم ہونی شروع ہو جاتی ہے۔ گھر والے جو ابتداء میں ہمت بندھا رہے ہوتے ہیں خود ہمت ہارنا شروع کر دیتے ہیں،تلاش میں شدت آتی جاتی ہے اور مزاج میںحدّت ۔

ہر نیا دن ایک نئی امید سے شروع ہوتا ہے اور ایک نئی مایوسی پر ختم ہو جا تا ہے۔شروع شروع میں کاندھے پر ہاتھ مار کر ہمت بڑھانے والے دوست نظریں چرانا شروع کر دیتے ہیں کہ ،کہیں قرض ہی نہ مانگ بیٹھے،ویسے عجیب بات ہے، بے کاری میں ادبی جراثیم بڑی تیزی سے پرورش پاتے ہیں، اشعار میں روانی آ جاتی ہے اور افکار میں جوانی ۔ویسے یہ بات کبھی سمجھ نہیں آتی کہ اتنے اونچے اونچے خیالات بے روزگاری میں ہی آخر کیوں آتے ہیں،ویسے یہ بھی سچ ہے کہ خالی دماغ شیطان کا گھر ہوتا ہے۔

ابھی کل ہی بڑی سنجیدگی کے ساتھ ذہین میں خیالات آ رہے تھے کہ " یہ ڈاکو بھی تو انسان ہی ہوتے ہیں، ہوگی بے چاروں کی مجبوری، اب اگر مال والوں سے کچھ لوٹ لیا تو کیا ظلم کیا "۔ویسے نمازوں میں پختگی آتی جا رہی ہے اور خشوع و خضوع بڑھتا جا رہا ہے لیکن رخ عجیب ہے،الله معاف کرے ،کنوارہ ہر نیکی اس امید پر کرتا ہے کہ بیوی مل جائے۔اور بے روزگار اس امید پر کہ نوکری مل جائے...!

ویسے نوکری اور چھوکری کا پرانا ساتھ ہے بلکہ دونوں ہمدم دیرینہ ہیں اور آج کل لازم و ملزوم،نوکری نہیں تو چھوکری بھی نہیں۔عجیب شے ہے انسان بھی اپنے دل میں شاہی کی خواہش رکھتا ہےاور عجیب شے ہے یہ بے روزگاری بھی شاہی میں فقیری کا لطف دیتی ہے۔

زندگی کا ڈھانچہ عجیب انداز میں بدل رہا ہے پہلے کی ضروریات آج عیاشی لگنے لگی ہیں اور پہلے کی عیاشیاں آج ناقابل معافی جرم دکھائی دیتی ہیں۔اب تو والد محترم بھی عجیب نگاہوں سے دیکھنے لگے ہیں، جیسے دل ہی دل میں کہہ رہے ہوں، لڑکا آوارہ ہو گیا ہے۔یہ اپنے آپ کو لڑکا کہنا بھی کتنا اچھا لگتا ہےاب کیا کریں جب تک کنوار پنا ہے تب تک تو ہم لڑکپن میں ہی ہیں۔

راتوں کو تھک کر سونا خواب ہوا،اب تو رات گئے کسی اداس اُلو کی طرح کسی چورنگی پر قائم پٹھان کے ہوٹل پر چائے کی پیالی اور سگریٹ کے دھویں میں اپنا غم غلط کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

آج عجیب متضاد کیفیات سے گزرنا پڑا، جب سڑی دھوپ کے اندر بغل میں " سی وی " دابے جوتا گھسائی کرتے ہوئے اپنے ہی پسینے کی بو سے دماغ پھٹنے لگا تو خیال آیا، مجھ سے زیادہ ناکارہ شے، اس دنیا میں اور کیا ہوگی، پھر ایک گندے سے ٹھیلے کے میلے سے گلاس میں شکنجبین پیتے ہوئے اپنے آپ کو اس شاہ کی طرح محسوس کر رہا تھا، جس کی شاہی اس کی آزادی ہی تو ہے ......

کبھی کبھی دل کرتا ہے کچھ بھی کر لوں ایک بار ایک کنسٹرکشن سائٹ پر نکل گیا ،سوچا کیوں نہ پتھر کوٹے جائیں لیکن پھر دل کو یہ دلاسہ دیا نہیں نہیں،محنت و مشقت کا کام ہم سے نہیں ہوسکتا۔بڑی دیر ہوئی فجر کی اذانیں ہوئے، نماز پڑھ کر سونے کی تیاری کروں،شاید کل کی مشقت آج پھل دے جائے، دن تو سوتے ہوے گزرے ،مگر شام کو کہیں سے کوئی نیا سورج طلوع ہوکر دروازے پر دستک دے .......

ویسے مجھے امید ہے میری قسمت میرے سونے سے پہلے ہی جاگ جائے گی،صبح کا سورج طلوع ہونے سے پہلے۔

(حسیب احمد حسیب)

تازہ ترین